مضمون: اللہ کے کلام سے علاج

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

امن کی پکار

 

اللہ کے کلام سے علاج

 

بیٹی

 

السّلام علیکم

 

بیٹی! اللہ تعالٰی نے انسان کی تخلیق کی، اس دنیا میں امتحان کے لئے بھیجا کہ وہ دنیا میں صبر کرتا رہے۔ امتحان کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ مثلاً:-

 

٭تنگ دستی،

٭اولاد کا نہ ہونا،

٭بیماری،

٭وغیرہ۔

 

بیٹی! مختصر یہ کہ جب آپ کی پیدائش ہوئی تھی تو اس وقت سے آپ کی دائیں آنکھ کا مسئلہ جنم لے چکا تھا۔ آپ جانتی ہیں کہ اس ضمن میں اللہ تعالٰی نے آپ کا علاج کروایا۔

 

بیٹی! اب یہ جو سر درد ما مسئلہ جنم لیا ہے، آیا یہ آنکھ سے جنم لیا ہے یا آزادانہ طور پر جنم لیا ہے۔ مختصر یہ اس ضمن میں آپ نے پاکستان میں بھی علاج کروایا اور پھر انگلینڈ آ کر بھی، اللہ کے فضل وکرم سے، ہر طرح سے آپ کے سردرد کی وجوہات کا معائنہ ہو گیا ہے۔ انگلینڈ کے کنسلٹینٹس کی تحقیق کے مطابق سرجری کرنا بہت خطر ناک ہے اور کوئی ایسی دوا نہیں کہ اس سردرد کا علاج کر سکے بجز اس بات کے کہ جب سر میں درد امنڈ آئے تو پین کلر لے لئے جائیں۔ اس کے علاوہ دماغ پر اگر سٹریس نہیں ہوگی تو سردرد کا انٹر ویل بڑھ سکتا ہے۔ یعنی کئی دن گزر سکتے ہیں کہ درد امنڈ آئے۔

 

بیٹی! آپ نے جو انگلینڈ میں آکر مجھے اپنی بیمار ی کی ہسٹری بتلائی تو اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ آپ کا روحانی علاج کیا جائے۔

 

بیٹی! ایلوپیتھک میں ڈاکٹر صرف اندرونی اور بیرونی جسمانی اعضأ کی تحقیق کرتے ہیں اور دوا تجویز کرتے ہیں۔ ایلو پیتھک کا مقصد مریض کو عارضی طور پر بیماری کی تکلیف کے احساس کو محو کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے ایلو پیتھک کی دوائیں ہمیشہ لیتے رہنا ہوتا ہے۔ حکیم اندرونی اور بیرونی اعضأ کی تحقیق کے علاوہ مریض کی ذاتی زندگی سے متعلق بھی سوال کرتا ہے: مثلاً: ازواجی زندگی سے متعلق کے شوہر اور بیوی میں ایسے اختلاف تو نہیں کہ بیماری نے جنم لیا ہے یعنی ڈیپریشن، روزمرہ کی زندگی میں شرعیت کی کس قدر پابندی کی جاتی ہے، وغیرہ۔ مختصر یہ کہ حکیم جو دوا تجویز کرتا ہے اس سے بیماری کا علاج ہو جاتا ہے اور حکیم کی دوا ہمیشہ نہیں لینی پڑتی۔

 

بیٹی!الحمد للہ! آپ میر ی بیٹی ہیں۔ پیدائش سے لے کر آج تلک آپ کی زندگی میرے دل و دماغ میں ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ، کم و بیش، چالیس سال سے منصوبہ: امن کی پکار کے ضمن میں قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جا رہا ہے اور مضامین لکھے جا رہے ہیں ے نیز ویب سائٹ: یو ٹیوب پر حکیموں کے ویڈیو کلپس سننے کی وجہ سے صحت اور تندرستی کے راز بھی افشاں ہو رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ اسی وجہ سے، اللہ کی توفیق سے، سمجھ میں آیا کہ آپ کا روحانی علاج ہونا چاہیے۔

 

روحانی علاج اللہ کے کلام سے کس طرح ہو سکتا ہے؟

 

بیٹی! حقیقت میں انسان اپنی دنیا اور آخرت کی زندگی میں سکون کا متلاشی ہے۔ دنیا میں سکون نفس کے تزکیہ سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ دنیا میں اگر انسان اندرونی اور بیرونی جسمانی بیماریوں پر، اللہ کے فضل و کرم سے، صبر کرتا رہتا ہے تو اسے کے دل میں سکینت اور دماغ میں سکون جنم لیتا رہتا ہے جو کہ دنیا کی زندگی کا مقصد ہے۔

 

بیٹی! مختصر یہ کہ اللہ کا کلام جب خلوص دل سے پڑھا جائے گا، سنا جائے گا، سمجھا جائے گا اور اس پر عمل کیا جائے گا تو نفس کا تزکیہ ہوتا رہے گا۔ انسان سے اللہ تعالٰی کی نافرمانیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن جب وہ نافرمانی کرتا ہے تو اسے اللہ کی نافرمانی کرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ لیکن جب اللہ کے کلام کو سمجھا جاتا ہے اوراس پر خلوص دل سے عمل کیا جاتا ہے تو اسے اللہ تعالٰی کی نافرمانیوں کا احسا س ہوتا ہے اور پھر وہ خلوص دل سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کا نفس جو پراگندہ ہو چکا تھا وہ پاکیزہ ہو جاتا ہے۔

 

بیٹی!الحمد للہ! آپ کے روحانی علاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ لیکن سر درد کا علاج آپ کے ہاتھ میں ہے۔

 

بیٹی! علمائے کرام قرآن اور حدیث کی روشنی میں بتلاتے ہیں کہ اللہ کے کلام کا ہر حرف اور ہر لفظ اور ہر آیت کیمیا ہے۔ جب بندہ خلوص دل سے اللہ کے کلام کو جس نیت سے بھی پڑھتا ہے، سمجھتا ہے اور عمل کرتا ہے تو اللہ کا کلام نفس پر دھیرے دھیرے حملہ کرتا رہتا ہے اور نفس کی پراگندگی کو نکالتا رہتا ہے، جس طرح بلیچ گندے کپڑوں کی میل کو نکالتا رہتا ہے اور گندگی پانی میں شامل ہو جاتی ہے اور کپڑا دھونے کے بعد صاف و ستھرا ہو جاتا ہے۔ جس طرح بلیچ کو کپڑوں سے گندگی نکالنے کے لئے ایک لمبے وقت کی ضرورت ہے، مثلاً: رات کو گرم پانی میں بھگوئیں گے تو صبح تلک بلیچ گندگی کو کپڑوں سے نکالتا رہے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ بلیچ میں کپڑے بھگوئے اورایک گھنٹے کے بعد دھو لئے اور کپڑے صاف ستھرے ہو گئے۔

 

