روحانی طہارت اور پاکیزگی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امن کی پکار

صفائی، طہارت اور پاکیزگی

روح کی پاکیزگی

بھائیو اور بہنو

السّلام علیکم

خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے

“پاکیزگی نصف ایمان ہے”

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام قرآن اور حدیث کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے اپنی پہچان کے لئے حضرت آدم علیہ السّلام کی اپنے دست قدرت سے بہترین انداز میں تخلیق کی، ان کے دل میں اپنی روح پھونکی جس سے ان کا دل زندہ ہو گیا اور پھر ان کی پشت سے قیامت تک آنے والی تمام ذریت کو نکالا اور ہر ذریت کو روح کا جامہ پہنا دیا اور ہر روح سے اقرار کروایا کہ اللہ تعالٰی ان کے رب ہیں جس کا ذکر قرآن میں ہے

ترجمہ سورۃ الاعراف آیت نمبر172

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو اور اقرار کرایا ان سے ان کی جانوں پر ج

کیا میں نہیں ہوں تمہارا رب ج

ہم اقرار کرتے ہیں ج

کبھی کہنے لگو قیامت کے دن ہم کو تو اس کی خبر نہ تھی۔

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام مزید فرماتے ہیں کہ جب بنی نوع انسان کی تمام روحوں نے اللہ تعالٰی کے رب ہونے کا اقرار کر لیا تو ہر روح پاکیزہ ہو گئی تھی۔ روحوں کی سرشت میں اللہ کا کلام بھی ودیعت کردیا گیا تھا اور ان کو عالم ارواح میں آباد کر دیا تھا جہاں ہر روح رب رب کی تسبیح کرتی ہے۔ جب ماں کے رحم میں بچے کا جسم مکمل ہوجاتا ہے تو اس کے دل میں روح پھونک دی جاتی ہے اور دل زندہ ہو جاتا ہے جس سے تمام جسم میں خون کی گردش شروع ہو جاتی ہے اور جسم کے تمام اعضأ حرکت میں آ جاتے ہیں۔ سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق دل کے اندر بھی دماغ ہوتا ہے جس میں اللہ کا کلام اس وقت ٹرانسمٹ ہو جاتا ہے جب بچے کے جسم میں روح پھونک دی جاتی ہے اور پھر اللہ کے کلام کا علم دل سے دماغ میں بقدر ضرورت ٹرانسمٹ ہوتا رہتا ہے اور دماغ اس علم کو عمل میں لانے کا کام سرانجام دیتا ہے یعنی لائحہ عمل تیار کرتا ہے اور اعضأ اس لائحہ عمل کو عمل میں لاتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو! ہر روح کے رب رب کی تسبیح کرنے کا پس منظر مندرجہ ذیل ہے

الحمد للہ! عالم دین شیخ ذوالفقار نقشبندی ایک مرتبہ تبلیغ دین کے لئے امریکہ گئے اور ایک ہارٹ کنسلٹینٹ کے یہاں قیام فرمایا۔

ایک روز ہارٹ کنسلٹینٹ نے موصوف شیخ سے گزارش کی کہ وہ ان کو اپنی لیبارٹری میں لے جاتا جاہتا ہے جہاں وہ انہیں ان کے خون کی گردش جو کہ دل کے ذریعے ہوتی ہے کا تجربہ کروا سکتا ہے۔

لیبارٹری میں موصوف شیخ کو متعلقہ ڈیوائسز لگا دی گئیں جن سے دل کی دھڑکن سنائی دیتی تھی اور خون بہت تیری سے پورے جسم کی رگ رگ میں گردش کر رہا تھا۔

ہارٹ کنسلٹینٹ نے بتلایا کہ سائنسدانوں نے دل کی دھڑکن کو لب ڈب لب ڈب کا نام دے رکھا ہے۔ موصوف شیخ نے جب غور سے دل کی دھڑکن کہ سنا تو ان کو سنائی دیا کے یہ آواز لب ڈب لب ڈب نہیں بلکہ رب رب ہے۔

ہارٹ کنسلٹینٹ نے جب دل کی دھڑکن کو غور سے سنا تو انہوں نے موصوف شیخ سے یہ اتفاق کیا کہ دل کی دھڑکن کی آواز رب رب ہے۔

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے دل میں ڈالا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دل کی دھڑکن رب رب کی تسبیح کر رہی ہو؟ مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل وکرم سے دل میں اس کا جواب پیدا کر دیا۔ الحمد للہ!جواب یہ پیدا ہوا کہ جب روز الست میں تمام روحوں نے اللہ تعالٰی کے رب ہونے کا اقرار کیا تھا تو تمام روحوں کی تسبیح رب رب ہو گئی تھی۔علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ہو مخلوق کی تخلیق اللہ کے ذکر کے لئے پیدا کی گئی ہے اس لئے روحیں عالم ارواح میں رب رب کی تسبیح کر رہی ہیں اور جب روح کو بچے کے دل میں ٹرانسمٹ کیا جاتا ہے تو دل کی دھڑکن رب رب کی تسبیح کر رہی ہوتی ہے۔

بھائیو اور بہنو! دل کی دھڑکن کی رب رب کی تسبیح کرتے رہنے سے جو بندے اللہ کی ذات کے منکر ہو جاتے ہیں تو قیامت کے دن وہ تاویل پیش کر سکتے ہیں کہ ہمیں تو کسی نے بتلایا ہی نہیں کہ آپ کی ذات یکتا ہے۔ بھائیو اور بہنو! اللہ تعالٰی جواب میں ان کو ان کے دل کی دھڑکن کو سنوائیں گے کہ ان کے دل کی دھڑکن رب رب کی تسبیح کر رہی ہے جو ہر لمحہ ا نہیں اللہ کی ذات یکتا کا رب ہونے کا اقرار یاد دلایا کرتی تھی لیکن انہوں نے نفس اور شیطان کے زیر اثر کان بند کر رکھے تھے۔ بھائیو اور بہنو! اس طرح سے منکرین خدا خود جہنم میں جانے کی حجت قائم کر لیں گے۔

بھائیو اور بہنو! اسی طرح سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق دل میں بھی دماغ ہوتا ہے۔ جس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ کا کلام دل میں ودیعت ہوتا ہے اور پھر دماغ میں عمل کے لئے ٹرانسمٹ کیا جاتا ہے۔ اللہ کا کلام کس طرح سے ہرروح میں ودیعت ہوا ہوا ہے یہ ایک علحیدہ مضمون ہے۔ انشأ اللہ! اس موضوع پر بھی مضمون تصنیف کیا جائے گا۔