بیٹی! مختصر یہ کہ آپ کے دل و دماغ پر حالات حاضرہ کی فضا اور ماحول کے پردے حائل ہو چکے ہیں جو کہ شرعیت کے منافی ہیں۔ اس لئے آپ کے تزکیہ نفس میں کافی وقت درکار ہو گا۔ لیکن اگر آپ خلوص نیت سے نفس کا تزکیہ کرنا چاہیں گی اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے مدد فرماتے رہیں گے۔

 

بیٹی! نفس کا تزکیہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ آپ کو اللہ کی نافرمانیوں کا احساس ہونا شروع ہو جائے گا اور آپ اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کی توفیق مانگیں گی۔ اللہ تعالٰی رحمان اور رحیم ہیں۔ اللہ تعالٰی نہ صرف نافرمانیوں کو معاف فرما دیں گے بلکہ نافرمانیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیں گے جس کا ذکر اللہ کے کلام قرآن پاک میں ہے:-

 

ترجمہ سورۃ الفرقان آیت نمبر 70

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

الا من تاب و اٰمن و عمل عملاً صالحاً فاولٰئک یبدل اللہ سیاٰ تھم حسٰنٰت ط و کان اللہ غفورًا رحیما۔

مگر جس نے توبہ کی اور یقین لایا اور کیا کچھ کام نیک سو ان کو بدل دے گا اللہ برائیوں کی جگہ بھلایاں اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان۔

 

بیٹی! یہ قدرتی امر ہے کہ جب انسان اللہ تعالٰی کی توفیق سے نفس کا تزکیہ کرنا شروع کرتا ہے تو نفس اور شیطان کا کام نفس کا تزکیہ کرنے سے روکنا ہوتا ہے۔ الحمد للہ! ضمیر نفس اور شیطان کے واروں کو روکنا شروع کر دیتا ہے۔ اس لئے انسان کی کوشش سے جب ضمیر کی نفس اور شیطان پر فتح ہو جاتی ہے تو نفس کا تزکیہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

 

نفس کا تزکیہ کس طرح ہو سکتا ہے؟

 

بیٹی! الحمد للہ! اللہ تعالٰی نے انسان کو عقل دی ہے۔جب بچہ ماں کی کوکھ سے جنم لیتا ہے تو وہ ایک انسان ہوتا ہے اور اس کے دل و دماغ میں اپنی ضروریات کو بتلانے کا پیغام ہوتا ہے جس کے لئے وہ عقل کا استعمال کرتا ہے۔ بچے کی زبان رونا ہے۔ بچہ اس وقت روتا ہے جب اسے:-:

 

٭بھوک لگ رہی ہو،

٭ سردی لگ رہی ہو،

٭گرمی لگ رہی ہو،

٭اس نے پوٹی یا پیشاب کردیا ہو جس کی وجہ سے وہ بے چینی محسوس کر رہا ہو،

٭جب اس کے کپڑے گیلے ہو گئے ہوں،

٭جب کپڑوں کی میل سے وہ بے چین ہو رہا ہو،

٭ وغیرہ۔

بیٹی!!اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق بچہ جب روتا ہے تو ماں اس کا پیغام سمجھ جاتی ہے۔ جب بچے کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو وہ رونا بند کر دیتا ہے۔

 

بیٹی! بچہ کی عمر جیسے جیسے بڑھتی جاتی ہے اس کے شعور میں پختگی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ عقل کے ذریعے اسے سوچنا ہوتا ہے کہ کائنات کی مخلوقات جو اس کو زندہ رکھ رہی ہے اور اس کی ضروریات کو پورا کر رہی ہے، کیا وہ اس کے حکم سے پورا کر رہی ہے یا قدرت کے قانون کی وہ حکمبردار؟

 

بیٹی! مختصر یہ کہ شرعی طور پر یہ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کی تربیت اس انداز میں کرتے رہیں کہ ہر مخلوق اللہ کی حکمبردار ہے۔ اگر ماں باپ سے کسی وجہ سے کوتاہی ہو جاتی ہے تو وہ خود اپنی عقل کا استعمال کرے اور، اللہ تعالٰی کی توفیق سے، وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مخلوق جو اس کی خدمت کر رہی ہے وہ اللہ تعالٰی کے حکم سے کر رہی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر وقت اللہ کا شکر گزار ہوگا۔ اور اللہ تعالٰی کا شکر گزار ہونا اللہ تعالٰی کا ذکر کرتے رہنے کے مترادف ہے جو کہ انسان کی زندگی کا مقصد ہے جس کا ذکر اللہ کے کلام قرآن پاک میں ہے:-

 

ترجمہ سورۃالدھر آیت نمبر3 – 1

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

کبھی گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں کہ نہ تھا وہ کوئی چیز جو زبان پر آتی۔

 

ہم نے بنایا آدمی کو ایک دو رنگی بوند سے ق ہم پلٹتے رہے اس کو پھر کر دیا اس کو ہم نے سننے والا دیکھنے والا۔

 

ہم نے اس کوسجھائی راہ یا حق مانتا ہے اور یا ناشکری کرتا ہے۔

 

بیٹی! انسان ہر وقت کسی نہ کسی عمل میں مصروف ہوتا ہے۔ کھانا پکانے کے لئے آگ کے پاس کھڑا ہوتا ہے، سبزی وغیرہ کاٹنے کے لئے چھری کا استعمال کرتا ہے، پیاس بجھانے کے لئے پانی کا استعمال کرتا ہے، کھانا کھاتے ہوئے لقمہ منہ میں ڈال کر کھانے کی نالی میں نگلتا ہے، وغیرہ۔

 

بیٹی! کھانا پکاتے ہوئے انسان آگ کے قریب کھڑا ہوتا ہے۔ اگر اس کے کھڑے ہونے زوایہ صحیح نہیں ہے تو آگ اسے جلا بھی سکتی ہے۔ صحیح زاوئیے پر کون اسے کھڑا رہنے کی توفیق دیتا ہے؟

 

اللہ

بیٹی! سبزی کو کئی زاوئیوں سے کاٹا جاتا ہے۔ چھری کی نوک اوپر کی طرف بھی ہوتی ہے جو ذرا سے بے پرواہی سے آنکھ میں بھی لگ سکتی ہے یا ہاتھ وغیرہ کو کاٹ بھی سکتی ہے۔ چھری آنکھ میں لگنے سے اور ہاتھ وغیرہ کے کٹنے سے کون بچاتا ہے؟

 

اللہ

 

بیٹی! پانی پیتے ہوئے پانی کھانے کی نالی کی بجائے ہوا کی نالی میں چلا جائے تو موت بھی واقعہ ہو سکتی ہے۔ پانی کو ہوا کی نالی میں چلے جانے سے کون بچاتا ہے؟

 

اللہ

 

بیٹی! کھانے کا لقمہ ہوا کی نالی میں جانے سے کون بچاتا ہے؟

 

اللہ

 

بیٹی!اسی طرح پوری فضا میں مٹی کی ذرات ہیں، مکھی، مچھر وغیرہ اڑتے پھرتے ہیں۔ ان کو کان، آنکھ، منہ، یا ناک میں جانے سے کون بچاتا ہے؟

 


اللہ

 

بیٹی!جب انسان اس بات کا احساس کرتا رہتا ہے کہ اس کے ہر عمل میں وہ اللہ تعالٰی کا محتاج ہے تو وہ اللہ تعالٰی کا شکر گزار ہوتا ہے۔ جو کہ اللہ تعالٰی کے قریب ہونے کا ذریعہ ہے۔

 

بیٹی!مختصر یہ کہ جب انسان ہر وقت اللہ تعالٰی کا احسان مند رہے گا اور شکر گزار رہے گا تو اس کا نفس، اللہ تعالٰی کی توفیق سے پاکیزہ ہوتا رہے گا۔

 

بیٹی!جب انسان اس بات کا احساس کرتا رہتا ہے کہ اس کے ہر عمل میں وہ اللہ تعالٰی کا محتاج ہے تو وہ اللہ تعالٰی کا شکر گزار ہوتا ہے، جو کہ اللہ تعالٰی کے قریب ہونے کا ذریعہ ہے۔ مختصر یہ کہ مندرجہ بالا ایسے اعمال ہیں جو انسان ہر وقت کرتا ہے لیکن نفس اور شیطان ان اعمال کے کرنے کو اللہ تعالٰی کی طرف منسوب نہیں کرتے بلکہ اپنی ذات (انسان) طرف منسوب کرتے ہیں۔

 


بیٹی!جب انسان اس بات کا احساس کرتا رہتا ہے کہ اس کے ہر عمل میں وہ اللہ تعالٰی کا محتاج ہے تو وہ اللہ تعالٰی کا شکر گزار ہوتا ہے۔ جو کہ اللہ تعالٰی کے قریب ہونے کا ذریعہ ہے۔ سدرۃ! اس لئے آپ کو نفس کے تزکیہ کے لئے صرف اتنا کرنا ہے کہ کہ جو بھی عمل کریں تو اس طرح ذکر کیا کریں:-

 

٭میں نے اللہ کے فضل و کرم سے یا اللہ کی توفیق سے یہ عمل سرانجام دیا۔ یا

 

٭الحمد للہ! میں نے یہ عمل سرانجام دیا۔

 

بیٹی! الحمد للہ! اللہ کے کلام کے ذریعہ سے آپ کا روحانی علاج شروع ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی ناغہ نہیں ہونا چاہیے خواہ آپ کی طبیعت کتنی ہی نا ساز ہو۔ اگر طبیعت ناساز ہے تو بیٹھ تو سکتی ہوگی، سن تو سکتی ہوگی۔ اگر ناغہ ہو جائے گا تو پھر آپ اپنی ناساز طبیعت سے متعلق ہی سوچتی رہیں گی جو کہ آپ کی صحت کی بحالی کے لئے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ طبیعت کے ناساز ہوتے ہوئے بھی اللہ کا کلام سنیں گی تو آپ کا دل اور دماغ اللہ کے کلام کی طرف متوجہ ہوگا اور اپنی ناساز طبیعت کی طرف سے ہٹ جائے گا،

 

بیٹی!الحمد للہ! آپ روزانہ اللہ کے کلام کی تلاوت کرتی ہیں۔ اللہ کے کلام کے سبق کے علاوہ جو دن ہیں، ان میں آپ اللہ کے کلام کی تلاوت کرنے کی بجائے، سردست، سورہ فاتحہ اور سورۃ البقرہ کی پہلی دس آیات کی تلاوت کیا کریں اور اس کا ترجمہ آواز میں پڑھا کریں۔ جب آپ اللہ کے کلام کی تلاوت کریں گی اور ترجمہ پڑھیں گی تو جو اللہ کی توفیق سے آپ نے اللہ کے کلام کی تفسیر سنی ہے وہ دل اور دماغ میں جنم لیتی رہے گی جو آپ کو اچھے کام کرنے اور غلط کام کرنے سے بچائے گی اور اللہ تعالٰی کے فضل وکرم سے آپ کے نفس کا تزکیہ ہوتا رہے گا۔

 

بیٹی! اگر طبیعت زیادہ ناساز ہو تو صرف قرآن پاک کھول کر اللہ کے کلام کی سطور پر انگلی پھیرے ہوئے اللہ کے کلام کو دیکھتی رہیں۔ اللہ کے کلام کی عبارت کو دیکھنا بھی اللہ کی عبادت کے ضمن میں آتا ہے۔

 

لب لباب

 

بیٹی! مختصر یہ کہ اللہ کا کلام آپ کے روحانی علاج کے لئے دوا ہے۔ جس طرح دنیاوی دوا بیمار ی کودور کرنے کے لئے بروقت لینا ہوتی ہے اسی طرح، سر دست، آپ کی مکمل طور پر صحت یابی کے لئے اللہ کے کلام کا ترجمہ اور تفسیر کو سننے میں کوئی ناغہ نہیں ہونا چاہیے۔

 

بیٹی! چالیس سال کی عمر تلک انرجی جسم میں وقت جنم لیتی رہتی ہے۔ چالیس سال کے بعد اتنی انرجی نہیں جنم لیتی جتنی انسان روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتا ہے۔ اس لئے چالیس سال کی عمر کے بعد انسان کو ریزیرو انرجی اور ول پاور کو استعمال کرتے رہنا ہوتا ہے۔

 

بیٹی! اس وقت آپ ریزیرو انرجی کا زیادہ استعمال کر رہی ہیں جس کے ساتھ ول پاور بھی شامل ہے۔ لیکن آپ کے لئے ضروری ہے کہ ریزیرو انرجی کا کم استعمال کریں۔ انشأ اللہ! اللہ کا کلام آپ کی سٹریس میں کمی کرتا رہے گا اور سر کے درد کے جنم لینے میں انٹرویل زیادہ ہوتا چلا جائے گا۔ اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق سر درد ختم نہیں ہوگا:-

 

You have to live with it.