بھائیو اور بہنو! اں کا رحم چونکہ ناپاک ہوتا ہے اس لئے بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا جسم ناپاک ہوتا ہے اس لئے پیدا ہونے کے فورا بعد ااسے غسل دیا جاتا ہے اور صاف ستھرے کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ روح کی پاکی کو برقرار رکھنے کے لئے بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر پڑھی جاتی ہے۔ علمائے کرام بچے کے دائیں کان میں اذان دینے کی یہ حکمت بیان فرماتے ہیں کہ نماز ادا کرتے ہوئے اللہ کے کلام کا علم حاصل کرتا رہے اور بائیں کان میں تکبیر دینے کی یہ حکمت بیان کرتے کہ نماز کو قائم کرے یعنی اللہ کے حاصل شدہ علم پر خلوص دل سے عمل کرے اور علم دوسرے بندوں تلک عمل کرنے کی نیت سے پہنچائے۔۔

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ انسان کو اس دنیا میں امتحان کے لئے بھیجا ہے۔ امتحان کا لب لباب یہ ہے کہ بندہ جسم اور روح کی پاکیزگی کو برقرار رکھتے ہوئے اللہ تعالٰی کی بندگی کرتا رہے جس سے اللہ تعالٰی کی پہچان ہوتی رہے گی جس مقصد کہ انسان کی تخلیق کی گئی ہے۔ حدیث قدسی کا مفہوم ہے

میں ایک چھپا ہوا خزانو تھا۔

میں چاہا کہ پہچانا جاؤں۔

پس میں نے جن و انس کی تخلیق کی۔

بھائیو اور بہنو! سوال جنم لیتا ہے کہ اگر روح پاکیزہ ہوتی ہے تو روح ناپاک کیسے ہو سکتی ہے؟

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ انسان کے امتحان کے لئے اللہ تعالٰی نے بندوں کی سرشت میں نفس کا مادہ ودیعت کر رکھا ہے۔ نفس کی تین قسمیں ہیں:

نفس امارہ

بھائیو اور بہنو! نفس امارہ بندوں کو اللہ کی نافرمانی کے لئے اکساتا ہے۔ اگربندہ اللہ کی نافرمانی کر لیتا ہے تو اس کی روح ناپاک ہو جاتی ہے۔

نفس لوامہ

بھائیو اور بہنو! جب بندہ اللہ کی نافرمانی کر لیتا ہے تو نفس لوامہ بندے کو اللہ کی نافرمانی کرنے پر شرمندہ اور پشیمان ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔

نفس مطمئنہ

بھائیو اور بہنو! جب نفس امارہ اللہ کی نافرمانی کے لئے اکساتا ہے تو نفس مطمئنہ اسے اللہ تعالٰی کے نافرمان ہونے سے روکتا ہے۔

لب لباب

بھائیو اور بہنو!

٭اگر بندہ نفس امارہ کی مان لیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بندہ گنہگار ہو جاتا ہے اور اس کا جسم اور روح ناپاک ہو جاتی ہے۔

٭اگر بندہ نفس امارہ کی مان کر شرمندہ اور پشیمان ہوتا ہے اور نفس لوامہ کی ترغیب پر وہ اللہ کی بارگاہ میں خلوص دل سے توبہ و استغفار کرتا ہے اور ناپاک جسم کو دھوتا ہے تو اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے اس کا گناہ معاف فرما دیتے ہیں تو اس کا جسم اور روح دونوں پاکیزہ ہو جاتے ہیں۔

٭اگر بندہ نفس امارہ کی بات نہیں مانتا اور اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے تو نفس مطمئنہ کامیاب ہو جاتا ہے۔

تزکیہ نفس

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کے جو بندے اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے دنیا میں زندگی گزارتے ہیں ان کو اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے خوشخبری سناتے ہیں

سورۃ الفجر آیت نمبر 30 – 27

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یٰا یتھا النفس المطمءۃ۔ ق ارجعی الٰی ربک راضیتہ مر ضیتہ۔ ج

فاد خلی فی عبادی۔ لا واد خلی جنتی۔

اے وہ جس نے چین پکڑا۔ ق پھر چل اپنے رب کی طرف تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ ج

پھر شامل ہو میرے بندوں میں۔ لا اور داخل ہو میری بہشت میں۔

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حقیقت میں دنیا و آخرت میں کامیابی نفس کے پاک و صاف ہونے پر منحصر ہے۔ نفس امارہ کا کام ہے کہ وہ زندگی کے ہر پہلو میں اللہ تعالٰی کی نافرمانی کے لئے اکساتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالٰی نے اپنے کلام قرآن پاک میں متعدد بار نفس کی کارستانیوں کو واضح طور پر بتلا دیا ہے تاکہ بندہ اچھے کام کرتا رہے اور برے کاموں سے بچتا رہے۔

بھائیو اور بہنو! ذیل کی آیت میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: ہم نے اس کوسجھائی راہ یا حق مانتا ہے اور یا ناشکری کرتا ہے۔ بھائیو اور بہنو! علمائے کرام اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے انسان کی سرشت میں حق کی پہچان کو ودیعت کر دیا ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا شکر گزار ہوتا ہے یا نا شکرگزار ہوتا ہے۔ اگر شکر گزار ہوتا ہے تو اس کا نفس پاکیزہ رہتا ہے اور اگر وہ نا شکر گزار ہوتا ہے تو اس کا نفس پراگندہ ہو جاتا ہے۔

ترجمہ سورۃالدھر آیت نمبر3 – 1

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کبھی گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں کہ نہ تھا وہ کوئی چیز جو زبان پر آتی۔

ہم نے بنایا آدمی کو ایک دو رنگی بوند سے ق ہم پلٹتے رہے اس کو پھر کر دیا اس کو ہم نے سننے والا دیکھنے والا۔

ہم نے اس کوسجھائی راہ یا حق مانتا ہے اور یا ناشکری کرتا ہے۔

بھائیو اور بہنو! ذیل کی آیت کی علمائے کرام تفسیر فرماتے ہیں کہ جب بندہ نیک کام کرتا ہے تو وہ اللہ تعالٰی کی توفیق سے کرتا ہے۔ لیکن جب نفس امارہ اس پر غالب آ جاتا ہے تو وہ برے کام کرنے سے بچتا نہیں ہے۔

ترجمہ سورۃ النسأ آیت نمبر 79

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جو پہنچے تجھ کو بھلائی سو اللہ کی طرف سے ہے اور جو پہنچے تجھ کو برائی سو تیرے نفس کی طرف سے ہے ط

بھائیو اور بہنو! ذیل کی آیت کی علمائے کرام تفسیر فرماتے ہیں کہ جس بندے پر نفس امارہ غالب آ جاتا ہے تو گویا اس نے اپنے نفس امارہ کو معبود بنا رکھا ہے تو اس سے کیا امید ہو سکتی ہے کہ اس کا نفس پاکیزہ ہو سکے۔