 

بیٹی! آپ کے لئے اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک امتحان ہے جس کے لئے صبر کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ صبر کرتے رہنا اللہ کو بہت پسند ہے۔ صبر کے عربی لغت میں معنی اللہ کی عبادت کرنے کے ہیں۔ کس طرح؟ یہ ایک علحیدہ مضمون ہے۔ مختصر یہ کہ جب انسان کو نماز ادا کرنے، زکواۃ دینے، روزہ رکھنے، حج کرنے کا وقت آتا ہے تو نفس اور شیطان سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جب نفس اور شیطان پر غلبہ پا لیا جاتا ہے تو وہ صبر کرنے کی نشانی ہے۔کیونکہ نفس اور شیطان کو پچھاڑنا ہے بہادری کی نشانی ہے۔

 

روحانی علاج اور اللہ کے قریب سے قریب تر ہونے کے لئے لائحہ عمل کا ایک خاکہ

 

بیٹی! الحمد للہ! اللہ تعالٰی کی توفیق اور فضل و کر م سے، ذیل میں ایک لائحہ عمل کا خاکہ سپرد قلم کیا جا رہا ہے۔ اس پر عمل کرنے سے، اللہ کے فضل و کرم سے، آپ کا روحانی علاج بھی ہوتا رہے گا اور آپ بطور انسان اللہ تعالٰی کی ذات یکتا کے فریب بھی ہوتی رہیں گی۔ حدیث پاک کے ذریعے اللہ تعالٰی کے ارشاد کا مفہوم ہے:-

 

جب بندہ فرض اور نفل عبادات کے ذریعہ سے اللہ تعالٰی سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے تو اللہ تعالٰی، اپنے فضل و کرم سے، اس کے دل و دماغ میں سما جاتے ہیں اور ہر عمل کرتے ہوئے بندہ اللہ تعالٰی کاشکر گزار ہوتا رہتا ہے، اور دنیا میں اس پر اللہ کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے یعنی دل میں سکینت جنم لیتی رہتی ہے اور دماغ میں سکون جنم لیتا رہتا ہے اور آخرت کی زندگی کے لئے اللہ تعالٰی کی رضا کا حصول ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں بندے کو جنت میں ہمیشہ کے لئے اللہ تعالٰی کی نعمتوں سے مستفید ہوتے رہنے کا پروانہ ملتا ہے جو کسی آنکھ نے نہ دیکھی نہ کسی کان نے سنی اور نہ کسی کے وہم و خیال میں آ سکتی ہیں۔

 

اللہ تعالٰی کی ذات یکتا کو پہچاننا

 

بیٹی!سوال جنم لیتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی ذات کو کس طرح جانا جائے اور کس طرح پہچانا جائے؟

 

بیٹی!مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی علیم ہونے کے ناطے سے جانتے تھے کہ انسان کے ذہن میں یہ سوال جنم لے گا کہ اللہ تعالٰی کون ہیں؟

 

بیٹی!اللہ تعالٰی نے، اپنے فضل و کرم سے، جواب حدیث قدسی کے ذریعہ سے دیا جس کا مفہوم ہے:-

 

میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔

میں نے چاہا کے پہچانا جاؤں۔

پس میں نے جن و انس کی تخلیق کی۔

 

بیٹی! انسان کے ذہن میں یہ خیال جنم لیاکہ ہم نے مان لیا کہ کہ اللہ تعالٰی ایک چھپا ہوا خزانہ ہیں۔ لیکن اللہ کا حسب و نسب کیا ہے؟

 

بیٹی!!اللہ تعالٰی نے جواب، اپنے فضل و کرم سے، سورۃ اخلاص میں دے دیا:-

 

سورۃ اخلاص

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

قل ھواللہ احد۔ ج اللہ الصمد۔ج لم یلد لا ولم یو لد۔لا

ولم یکن لہ کفوًا احد۔

 

تو کہہ! وہ اللہ ایک ہے۔ ج اللہ بے نیاز ہے۔ج نہ کسی کو جنا لا

نہ کسی سے جنا۔ لا اور نہیں اس کے جوڑ کا کوئی۔

 

بیٹی! انسان کے ذہن میں اگلا سوال جنم لیا کہ مان لیا کہ اللہ کی ذات یکتا ہے، اللہ تعالٰی کا کوئی حسب و نسب نہیں ہے لیکن ہم اللہ تعالٰی کی ذات کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟

 

بیٹی! اللہ تعالٰی نے،اپنے فضل و کرم سے، اپنی پہحان کے لئے مندرجہ ذیل آیات کا نزول کیا:-

 

سورۃ الاعراف آیت نمبر 54

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے پیدا کئے آسمان اور زمین چھ دن میں پھر قرار پکڑا عرش پر قف اڑھاتا ہے رات پر دن کہ وہ اسے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا، اور پیدا کئے سورج اور چاند اور تارے تابعدار اپنے حکم کے ط سن لو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا ط بڑی برکت والا ہے اللہ جو رب ہے سارے جہان کا۔

 

ترجمہ سورۃ الحدید آیت نمبر6 –
4

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

جس نے بنائے آسمان اور زمین چھ دن میں پھر قائم ہوا تخت پر ط جانتا

ہے جو اندر جاتا ہے زمین کے اور جو اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ اترتا ہے آسمان سے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے ط اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو ط اور اللہ جو تم کرتے ہو اس کو دیکھتا ہے۔

 

اسی کے لئے راج ہے آسمانوں کا اور زمین کا ط اور اللہ ہی تک پہنچتے ہیں سب کام۔

 

داخل کرتا ہہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں ط اور اس کو خبر ہے جیوں کی بات کی۔

 

بیٹی! اللہ کی ذات نے کائنات کی تخلیق کی۔ اللہ کی ذات غیب میں ہے۔ انسان اس کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے اور اللہ تعالٰی کی تخلیق شدہ مخلوقات سے مستفید ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح سے انسان اللہ تعالٰی کی ذات یکتا کہ پہچان سکتا ہے۔

 

بیٹی!یہ ایک قدرتی امر ہے کہ کسی کی ذات اس ذات کی تخلیقات اور ایجادات سے ہی نہ صرف پہچانی جاتی ہے ہے بلکہ اس ذات پر یقین لایا جاتا ہے۔ مثلاً:-

 

ریل گاڑی کے انجن کی ایجاد

 

بیٹی! ریل گاڑی کے انجن کی ایجاد جارج سٹیفن نے، اللہ تعالٰی کی توفیق سے، صدیوں پہلے کی تھی۔ بنی نوع انسان نے جارج سٹیفن کو دیکھا نہیں بجز ان بندوں کے جو اس وقت زندہ تھے۔ لیکن ریل گاڑی کا انجن اس کی ذات کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ یقین لاتا ہے کیونکہ ریل گاڑی کا انجن نہ صرف موجود ہے بلکہ اس کی جزیات میں ترقی بھی ہو رہی ہے اور ہر ترقی جارج سٹیفن کے نام سے منسوب ہوتی ہے۔

 

ہوائی جہاز کی ایجاد

 

بیٹی! ہوائی جہاز کے انجن کی ایجاد، اللہ تعالٰی کی توفیق سے، رائٹ برادرز نے صدیوں پہلے کی تھی۔ لوگ نہ رائٹ برادرز کو جانتے ہیں اور نہ انہوں نے دیکھا ہے۔ لیکن ہوائی جہاز کے مشاہدہ کی وجہ سے لوگ رائٹ برادرز کا ہوائی جہاز کا موجد تسلیم بھی کرتے ہیں اور مانتے بھی ہیں۔

 

بیٹی! اسی طرح بلا شبہ اللہ تعالٰی کی ذات غیب میں ہے۔ لیکن اللہ تعالٰی کی کائنات اور مخلوقات اللہ تعالٰی کی ذات کی گواہی دیتی ہیں کہ ان مخلوقات کا کوئی خالق ہے اور وہ ذات اللہ تعالٰی کی ذات ہے۔

 

اللہ تعالٰی کی قدر کرنا

 

بیٹی! امختصر یہ کہ اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے، ہر لحظہ انسان پر اللہ کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے جس کی بنأ پر انسان کو اللہ تعالٰی کی قدر کرتے رہنا لازم ہے۔ سوال جنم لیتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی قدر دل و دماغ میں کس طرح سے جنم لے سکتی ہے؟

 

بیٹی! االلہ تعالٰی بصیر ہیں اور بندہ کی ذات ہر لحظہ اللہ کے سامنے رہتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے جب انسان کو زمین پر بھیجا تھا تو اسے اپنے جسم کو پردہ میں ر کھنے کی ہدایت کی تھی:-

 

ترجمہ سورۃ الاعراف آیت نمبر26

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

یٰبنی اٰدم قد انزلنا علیکم لباسا یّواری سو اٰتکم و ریشا ط ولباس التقوٰی لا ذٰلک خیر ط ذٰلک من اٰیٰت اللہ لعلّھم یذّکرون۔

 

اے اولاد آدم کی! ہم نے اتاری تم پر پوشاک جو ڈھانکے تمہاری شرمگاہیں اور اتارے آرائش کے کپڑے اور لباس پرہیز گاری کا وہ سب سے بہتر ہے ط یہ نشانیاں ہیں اللہ کی قدرت کی تاکہ وہ لوگ غور کریں۔

 

ترجمہ سورۃ الاعراف آیت نمبر27

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

یٰبنی اٰدم لا یفتننّکم الشیطٰن کما اخرج ابویکم مّن الجنتہ ینزع عنہما لباسھما لیریھما سو اٰتھما ط انہ یرٰکم ھو و قبیلہ من حیث لا ترونھم ط انا جعلنا الشیطٰن او لیاء للّذین لا یومنون۔

 

اے اولاد آدم کی! نہ بہکائے تم کو شیطان جیسا کہ اس نے نکال دیا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے اتروائے ان سے ان کے کپڑے تاکہ دکھلائے ان کو شرمگاہیں ان کی ط وہ دیکھتا ہے تم کو اور اس کی قوم جہاں سے تم نہیں دیکھتے ط ہم نے کر دیا شیطانوں کو رفیق ان لوگوں کا جو ایمان نہیں لاتے۔

 

بیٹی!مختصر یہ کہ دنیا کی زندگی میں جب انسان کسی اعلٰی منصبدار کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے، مثلاً: قاضی کی عدالت میں، تو وہ اس مناسبت سے اپنا لباس زیب تن کر کے جاتا ہے تاکہ قاضی کی آنکھیں نا پسنددید گی کا اظہار نہ کریں۔ اسی طرح انسان کو ہر وقت ایسے لباس میں رہنا چاہیے کہ اللہ کی نگاہ میں وہ نا پسندیدہ نہ ٹہرے۔

 

اللہ کے کلام کی قدر

 

بیٹی!! اللہ کا کلام، قرآن، بنی نوع انسان کے لئے ہدایت ہے۔ کلام پاک کی قدر کرنے کے مندرجو ذیل آداب ہیں:-

 

٭انسان کا جسم اگر پاک و صاف ہے تو کلام پاک کو چھونے سے پیشتر باوضو ہونا لازم ہے۔ اللہ کا کلام پاک ہے اس لئے اللہ کے کلام کو باوضو چھونا چاہیے اور باوضو ہی قرآن پاک کی تلاوت کرنی چاہیے۔

 

٭اللہ کے کلام کی تلاوت کے لئے گھر میں ایسی جگہ منتخب کی جائے جو واش روم وغیرہ سے پردے میں ہو۔

 

٭قرآن پاک کی ہدایت کے مطابق حجاب کی پابندی کی ہوئی ہو۔

 

٭دو زانوں یا آلتی یالتی مار کر زمین پر بیٹھا جائے اور قرآن پاک کو رہل پر رکھا جائے۔

 

بیٹی! مختصر یہ کہ انسان کی زندگی کا مقصد علم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ علم کی بنیاد مشاہدہ اور تجربہ ہے جو تحریر میں لایا جاتا ہے۔ علم قرآن ، حدیث ، نماز، مدارس ،دارالعلوم، سکول، کالج، یونیورسٹی، وغیرہ سے حاصل ہوتا ہے۔ کسی بھی ذریعہ سے علم کا حصول کرنے سے پیشتر مندرجہ ذیل آیات کی بطور دعا تلاوت کریں:

 

ترجمہ سورۃاحزاب آیت نمبر 42 – 41

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

یا ایھا الذین اٰمنوااذکروااللہ ذکراً کثیرا۔ لا وہ سبحوہ بکرۃواصیلا۔

اے ایمان والو! یاد کرو اللہ کی بہت سی یاد۔ لا اور پاکی بولتے رہو اس کی صبح اور شام۔

(دعا: اے اللہ! مجھے ، اپنے فضل و کرم سے، اپنا ذکر کرتے رہنے کی توفیق عطا فرما)

 

سورۃالانعام آیت نمبر164

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العٰلمین۔

تو کہہ کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا مرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو پالنے والا سارے جہان کا ہے۔

(دعا: اے اللہ! مجھے ، اپنے فضل و کرم سے، اپنی زندگی اپنی ہدایت پر بسر کرتے رہنے کی توفیق عطا فرما )

 

سورۃ طٰہٰ آیت نمیر 114

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اللھم رب زد نی علما۔

اے اللہ! میرے علم میں زیادتی فرما۔

 

سورۃ طٰہٰ آیت نمیر 25 – 28

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

رب اشرح لی صدری۔ لا ویسرلی امری۔ لا واحلل عقدہ من لسانی۔ لا یفقھو قولی۔

اے رب!کشادہ کر دے میرا سینہ۔ لا اور آسان کر میرا کام۔ لا

اور کھول دے گرہ میری زبان سے۔ لاکہ سمجھیں میری بات۔

(دعا: اے اللہ! مجھے ، اپنے فضل و کرم سے، اپنا پیغام بین الاقوامی سطح پر پہنچانے کی توفیق عطا فرما)

 

سورۃ العلق آیت نمبر 5 – 1

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

علم الانسان ما لم یعلم۔ ط

سکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا۔

(دعا: اے اللہ! مجھے ، اپنے فضل و کرم سے، علم کے سمجھنےکی توفیق عطا فرما)

 