سورۃ الفرقان آیت نمبر 43

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ارء یت من ا تخذ ا لھہ ھوٰہہ ط افانت تکون علیہ وکیلا۔

بھلا دیکھ تو اس شخص کو جس نے پوجنا اختیار کیا اپنی خواہش کا ط کہیں تو لے سکتا ہے اس کا ذمہ؟

کیا آپ نے اسے دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے؟ کیا آپ اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں؟

بھائیو اور بہنو! ذیل کی آیت کی علمائے کرام تفسیر فرماتے ہیں کہ جو بندہ نفس امارہ کو اپنا معبود بنا لیتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے دل، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے دل میں اللہ کے کلام کی تعلیمات جذب نہیں ہو سکتیں اور پھسل جاتی ہیں۔

سورۃ الجاثیہ آیت نمبر 24 – 23

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بھلا دیکھ تو جس نے ٹہرا لیا اپنا حاکم اپنی خواہش کو اور راہ سے بچلا دیا اس کو اللہ نے جانتا بوجھتا اور مہر لگا دی اس کے کان پر اور دل پر اور ڈال دی اس کی آنکھ پر اندھیری ط پھر کون راہ پر لائے اس کو اللہ کے سوائے ط سو کیا تم غور نہیں کرتے؟

بھائیو اور بہنو! ذیل کی آیت کی علمائے کرام تفسیر فرماتے ہیں کہ نفس کی اہمیت کو جتلانے کے لئے اللہ تعالٰی سات مخلوقات کی قسم کھا کر بتلا دیا کہ جس نے نفس کو پاکیزہ رکھا وہ دنیا اور آخرت کی زندگی میں کامیاب ہو گیا۔ اور جس نے اپنے نفس کو پراگندہ کیا اور خلوص دل سے توبہ واستغفار نہیں کی وہ نامراد ہوا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔

سورۃ الشمس

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والشمس و ضحٰھا لا والقمر اذا تلٰھا۔ لا والنھار اذا جلٰھا۔ لا والیل اذا یغشٰھا۔ لا والسماء وما بنٰھا۔ لا والارض وما طحٰھا۔ لا و نفس وما سوٰھا۔ لا فالھمھا فجورھا و تقوٰھا۔ لا قد افلح من زکٰھا۔ لا و قد خاب من دسٰھا۔ ط

قسم سورج کی اور اس کے دھوپ چڑھنے کی۔ لا اور چاند کی آئے سورج کے پیچھے۔ لا اور دن کی جب اس کو روشن کر لے۔ لا اور رات کی جب اس کو ڈھانک لیوے۔ لا اور آسمان کی اور جیسا اس کو بنایا۔لا اور زمین کی اور جیسا اس کو پھیلایا۔ لا اور جی (نفس)کی اور جیسا اس کو ٹھیک بنایا۔لا پھر سمجھ دی اس کو ڈھٹائی کی اور بچ کر چلنے کی۔ لا تحقیق مراد کو پہنچا جس نے اس کو سنوار لیا۔لا اور نامراد ہوا جس نے اس کو خاک میں ملا چھوڑا۔ ط

بھائیو اور بہنو! ذیل کے حاشیہ کی علمائے کرام شرح فرماتے ہیں کہ اگر نفس امارہ تجھے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی ترغیب دیتا ہے تو اسکا مقابلہ کر اور اسے پچھاڑ دے۔ وگرنہ نفس امارہ کی مان کر چلنا مردانگی نہیں ہے۔

نفس کا مقابلہ کرنا

اگر زمانہ تیرا ساتھ نہیں دیتاتو تو زمانے سے جنگ کر۔ زمانے کی ہوا کے ساتھ بہہ جانا کوئی خوبی نہیں۔زمانے کے ساتھ چلنا کمزوری کی نشانی ہے۔

بھائیو اور بہنو! ذیل کی آیت کی علمائے کرام تفسیر فرماتے ہیں کہ روز محشر میں جن بندوں نے نفس امارہ کو اپنا معبود بنا رکھا تھا تو اس کی گواہی بندے کے اپنے اعضأ دیں گے کہ کس طرح سے ان کو بندوں نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کے لئے استعما ل کیا تھا۔

ترجمہ سورۃحٰم سجدہ آیت نمبر 24 – 19

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور جس دن جمع ہوں گے دشمن اللہ کے دوزخ پر تو ان کی جماعتیں بنائی جائیں گی۔ یہاں تک کہ جب پہنچے اس پر بتائیں گے ان کو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے جو کچھ وہ کرتے تھے۔ اور وہ کہیں گے اپنے چمڑوں کو تم نے کیوں بتلایا ہم کو ط وہ بولیں گے ہم کو بلوایا اللہ نے جس سے بلوایا ہر چیز کو اور اسی نے بنایا تم کو پہلی بار اور اسی کی طرف پھرے جاتے ہو۔ اور تم پردہ نہ کرتے تھے اس بات سے کہ تم کو بتلائیں گے تمہارے کان اور نہ تمہاری آنکھیں اور نہ تمہارے چمڑے پر تم کو یہ خیال تھا کہ اللہ نہیں جانتا بہت چیزیں جو تم کرتے ہو۔ اور یہ وہی تمہارا خیال ہے جو تم رکھتے تھے اپنے رب کے حق میں، اسی نے تم کو غارت کیا پھر آج رہ گئے ٹوٹے میں،پھر اگر وہ صبر کریں تو آگ ان کا گھر ہے ج اور اگر وہ منایا چاہیں تو ان کو کوئی نہیں مناتا۔

بھائیو اور بہنو! لمائے کرام فرماتے ہیں کہ نفس امارہ عارضی لذت یا فائدہ حاصل کرنے کے لئے جب بندوں کو اکساتا ہے تو شیطان آکر اسے نافرمانے کر گزرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ قیامت کے روز اللہ کے گنہگار بندے تاویل پیش کریں گے کہ شیطان نے ان کو گمراہ کیا تھا۔ شیطان ان کے الزام سے خود کو مبرا کرلے گا جس کا ذکر اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے اپنے کلام مبں کر دیا تھا تاکہ بندے شیطان کی چالوں سے بچتے رہیں

ترجمہ سورۃ ابراہیم آیت نمبر 22

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور بولا شیطان جب فیصل ہو چکا سب کام بیشک اللہ نے تم کو دیا تھا سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا پھر جھوٹا کیا ط اور میری تم پر حکومت نہ تھی مگر یہ کہ میں نے بلایا تم کو پھر تم نے مان لیا میری بات کو ج سو الزام نہ دو مجھ کو اور الزام دو اپنے آپ کو ط نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچوں نہ تم میری فریاد کو پہنچو ط میں منکر ہوں جو تم نے مجھ کو شریک بنایا تھا اس سے پہلے ط البتہ جو ظالم ہیں ان کے لئے ہے عذاب دردناک۔