ترجمہ سورۃ القمر آیت نمبر

50

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

وما امرنا الا واحدۃ کلمح بالبصر۔

اور ہمارا کام تو یہی ایک دم کی بات ہے جیسے لپک کی نگاہ

(دعا: اے اللہ! مجھے ، اپنے فضل و کرم سے، میری ہر دعا کو چشم زدن میں قبولیت عطا فرما)

 

٭قرآ پاک کی تلاوت شروع کر نے پیشتر سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات تلاوت کی جائیں۔ ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ ہرمخلوق کو اللہ کے کلام کو پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی حقیقت بتلائی گئی ہے کہ اس کے جسم کی پیدائش کی بنیاد ایک ناپاک نطفہ ہے، یعنی وہ خود کو اللہ تعالٰی کی ذات یکتا کے سامنے خود کو حقیر تصور کرے۔ اور یہ کہ اللہ انسان کو وہ علم سکھلاتا ہے جو وہ نہیں جانتا تھا:-

 

سورۃ العلق آیت نمبر 5 – 1

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اقرا باسم ربک الذی خلق۔ ج خلق الانسان من علق۔ ج

اقرا و ربک الاکرم۔ لاالذی علم بالقلم۔ لا

علم الانسان ما لم یعلم۔ ط

 

پڑھ اپنے رب کے نام سے جو سب کا بنانے والا ہے۔ج بنایا آدمی کو جمے ہوئے لہو سے۔ج پڑھ !اور تیرا رب کریم ہے۔لا جس نے علم سکھایا قلم سے۔ لاسکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا۔

 

بیٹی!سورۃ العلق کی آیات کی تلاوت کرنے کے بعد سورۃ المزمل کی پہلی پانچ آیات کی تلاوت کرنی چاہیں۔ ان آیات میں قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ تلاوت کرنے کے بعد یہ دعا کی جائے:-

 

اے اللہ! مجھے تجوید کے ساتھ کلام پاک کی تلاوت کرنے کی اور سمجھنے کی اور خلوص دل سے عمل کرتے رہنے کی توفیق عطا فرما۔

 

سورۃ المزمل آیت نمبر 5 – 1

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

یٰا یھا المزمل۔ لا قم الیل الا قلیلا۔ لا نصفہ اونقض منہ قلیلا۔ لا اوزد علیہ و رتل القراٰن ترتیلا۔ ط انا سنلقی علیک قولا ثقیلا۔

 

اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ لا کھڑا رہ رات کو مگر کسی رات۔لا آدھی رات یا اس میں سے کم کر دے تھوڑا سا۔ لا یا زیادہ کر اس پر اور کھول کھول کر پڑھ قرآن صاف۔ ط ہم ڈالنے والے ہیں تجھ پر ایک بات وزن دار۔

ٗ

بیٹی!سورۃ المزمل کی آیات کی تلاوت کرنے کے بعد سورۃ المدثر کی پہلی پانچ آیات کی تلاوت کی جائے جن کا مفہوم ہے کہ اللہ کے کلام کا پیغام بنی نوع انسان تلک پہنچا دیا جائے۔ آیات کی تلاہت کرنے کے بعد یہ دعا کی جائے:-

 

یا اللہ

اپنے فضل و کرم سے اپنے کلام کا پیغام تمام مخلوق تلک پہنچانے کی توفیق عطا فرما اور اپنے فضل و کرم سے قبول فرما۔

 

سورۃ المدثرآیت نمبر 5 – 1

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

یا یھا امدثر۔ لا ا قم فا نذز۔ لا و ربک قکبر۔ لا ا وثیابک فطہر۔ لا ا والرجز فاھجر۔

 

اے لحاف میں لپٹنے والے۔لا کھڑا ہو پھر ڈر سنا دے۔لا اور اپنے رب کی بڑائی بول۔لا اور

اپنے کپڑے پاک رکھ۔لا اور گندگی سے دور ۔

 

بیٹی!الحمد للہ! مندرجہ بالا دعائیں، اللہ تعالٰی کی توفیق سے، کرنے سے بندہ اللہ کے قریب ہوتا رہتا ہے اور جب وہ کلام پاک کی تلاوت کرتا ہے تو اس کے دل و دماغ میں اللہ تعالٰی کی قدر جنم لیتی رہتی ہے اور اس کی اپنی ذات میں عاجزی اور انکساری کا عنصر جنم لیتا رہتا ہے۔

 

لب لباب

 

بیٹی!اللہ کی قدر کرنے اور اللہ کے کلام کی تلاوت آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی جائے گی تو، اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے، اپنے بندہ کو ہر لحظہ اپنا ذکر کرتے رہنے کی توفیق عطا فرماتے رہیں گے جس کا ذکر اللہ تعالٰی نے اپنے کلام میں کیا ہے:-

 

ترجمہ سورۃاحزاب آیت نمبر 42 – 41

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

یا ایھا الذین اٰمنوااذکروااللہ ذکراً کثیرا۔ لا وہ سبحوہ بکرۃواصیلا۔

اے ایمان والو! یاد کرو اللہ کی بہت سی یاد۔ لا اور پاکی بولتے رہو اس کی صبح اور شام۔

 

بیٹی! الحمد للہٖ! جب بندے کا دل ہر لحظہ اللہ کا ذکر کرتا رہیں گے تو ان کے دلوں میں سکینت جنم لیتی رہے گی اور ان کے لئے دنیا میں خوشحالی اور آخرت کی زندگی میں ہمیشہ کے لئے اچھا ٹھکانا ہوگا یعنی اللہ کی رضا کا حصول اور جنت میں ہمیشہ کے لئے آباد ہو جانا اور اللہ کی نعمتوں سے مستفید ہوتے رہنا جو کسی آنکھ نے نہ دیکھی نہ کسی کان نے سنی اور نہ کسی کے وہم و گمان میں آ سکتی ہیں۔

 

ترجمہ سورۃالرعد آیت نمبر 29 – 28

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

الذین اٰمنو و تطمئن قلوب بذکر اللہ ط الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔ ط الذین اٰمنو وعملو االصٰلحٰت طوبی لہم و حسن ماٰب۔

 

وہ لوگ جو ایمان لائے اور چین پاتے ہیں ان کے دل اللہ کی یاد سے ط سنتا ہے اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں دل۔ ط جو لوگ ایمان لائے اور کام کئے اچھے خوشحالی ہے ان کے واسطے اور اچھا ٹھکانا۔

 


انسان کا حقیر ہونا

 

سدرۃ! سورۃ العلق کی آیت نمبر 2 میں انسان کو ایک ناپاک نطفے سے پیدا کرنے کا بیان ہے:-

 

سورۃ العلق آیت نمبر 5 – 1

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اقرا باسم ربک الذی خلق۔ جخلق الانسان من علق۔ ج

اقرا و ربک الاکرم۔ لاالذی علم بالقلم۔ لا

علم الانسان ما لم یعلم۔ ط

 