ترجمہ سورۃ الحشر آیت نمبر17 – 16

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جیسے قصہ شیطان کا جب کہے انسان کو تو منکر ہو پھر منکر ہو گیا کہے میں الگ ہوں تجھ سے میں ڈرنا ہوں اللہ سے جو رب سارے جہان کا۔ پھر انجام دونوں کا یہی کہ وہ دونوں ہیں آگ میں ہمیشہ رہیں اسی میں اور یہی سزا ہے گنہگاروں کی۔

نفس امارہ کیوں غالب آ جاتا ہے؟


بھائیو اور بہنو! علمائے کرام قرآن اور حدیث کی روشنی میں بتلاتے ہیں کہ نفس امارہ کے نفس مطمئنہ پر غالب آنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب لڑکا اور لڑکی بالغ ہو نے تلک ان کے جسم میں سفید رطوبت جنم لیتی رہتی ہے جس کے اخراج سے مرد اور عورت کو لذت کا حصول ہوتا ہے۔ سفید رطوبت کا اخراج کئی صورتوں سے ہو سکتا ہے مرد اور عورت آپس میں اختلاط کریں یا مرد مشت زنی کرے اور عورت مصنوعی آلے سے اخراج کرے یا کسی جانور سے اختلاط کیا جائے یا مرد مر د سے اختلاط کرے یا عورت عورت سے اختلاط کرے وغیرہ۔


بھائیو اور بہنو! اللہ تعالٰی نے سفید رطوبت کے اخراج کا ایک نظام طے فرما دیا ہے کہ لڑکا اور لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد ان کا اچھا رشتہ ملنے پر نکاح کر دیا جائے۔ دونوں کے ملاپ سے اگلی نسل کا ظہور ہوگا اور یہ سلسلہ، اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے، قیامت تلک چلتا رہے گا۔


بھائیو اور بہنو! علمائے کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب سفید رطوبت جنم لیتی ہے اور اپنا اخراج چاہتی ہے تو اللہ تعالٰی نے ایسا نظام بھی بنا دیا ہے کہ جب سفید رطوبت کی مقدار جسم میں زیادہ ہو جائے تو قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکی کو احتلام ہوتا ہے جس سے سفید رطوبت کے اخراج سے لذت حاصل ہوتی ہے اور اس طرح سے لڑکا اور لڑکی نکاح ہونے تلک قدرتی طور پر لذت کا حصول کرتے رہتے ہیں اور نکاح ہونے کے بعد وہ جب چاہیں آپس میں ملاپ کر سکتے ہیں اور لذت کا حصول کر سکتے ہیں اور گناہ کبیرہ سے بچ سکتے ہیں جس کی شرعی سزا اگر کنوارے ہیں تو عوام کے سامنے سو کوڑے ہیں اور اگر شادی شدہ ہے تو سزا سنگسار ہونا ہے۔


بھائیو اور بہنو! جو مرد و عورت نکاح کئے بغیر اپنی شہوت کو پورا کرتے ہیں ان کا نفس پراگندہ ہوتا رہتا ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب نفس پراگندہ ہو جائے تو اس کے تزکیہ کی یہ صورت ہے کہ شرعی سزا بھگتے یا پھر اللہ کی بارگاہ میں خلوص دل سے توبہ و استغفار کرے۔

نفس امارہ کے نفس مطمئنہ پر غالب آنے کے کیا نتا ئج ہو سکتے ہیں؟


بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حقیقت میں جب بندہ شہوت پرست ہو جاتا ہے اور وہ نکاح کئے بغیر یا شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی اپنی شہوت دوسری کنواری یا شادی شدہ عورتوں کے ساتھ پوری کرتا ہے تو پھر وہ وہ زندگی کے ہر پہلو میں اس کا نفس امارہ نفس مطمئنہ پر غالب آتا رہتا ہے اور نفس پراگندہ ہوتا رہتاے۔ مثلاً: جھوٹ بولنا، ناپاک ہو جانا، قابلیتوں اور صلاحیتوں کا اثر انداز ہونا، دھوکہ دہی کرنا، وغیرہ۔


بھائیو اور بہنو! آئیے اب فرداً فرداً ہر نتیجہ کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بغیر نکاح کئے جنسی شہوت کو پورا کرنے سے کیا نتائج نکلتے ہیں اور اس کے فوری طور پر اور دور رس کیا اثرات ہو سکتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔

جھوٹ بولنا


بھائیو اور بہنو! جب کوئی مرد اور عورت بغیر نکاح کئے یا اگر شادی شدہ ہے تو کسی نامحرم کے ساتھ زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ کبھی اس کو جرم کا خود اظہار نہیں کرے گا اور اگر کوئی دوسرا بندہ اس پر شک کی بنا پر پوچھے گا تو وہ انکار کرے گا یعنی جھوٹ بولے گا خواہ کنوارا ہو یا شادی شدہ ہو۔

ناپاک ہو جانا


بھائیو اور بہنو! جب شادی شدہ مرد اور عورت آپس میں اختلاط کرتے ہیں تو وہ بھی ناپاک ہو جاتے اور ان کے لئے بھی غسل کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب کنوارے مرد اور عورتیں یا شادی شدہ مرد اور عورتیں غیر محرموں سے زنا کرتے ہیں تو وہ بھی ناپاک ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی بھی مرد اور عورت کسی طرح سے بھی سفید رطوبت کو خارج کرتا ہے وہ بھی ناپاک ہو جاتا ہے اور ان سب کے لئے غسل کرنا واجب ہو جاتا ہے۔نیز لڑکے اور لڑکی کو احتلام ہونے سے بھی غسل واجب ہو جاتا ہے۔

قابلیتوں اور صلاحیتوں کا اثرانداز ہونا


بھائیو اور بہنو!
جب مرد اور عورت کنوارے ہوں یا شادی شدہ یا طالب علم ہوں، جب ان کو بغیر نکاح کے جنسی شہوت کا چسکا جنم لیتا رہتا ہے تو ان کا ذہن میں ایک ایسا لائحہ عمل جنم لیتا رہتا ہے کہ کس طرح وہ اگلی مرتبہ اپنی شہوت کو پورا کریں گے۔ اگر ایک عورت یا ایک مرد سے دل بھر جاتا ہے تو دوسری عورت یا مرد کی کس طرح تلاش کرنی ہوگی۔ بلکہ جب بھی مرد کسی خوبصورت عورت کا دیکھتا ہے تو اس کا دل اسے کے ساتھ زنا کرنے کے لئے مچل جاتا ہے اور جب کوئی عورت ہینڈ سم مرد کو دیکھتی ہے تو اس کا دل بھی اسے ساتھ زنا کرنے کو مچل جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ جب جب دل اور دماغ میں جنسی شہوت کو پورا کرنے کے لئے خیال جنم لیتے ہیں تو ان کی قابلیتیں اور صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں اور وہ اللہ کا فضل ایمانداری اور دیانتداری سے ادا نہیں کر سکتے۔ اگر طالب علم ہے تو استاد جو تعلیم دیتا ہے وہ ان کے دل و دماغ میں جذب نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے طالب علم یا تو امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں یا ان کے کم نمبر آتے ہیں۔

دھوکہ دہی کرنا


بھائیو اور بہنو! جب مرد اور عورت کنوارے ہوں یا شادی شدہ تو ان کا زنا کا تعلق برقرار رکھنے کے لئے مال و دولت کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ریسٹو رنٹس میں کھانا پینا یاہوٹل میں کمرہ زنا کرنے کے لئے کرائے پر لینا وغیرہ، تو اس ایکسٹرا خرچ کے لئے ان کو مزید مال و دولت کی ضرورت ہوتی ہے، عام طور پر مرد کو۔ مزید مال و دولت حاصل کرنے کے لئے وہ دھوکہ دہی کرتا ہے، ادا نہ کرنے کے لئے بنک یا دوست احباب سے قرض لیتا ہے، چوری کا مال خریدتا ہے اور فروخت کرتا ہے، رشوت لیتا ہے، منشیات کی خرید و فروخت کرتا ہے، اگر کوئی کھانے پینے کی شئے کو کارخانے میں بناتا ہے تو اس میں ملاوٹ کرتا ہے، کم تولتا ہے، اگر کسی کا راز اس کو مل جائے تو اسے بلیک میل کرتا ہے، وغیرہ۔

ناجائز اولاد کا جنم لینا


بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جو مرد اور عورت بغیر کسی پروٹیکش کے آپس میں زنا کرتے ہیں تو عورت کو حمل بھی ٹہر سکتا ہے جس سے ناجائز بچے کی پیدائش ہوگی اور وہ حرامی کہلائے گا۔ اگر عورت کنواری ہے تو تمام معاشرہ میں دھوم مچ جائے گی اور عورت اور مرد ذلیل اور رسوا ہو جائیں گے اور ناجائز بچے کو حرامی قرار دیا جائے گا۔ اگر عورت شادی شدہ ہے اور اس کے زنا کرنے سے حمل ٹہر جاتا ہے تو جو ناجائز بچہ ہوگا وہ اس عورت کے خاوند سے منسوب کردیا جائے گا۔ گو کہ دنیا میں عورت کا شوہر ناجائز بچے کا باپ کہلائے گا لیکن آخرت میں اس عورت کے لئے بہت سنگین سزا ہوگی۔ اگر شادی شدہ عورت بھی ناجائز بچے کے حمل کو ساقط کروا لیتی ہے تو وہ اس بچے کی قاتلہ ٹہرائی جائے گی۔

عورت کے حمل ٹہر جاتا

بھائیو اور بہنو! گر کنواری عورت کو حمل ٹہر جاتا ہے اور وہ حمل کو ساقط کروا لیتی ہے تو وہ ایک جان کو جان سے مار ڈالنے کی کی سزاوار ہوتی ہے یعنی شرعی لحاظ سے وہ بچے کی قاتل ٹہری۔

برتھ کنٹرول کی دوا لینا یا ڈیوریکس کا استعمال کرنا


بھائیو اور بہنو! جو مرد عورت کے رحم میں حمل نہ ٹہرنے کے لئے ڈیوریکس کا استعمال کرتے ہیں یا عورتیں برتھ کنٹرول کی دوا لیتی ہیں وہ بھی ایک جان کے نہ پیدا ہونے کو روکتی ہیں جو کہ قتل کر دینے کے مترادف ہے۔

وغیرہ


بھائیو اور بہنو! مندرجہ بالا نتائج کے علاوہ اور بہت سے مرد و عورت کے زنا کرنے سے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ تاہم! زنا کے گناہ کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے مندرجہ بالا نتائج پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔

اللہ کے کلام قرآن پاک میں بچوں کے قتل کا ذکر

بھائیو اور بہنو! چودہ سو سال پیشتر خاتم الانیؒبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب جب ان یہاں بیٹی ہوتی تھی تو وہ اس کو اپنی ذلت و رسوائی سمجھتے تھے اور زندو بچی کو زمین میں دفن کر دیتے تھے یعنی وہ بچی کے قاتل ٹہرے:

ترجمہ سورۃالنحل آیت نمبر 59 -58

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور جب خوشخبری ملے ان میں کسی کو بیٹی کی سارے دن رہے منہ اس کا سیاہ اور جب میں گھستا رہے۔ج چھپتا پھر لوگوں سے مارے برائی اس خوشخبری کے جو سنی ط اس کو رہنے دے ذ لت قبول کر کے پا اس کو داب دے مٹی میں سنتا ہے برا فیصلہ کرتے ہیں۔

سورۃالتکویر آیت نمبر 9 – 8

بسم اللہ الرحمن الرحیم

و اذا الموئدۃ سئلت۔ لا بای ذنب قتلت۔

اور جب بیٹی جیتی گاڑ دی گئی کو پوچھیں۔ لا کہ کس گناہ پر وہ ماری گئی۔

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ذلت و رسوائی سے بچنے کے لئے جو عورتیں حمل کو ساقط کروا لیتی ہیں یا برتھ کنٹرول کی دوا لیتی ہیں یا مرد ڈیوریکس استعمال کرتا ہے تو وہ بھی بچوں کے قاتل ٹہرائے جاتے ہیں۔

ناجائز بچہ اللہ کی مخلوق ہے اور اسے بھی جینے کا حق ہے

بھائیو اور بہنو! حدیث پاک کا مفہوم سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ناجائز بچے کو بھی جینے کا اور اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا حق ہے

ایک شادی شدہ عورت خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ کے پاس آئی اور عرض کی جس کامفہوم ہے: یا رسول اللہ! مجھ سے زنا صادر ہو گیا ہے۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم مجھ پر حد جاری فرمائیں، یعنی مجھے سنگسار کرنے کا حکم صادر فرمائیں۔

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے چار مرتبہ اعراض فرمایا۔ عورت نے عرض کی کہ میں اس زنا سے حاملہ ہو چکی ہوں۔

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ جب بچے کو جنم دو تو تب میرے پاس آنا۔