پڑھ !اپنے رب کے نام سے جو سب کا بنانے والا ہے۔ج بنایا آدمی کو جمے ہوئے لہو سے۔ج پڑھ !اور تیرا رب کریم ہے۔لا جس نے علم سکھایا قلم سے۔ لاسکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا۔

 

بیٹی! مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق عورت کے رحم میں بالغ ہونے کے بعد خون جم جاتا ہے۔ عورت کے بالغ ہونے کے بعد جب مرد اس کے ساتھ نکاح ہونے کے بعد یا بغیر نکاح کے ہمبستری کرتا ہے تو مرد کی ناپاک منی کا نطفہ عورت کے جمے ہوئے خون میں شامل ہو جاتا ہے جس سے اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق انسان کی تخلیق کا عمل شروع ہو جاتا ہے جس کا ذکر اللہ کے کلام قرآن پاک میں ہے:-

 

ترجمہ سورۃ المؤمنون آیت نمبر 17 – 12

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اور ہم نے بنایا آدمی کو چنی ہوئی مٹی سے۔ ج پھر ہم نے رکھا اس کو پانی کی بوند کر کے ایک جمے ہوئے ٹھکانہ میں۔ ص پھر بنایاا س بوند سے لہو جما ہوا پھر بنائی اس لہو جمے ہوئے سے گوشت کی بوٹی پھر بنائیں اس بوٹی سے ہڈیاں پھر پہنایا ان ہڈیوں پر گوشت ق پھر اٹھا کھڑا کیا اس کو ایک نئی صورت میں ط سو بڑی برکت اللہ کی جر سب سے بہتر بنانے والا ہے۔ ط پھر اس کے بعد تم مرو گے پھر تم قیامت کے دن کھڑے کئے جاؤ گے۔ اور ہم نے بنائے ہیں تمہارے اوپر سات رستے ق اور ہم نہیں ہیں خلق سے بے خبر۔

 

بیٹی! سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق منی کے قطرے کا سائز اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں اس کا تصور بھی نہیں آ سکتا۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ

 

مرد جب عورت کے ساتھ ہمبستری کرتا ہے اور جس مقدار میں اس کی منی کا اخراج ہوتا ہے، اگر اس کے ذرات تمام دنیا کی عورتوں کے رحم میں انجیکٹ کر دئیے جائیں تو تمام عورتوں کو، اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق حمل ٹہر جائے گا۔

 

بیٹی! آئیے اب انسان کے جسم کے اندرونی حصوں کا جائزہ لیتے ہیں:-

 

٭انسان کا گوشت کھانا حرام ہے،

٭انسان کا خون ناپاک ہے،

٭انسان کے پیٹ میں کھانا نجاست میں تبدیل ہو جاتا ہے جو نا پاک ہے،

٭انسان کے بلیڈر میں پانی ناپاک ہو جاتا ہے،

٭عورت کا جسم حیض کے دنوں میں اور بچے کی پیدائش کے بعد ناپاک ہو جاتا ہے،

٭انسان کے پورے جسم میں منی پھیلی ہوئی ہے۔ جب منی کا اخراج کسی بھی حالت میں ہو جاتا ہے تو اس کے جسم کا ہر عضو ناپاک ہو جاتا ہے۔ حتٰی کہ اس کے جسم کی جلد بھی ناپاک ہو جاتی ہے۔

٭وغیرہ۔

 

بیٹی! انسان کے جسم کے اندر سے صرف دو چیزیں لکلتی ہیں جو پاک ہوتی ہیں۔ لیکن جب وہ منہ اور ناک سے نکل آتی ہیں تو انسان کو ان سے کراہت محسوس ہوتی ہے:-

 

٭منہ میں لعاب کا جنم لیتے رہنا،

٭ناک میں سے سینڈ کا نکلنا

 

بیٹی! مختصر یہ کہ انسان چونکہ ناپاک منی کے ذرے کی بنیاد ہے اس لئے اس کے جسم کا اندر اور باہر ناپاک ہے۔ تاہم! الحمد للہ! اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے، انسان کے جسم پر ایک خول یعنی جلد پیدا کر دی ہے جو انسان کے اندرونی اعضأ کی ناپاکی پر پردہ ڈالے ہوئے ہے۔ لیکن جلد اس وقت ناپاک ہو جاتی ہے جب اس پر کوئی ناپاک چیز لگ جائے مثلاً: نجاست، پیشاب، خون وغیرہ،

 

لب لباب

 

بیٹی! مختصر یہ کہ جب تلک، اللہ تعالٰی کی توفیق سے، بندہ خود کو نہ صرف اللہ کی ذات یکتا کی بارگاہ میں، خلوص دل سے، حقیر نہیں تصور کرے گا اس میں عاجزی اورانکساری کا عنصر نہیں جنم لے گا۔ حتٰی کہ بندے کو اللہ تعالٰی کی ہر مخلوق سے خود کو خلوص دل سے حقیر ترین سمجھنا چاہیے۔ اس ضمن میں ایک حکایت رہنمائی کرتی ہے:-

 

حضرت موسٰی علیہ السّلام اللہ تعالٰی کے جلیل القدر پیغمبر ہیں۔ اللہ تعالٰی نے، اپنے فضل و کرم سے ان کی عاجزی اور انکساری کا امتحان لیا۔

 

اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السّلام سے ارشاد فرمایا

جس کا مفہوم ہے:-

 

اے موسٰی! کوئی ایسی مخلوق ڈھونڈ کر لے کر آؤ جو تم

سے کمتر ہو۔

 

حضرت موسٰی علیہ السّلام ایک عرصہ کے بعد اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ اللہ تعالٰی نے ان سے دریافت کیا جس کا مفہوم ہے:-

 

اے موسٰی!

کونسی ایسی مخلوق لے کر آئے ہو جو تم سے کمتر ہے۔

 

حضرت موسٰی علیہ السّلام اللہ تعالٰی کے جلیل القدرنبی ہیں اور روایات کے مطابق انبیائے کرام معصوم ہوتے ہیں یعنی، اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے، ان کے نفوس کا تزکیہ ہوتا رہتا ہے۔

 

اپنے سے کمتر مخلوق کی تلاش میں ان کے دل و دماغ میں تاریخ بھی تھی کہ اللہ کے بندے کس قدر اپنے نفس کے غلبے میں رہے تھے اور کس قدر انہوں نے طاقت کے بل بوتے پر لوگوں پر ظلم ڈھائے تھے۔ اپنی حیات مبارک میں بھی ان کی ملاقاتیں ان لوگوں سے ہوئی ہوں گی جو منکر خدا تھے اور مسلمان گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو رہے تھے اور بظاہر ان کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگ چکی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اللہ تعالٰی کی دوسری مخلوقات: جمادات، نباتات اور حیوانات کی ذات کی بھی تجزیہ کیا ہوگا۔

 

حضرت موسٰی علیہ السّلام نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں

عرضداشت پیش کی جس کا مفہوم ہے:-

 

اے اللہ!

آپ کی توفیق سے میں نے آپ کا ہر مخلوق سے اپنا موازنہ کیا لیکن آپ کی ہر مخلوق کو اپنی ذات سے بہتر پایا۔

 

اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السّلام کا جواب سن کر ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے:-

 

اے موسٰی!

اگر تم ایک تنکے سے بھی خود کو بہتر سمجھتے تو تم نبوت کا حق ادا نہ کرتے۔

 

بیٹی! مندرجہ بالا حکایت کی روح یہ بتلاتی ہے کہ ہر انسان کو عاجزی اور انکساری کا ہر لحظہ پیکر رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ عاجزی اور انکساری کا عنصر سے ہی اللہ تعالٰی کا قرب نصیب ہوتا رہتا ہے۔

 

بیٹی! عاجزی اور انکساری کے عنصر کی مثال خاتم الانبیأ محمد ابن عبد اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک کا ہر لحظہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی کی وساطت سے علمائے کرام نے کتاب حصن و حصین ترتبیب دی ہے جس میں ہر عمل کرنے سے پیشتر اور عمل کرنے کے بعد اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعائیں کی گئی ہیں۔ ان دعاؤں کا مغز یہ ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم ہر لحظہ اللہ تعالٰی کی رحمتوں، برکتوں کے طلب گار ہوتے رہتے تھے اور اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا شکرادا فرماتے رہتے تھے۔ بیٹی! اسی وجہ سے اللہ تعالٰی نے اپنے کلام، قرآن پاک میں اللہ تعالٰی کے قریب سے قریب تر ہونے کا نسخہ بتلا دیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر زندگی گزار وگے تو اللہ بھی تم سے محبت کرے گا:-

 

سورۃآل عمران آیت نمبر 31

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفر لکم ذنوبکم ط واللہ غفور رحیم

 

تو کہہ! اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ کی تو میری راہ چلو تاکہ محبت کرے تم سے اللہ اور بخشے گناہ تمہارے ط اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

 

بیٹی!علمائے کرام اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں کہ خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کی راہ یعنی حدیث و سنت کے مطابق زندگی گزارنے سے بندہ اللہ تعالٰی سے قریب ہوتا رہتا ہے جس سے اللہ اپنے بندے سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعالٰی کی محبت کا تقاضا ہوتا ہے کہ بندے کے نفس کا تزکیہ ہوتا رہے اور اس کے گناہ معاف ہوتے رہیں اور پھر اللہ تعالٰی کی طرف سے بندے کو اللہ تعالٰی کی رضا اور جنت میں داخل ہونے کا پروانہ ملے، جو کہ ہر مخلوق کی زندگی کا مقصد ہے، جس کا ذکر اللہ کے کلام قرآن پاک میں ہے:-

 

سورۃ الفجر آیت نمبر 30 – 27

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

یٰا یتھا النفس المطمنہ۔ ق ارجعی الٰی ربک راضیتہ مر ضیتہ۔ ج

فاد خلی فی عبادی۔ لا واد خلی جنتی۔

 

اے وہ جس نے چین پکڑا۔ ق پھر چل اپنے رب کی طرف تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ ج

پھر شامل ہو میرے بندوں میں۔ لا اور داخل ہو میری بہشت میں۔

 

تزکیہ نفس

 

بیٹی!مختصر یہ کہ انسان کی سرشت میں نفس ایک ایسا عنصر ہے جو انسان کواللہ تعالٰی کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے سے مانع کرتا ہے۔ اگر انسان اللہ تعالٰی کی ہدایت کے مطابق زندگی نہیں گزارتا تو اس کا نفس پراگندہ ہوتا رہتا ہے۔ اور اگر انسان اللہ تعالٰی کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو، اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے، انسان کا نفس پاکیزہ رہتا ہے اور انسان اللہ تعالٰی کے قریب ہوتا رہتا ہے۔

 

بیٹی!اللہ تعالٰی نے انسان کو اس دنیا میں امتحان کے لئے بھیجا ہے۔ انسان کا نفس بجز انبیائے کرام کے، پراگندہ ہوتا رہتا ہے۔ اللہ تعالٰی رحمان اور رحیم ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے توبہ و استغفار کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ جب، اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے، بندے کو احساس ہوتا ہے کہ اس کا نفس پراگندہ ہو چکا ہے تو نفس کا تزکیہ کرنے کے لئے وہ خلوص دل سے، اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتا ہے، تو اللہ تعالٰی، اپنے فضل و کرم سے سے نہ صرف بندے کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں بلکہ گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل فرما دیتے ہیں جس سے نفس کی پراگندگی دور ہو جاتی ہے اور نفس پاکیزہ ہو جاتا ہے:-

 

ترجمہ سورۃ الفرقان آیت نمبر 70

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

الا من تاب و اٰمن و عمل عملاً صالحاً فاولٰئک یبدل اللہ سیاٰ تھم حسٰنٰت ط

و کان اللہ غفورًا رحیما۔

 

مگر جس نے توبہ کی اور یقین لایا اور کیا کچھ کام نیک سو ان کو بدل دے گا اللہ برائیوں کی جگہ بھلایاں اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان۔

 

بیٹی! مختصر یہ کہ خلوص دل سے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتے رہنے سے نفس کا تزکیہ، اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق ہوتا رہتا ہے۔

 

بیٹی!حقوق اللہ کا ادا کرتے رہنے کا لب لباب یہ ہے کہ اللہ کی ذات یکتا پر خلوص دل سے ایمان رکھتے ہوئے، بروقت نماز، زکواۃ، ادا کی جاتی رہے، رمضان المبارک کے روزے رکھے جائیں، حج کی ادائیگی کی جائے۔

 

بیٹی!حقوق العباد کے ادا کرتے رہنے کا لب لباب یہ ہے کہ کسی مخلوق کی دل آزاری نہ کی جائے۔ یعنی ایمانداری اور دیانتداری سے تمام مخلوق کے حقوق ادا کئے جاتے رہیں۔

 

حرف آخر

 

بیٹی!مختصر یہ کہ اللہ کا کلام ایسی کیمیا ہے کہ اس سے جسمانی اور روحانی بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے بشرطیکہ زندگی اللہ تعالٰی کی ہدایت کے مطابق بسر کی جاتی رہے اور نفس کا تزکیہ ہوتا رہے۔ اگر نفس نفس اور شیطان کے زیر اثر پراگندہ ہوگیا ہے تو توبہ و استغفار کے ذریعہ سے نفس کا تزکیہ کیا جاتا رہے۔

 

دعاؤں میں یاد رکھیں

 

والسّلام

    

نصیر عزیز

    

پرنسپل امن کی پکار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll Up