عورت چلی گئی۔ جب بچے نے جنم لیا تو پھر وہ عورت آپ صل اللہ علیہ کی خدمت میں بچے کو لے کر حاضر ہوئی۔

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمیا جس کا مفہوم ہے کہ جب بچہ ماں کا دودھ پینا چھوڑ دے اور روٹی کھانے لگے تب بچے کو میرے پاس لے کر آنا۔


جب بچہ دو سال کا ہوا اور روٹی کھانے لگا تو عورت ے بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا پکڑایا اور بچے کو لے آپ صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی اورعرض کی: یا رسول اللہ! اب بچہ روٹی کھانے کے قابل ہو گیا ہے۔ مجھ پر حد جاری کی جائے۔


روایت میں ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے بچے کو اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لئے ایک لونڈی کے حوالے کیا اور عورت کے لئے حد جاری کرنے کا حکم فرمایا۔


جب عورت کو پتھر سنگسار کرنے کے لئے پتھر مارے گئے تو اسے جسم سے خون ایک فوارے کی طرح نکلااور کسی صحابی کے کپڑوں پر لگ گیا جس کی وجہ     سے اس صحابی سے اس عورت کے لئے چند نازیبا الفاظ نکل گئے۔


آپ صل اللہ علیہ وسلم نے نازیبا الفاظ سنے اور اس صحابی سے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ اس عورت کے لئے نازیبا الفاظ نہ کہے جائیں۔ اس عورت نے اللہ کی توفیق سے ایسی توبہ خلوص دل سے کی ہے کہ اگر مدینہ کے تمام بندوں میں بانٹ دی جائے تو سب کی مغفرت ہو جائے۔

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ مندرجہ بالا حدیث کی رو سے جو بندے لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، جو عورتیں حمل کو ساقط کروا لیتی ہیں، جو عورتیں برتھ کنٹرول کی دوا لیتی ہیں، جو مرد ڈیوریکس استعمال کرتے ہیں وہ سب مرد اور عورتیں بچوں کے قاتل ہیں شرعیت کی رو سے۔

بھائیو اور بہنو! آپ اس واقعہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس عورت کے دل میں اللہ کا کتنا خوف تھا کہ وہ، کم و بیش، تین سال تلک کیسے امتحان سے گزری ہوگی۔ کس لئے؟
وہ جہنم کی آگ میں جلنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اپنی روح کو پاکیزہ کرنا چاہتی تھی۔

اللہ کے کلام قرآن پاک میں زنا کرنے سے رکنے کی ہدایات

بھائیو اور بہنو! اللہ تعالٰی علیم ہیں۔ اللہ تعالٰی جانتے تھے کہ نفس بہت ظالم ہے اور انسان پر غالب آ سکتا ہے۔اسی لئے اللہ تعالٰی نے اپنے کلام قرآن پاک میں بتلا دیا کے زنا کے قریب بھی مت جاؤ کیونکہ یہ بہت بڑی برائی ہے:

سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 32

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ولا تقربو االزنٰی انہ کان فاحشہ ط و ساء سبیلا۔

اور پاس نہ جاؤ زنا کے وہ ہے بے حیائی ط اور بری راہ ہے۔

بھائیو اور بہنو! مندرجہ بالا زنا کے نتائج سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ زنا کتنی بری راہ ہے۔

اللہ کے کلام قرآن پاک میں زنا کرنے سے بچنے کی ہدایات

بھائیو اور بہنو! اللہ تعالٰی نے اپنے فضل وکرم سے مردوں اور عورتوں دونوں کو زنا سے بچتے رہنے کی ہایات اپنے کلام قرآن پاک میں ذکر فرمائیں ہیں۔

مردوں کو ہدایت

بھائیو اور بہنو! ذیل کی آیت میں اللہ تعالٰی مردوں کو حکم فرماتے ہیں کہ بازاروں میں چلتے ہوئے وہ اپنی نظروں کو جھکا کر اس طرح سے چلیں کہ وہ راستہ بھی دیکھتے رہیں اور کسی نامحرم پر نظر بھی نہ پڑے۔ تاہم! اگر ان کا سامنا کسی نامحرم عورت سے ہو جائے تو ان کو فوراً نظریں جھکا لینی چاہیں اور اگر کوی شیطانی وساوس جنم لیں تو ان کو فوراً رد کر دے تاکہ اس کی روح پاکیزہ رہے اور ساتھ ہی نامحرم پر نظر پڑ جانے کے لئے اللہ کی بارگاہ میں خلوص دل سے توبہ و استغفار کرے۔

سورۃ النور آیت 30

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کہہ دے ایمان والوں کو نیچی رکھیں ذری اپنی آنکھیں اور تھامتے رہیں اپنے ستر کو ط اس میں خوب ستھرائی ہے ان کے لئے ط بیشک اللہ کو خبر ہے جو کچھ کرتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو! ذیل کی آیت میں اللہ تعالٰی عورتوں ہدایت فرماتے ہیں کہ وہ گھر کے اندر بھی اور گھر سے باہر بھی نظروں کو جھکا کر کام کاج کیا کریں اور محرم مردوں اور عوتوں سے بھی آانھوں سے آنکھ ملا کر بات نہ کریں:

ترجمہ سورۃ النور آیت 310

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور کہہ دے ایمان والیوں کو نیچی رکھیں ذرا اپنی آنکھیں اور تھامتی رہیں اپنے ستر کو اور نہ دکھلائیں اپنا سنگھار مگر جو کھلی چیز ہے اس میں سے اور ڈالیں اپنی اوڑھنی اپنے گریبان پر ص اور نہ کھولیں اپنا سنگھار مگر اپنے خاوند کے آگے یا اپنے باپ کے یا اپنے خاوندوں کے باپ کے یا اپنے بیٹے کے یا اپنے خاوند کے بیٹے کے یا اپنے بھائی کے یا اپنے بھتیجے کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی عورتوں کے یا اپنے ہاتھ کے مال کے یا کاروبار کرنے والے کے جو مرد کہ کچھ غرض نہیں رکھتے یا

لڑکوں کے جنہوں نے ابھی نہیں پہچانا عورتوں کے بھید کو اور نہ ماریں زمین پر اپنے پاؤں کہ جانا جائے جو چھپاتی ہیں اپنا سنگھار ط اور توبہ کرو اللہ کے آگے سب مل کر اے ایمان والو تاکہ تم بھلائی پاؤ۔

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ مندرجہ بالا آیت عورتوں کے گھر کے اندر حجاب اختیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ عورت کے لئے جو محرم مرد ہیں ان کی شناخت اس آیت میں کر دی گئی ہے۔ عورت کے لئے ہدایت کردی گئی ہے کہ ان کا ستر سر سے لے کر پاؤں کے ٹخنوں تلک ہے۔ یعنی محرم مردوں کے سامنے اس کا چہرہ، ہتھیلیاں اور پاؤں کھلے رہ سکتے ہیں۔ سر کے بال بھی ستر میں میں شامل ہیں۔

بھائیو اور بہنو! سوال جنم لیتا ہے کہ عورتوں کو محرموں سے حجاب کرنے کی کیوں ہدایت کی گئی ہے؟

ہابیل اور قابیل کا واقعہ

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ جب حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالٰی عنہا کو اللہ تعالٰی نے ممنوعہ درخت کا پھل کھانے کی پاداش میں زمین پر بھیجا تو ان دونوں کے آپس میں ملنے سے جڑواں بچے پیدا ہوتے تھے: ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔

بھائیو اور بہنو! شرعیت کی رو سے بہن اور بھائی میں نکاح نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل وکرم سے حضرت آدم علیہ السّلام کی اولاد کے لئے اپنے اس دستور میں تبدیلی فرمائی کہ چونکہ بہن بھائی کی آپس میں شادی نہیں ہو سکتی اس لئے سردست ان کی کراس میرج ہو جائے۔ یعنی جو لڑکی قابیل کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی ہے اس کا نکاح ہابیل کے ساتھ کیا جائے اور جو لڑکی ہابیل کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی ہے اس کا نکاح قابیل کے ساتھ کیا جائے۔

بھائیو اور بہنو! قابیل اس لڑکی سے جو اس کے ساتھ پیدا ہوئی تھی اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا تھا جو کہ حضرت آدم علیہ السّلام نے منظور نہیں کیا۔

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی علیم ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان قابیل اور ہابیل کو قربانی کرنے کے لئے کہا اور بتلایا کہ جس کی قربانی قبول ہو جائے گی وہ اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے۔ الحمد للہ! ہابیل کی قربانی قبول ہو گئی اور وہ قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی تھی نکاح کرنے کے لئے راضی ہو گیا۔

بھائیو اور بہنو! قابیل نے نفس اور شیطان کے زیر اثر اللہ تعالٰی کے فیصلے کو قبول نہ کیا ہابیل کو قتل کر دیا اور اس کے ساتھ جو اس کی بہن پیدا ہوئی تھی اسے اغوا کر کے لے گیا اور انسیسٹ (محرم کے ساتھ زنا کرنا) کی بنیاد ڈالی اور ناجائز بچوں کے پیدا ہونے کا سلسلہ چل پڑا۔

بھائیو اور بہنو! سوال جنم لیتا ہے کہ قابیل کیوں اپنے ساتھ پیدا ہوئی بہن سے نکاح کرنا چاہتا تھا؟

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں عورت کا صرف چہرہ عورت کے خوبصورت ہونے کی دلیل نہیں ہوتا بلکہ اس کے جسم کے ہر عضو مثلاًً: چہرہ، بال، گردن، پستان، کندھے، کمر، بازو، ہتھیلیاں، انگلیاں، رانیں، پنڈلیاں، پاؤں، پاؤں کی انگلیاں، واتھ کی اور پاؤں کی انگلیوں کے ناخن، قد کاٹھ وغیرہ میں اعلٰی قسم کا تناسب اور توازن ہو تو اس عورت کو خوبصورت کہا جا سکتا ہے۔

بھائیو اور بہنو! قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی جو قابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی وہ انتہائی خوبصورت ہوگی اور قابیل اس کے پور ے جسم کی خوبصورتی سے اتنا متاثر ہوا کہ اسے ساتھ صحبت کرنے کے لئے اس نے اپنے بھائی ہابیل کو بھی قتل کردیا اور اپنی بہن اغوا کر کے لے گیا اور انسیسٹ کی بنیاد رکھی اور ناجائز اولاد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

دور حاضر میں انسیسٹ کا سلسلہ

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عورتوں کے لئے محرموں سے حجاب کرنے کی کے لئے اس لئے تاکید کی گئی ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کہ باپ بیٹی سے، ماں بیٹے سے، بہن بھائی سے، ماموں اپنی بھانجی سے، چچا اپنی بھتیجی سے جنسی شہوت کو پورا نہ کر سکے اور عورت کو حمل نہ ٹہر سکے۔۔ مرد اور عورت جب ایک دوسرے کے شکل و صورت اور جسمانی اعضأ کہ پر کشش پاتے ہیں تو ان کے دل میں شہوت جنم لیتی ہے خواہ وہ باپ بیٹی ہو۔ ماں بیٹا ہو، بہن بھائی ہو، ماموں بھانجی ہو، چچا بھتیجی ہو۔ چونکہ محرم رشتوں میں بھی جنسی خواہش جنم لیتی ہے اسی لئے عورت کو اپنے پور ے جسم کو اس طرح سے ڈھا نپنے کی ہدایت دی ہے کہ اس کے جسم کے کسی حصہ کی بناوٹ نظر نہ آئے۔

بھائیو اور بہنو!! مختصر یہ کہ دور حاضر میں، کم و بیش، پوری دنیا میں عورتیں ایسا لباس پہنتی ہے کہ ان کے جسم کا اکثر حصہ برہنہ ہوتا ہے اور جسم کے جسے حصہ پر لباس ہوتا ہے وہ بھی اس انداز سے بنا ہوا ہوتا ہے کہ عضو کی خوبصورتی چار چاند لگ جائیں۔

بھائیو اور بہنو! آسٹریا میں میں ایک باپ نے اپنی غالباً گیارہ سالہ خوبصورت بیٹی کو گھر کے تہ خانے میں 24 سال تلک قید رکھا اور اس سے سات بچے پیدا کئے۔ غالباً ان سات بچوں میں سے جو بڑی بیٹی پیدا ہوئی تھی اس کے ساتھ بھی اس نے زنا کیا تھا۔

بھائیو اور بہنو! جب یہ واقعہ منظر عام پر آیا تو پھر بہت سے مغربی ممالک میں سے انسیسٹ کے واقعات منظر عام پر آئے۔ مغرب میں انسیسٹ کے واقعات کا اندازو اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جو ایک مسلمان عالم دین نے اپنی کتاب میں نقل کیا تھا

بہن کا ایک بھائی بن ٹھن کر باہر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ بہن نے پوچھا کہ بن ٹھن کر کہا جا رہے ہو؟

بھائی نے جواب دیا جنسی خواہش پوری کرنے کیلئے جا رہا ہوں۔

بہن نے کہا باہر جانے کی کیا ضرورت ہے۔ میں جو گھر میں موجود ہوں،

دونوں نے ہمبستری کی۔

ہمبستر ی کرنے کے بعد بہن نے کہا: باپ سے تم سے زیادہ اچھی طرح لذت حاصل ہوتی ہے۔

بھائی نے کہا: ماں بھی یہی کہتی ہے۔

بھائیو اور بہنو! اس واقعہ سے آپ اندازہ لگا سکتا ہے کہ مغربی ممالک میں انسیسٹ کتنا رائج ہو چکا ہے اور حکومتوں نے اس فعل بد کو قبول بھی کر لیا ہے۔ مثلاً

دور حاضر میں امریکہ میں حکومت نے حمل ساقط کرنے پر

پابندی عائد کر دی ہے بجز اس حمل کے جو انسیسٹ کا نتیجہ ہو۔

بھائیو اور بہنو! اس کے علاوہ چھوٹی بچیوں کو اس طرح کا لباس پہنایا جاتا ہے کہ ان کو جسمانی اعضأ سے متاثر ہو کر مرد انہیں اغوا کرلیتے ہیں اور جنسی خواہش پوری کرنے بعد قتل کر ڈالتے ہبں۔ کم عمر لڑکوں کو بھی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو! اسی طرح مغربی ممالک کی اکثر حکومتوں نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ مرد مرد سے اور عورت عورت سے شادی کر سکتی ہے۔

بھائیو اور بہنو! قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسیسٹ کا سلسلہ ہمیشہ سے ہی قائم ہے گو منظر عام پر نہیں آیا۔ خبر کے مطابق ہندو راجہ داہر نے اپنی بہن سے شادی کر لی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں ایک غیر مسلم قبیلہ تھا جہاں مرد مرد سے شادی کر لیتے تھے۔ آپ نے ان کو زندہ جلوا دیا تھا۔

انسیسٹ کا سلسلہ کیوں شروع ہوا؟

بھائیو اور بہنو! سوال جنم لیتا ہے کہ انسیسٹ کا سلسلہ کس وجہ سے شروع ہوا؟

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ عورتوں تے حجاب کی پابندی نہیں کی جس کی وجہ سے وہ محرم مردوں کے سامنے گھومتی پھرتی رہتی تھیں، کام کاج کرتی تھیں، ان کی آپس میں نظریں ملتی تھیں اور جنسی جذبات جنم لیتے تھے اور دونوں جسم آپس میں مل جاتے تھے۔ چونکہ بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح نہج پر نہیں ہوتی اور نہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ بہن بھائی میں جنسی اختلاط کرنا حرام ہے۔ قرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ممالک میں جنسی اختلاط کی شروعات بہن اور بھائی کے درمیان سے شروع ہو جاتی ہیں۔ وہ ٹی وی پر ایسے پروگرام دیکھتے ہیں جو جنسیت کا ابھارتے ہیں۔ ماں باپ کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپس میں سب کے سامنے بوس و کنار کرتے ہیں اور ان کے جسموں پر بھی کم سے کم لباس ہوتا ہے۔

بھائیو اور بہنو! جب محرم رشتوں میں جنسی اختلاط ہوتا رہتا ہے تو روح کس طرح سے پاکیزہ رہ سکتی ہے۔

عورت کا گھر سے باہر جانا

بھائیو اور بہنو! اللہ کے کلام قرآن پاک میں عورتوں کے لئے ہدایت ہے کہ جب وہ گھر سے باہر جائیں تو حجاب کے علاوہ ان کا چہرہ، ہتھیلیاں، اور پاؤں بھی ڈھکے ہوئے ہونے جائیں

سورۃ الاحزاب آیت نمبر 59

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یا یہا النبی قل لازواجک وبنٰتک و نساء المؤمنین یدنین علیھن من جلا بیھن ط ذٰلک ادنٰی ان یعرفن فلا یتذین ط وکان اللہ غفورا رحیما۔

اے نبی!کہہ دے اپنی عورتوں کو اور اپنی بیٹیوں کو اور مسلمانوں کی عورتوں کو نیچے لٹکا لیں اپنے اوپر تھوڑی سے اپنی چادریں ط ان میں بہت قریب ہے کہ پہچانی پڑیں تو کوئی ان کو نہ ستائے ط اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان۔

حاشیہ مولانا شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ

یعنی بدن ڈھانپنے کے ساتھ چادر کا کچھ حصہ سر سے نیچے چہرہ پر بھی لٹکا لیں۔

روایات میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمان عورتیں بدن اور چہرہ چھپا کر اس طرح نکلتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ دیکھنے کے لئے کھلی رہتی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ فتنہ کے وقت آزاد عورت کو چہرہ بھی چھپا لینا چاہیے۔ لونڈی باندیوں کو ضرورت شدیدہ کی وجہ سے اس کا مکلف نہیں کیا گیا کیونکہ کاروبار میں جرح عظیم واقع ہوتا ہے۔

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب عورت کو گھر سے باہر کسی ضرورت کے تحت جانا پڑے تو اس کے ساتھ محرم بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ حفاظت میں رہے۔ تاہم! اگر راستہ پرامن ہے تو عور ت اکیلی بھی جا سکتی ہے۔

آواز کا پردہ


بھائیو اور بہنو! مرد کے لئے عورت کی آواز بھی اس قدو پر کشش ہوتی ہے کہ اس کی آواز بھی مرد کے دل و دماغ میں جنسی ابھار پیدا کر دیتی ہے جس کا ذکر اللہ کے کلام قرآن پاک میں ہے

ترجمہ سورۃ الاحزاب آیت نمبر 34 – 32

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اے نبی کی عورتو! تم نہیں ہو جیسے ہر کوئی عورتیں اگر تم ڈر رکھو سو تم دب کر بات نہ کرو پھر لالچ کرے کوئی جس کے دل میں روگ ہے اور کہو بات معقول۔ ج اور قرار پکڑو اپنے گھروں میں اور دکھلاتی نہ پھرو جیسا کہ دکھانا دستور تھا پہلے جہالت کے وقت میں اور قائم رکھو نماز اور دیتی رہو زکواۃ اور اطاعت میں رہو اللہ کی اور اس کے رسول کی ط اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کردے تم سے گندی باتیں اے نبی کے گھر والو! اور ستھرا کر دے تم کو ایک ستھرائی سے۔ ج اور یاد کرو جو پڑھی جاتی ہیں تمہارے گھروں میں اللہ کی باتیں اورعقلمندی کی۔


بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ گو بظاہر آواز کے پردہ کا خطاب خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے کیا گیا ہے لیکن یہ خطاب قیامت تک کے لئے تمام عورتوں کے لئے ہے۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم کی ازواج امت کی مائیں ہیں۔ اس لئے جو ہدایت ماؤں کو ہوتی ہے وہی ان کی بیٹیوں کے لئے ہوتی ہے۔

لب لباب


بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ زنا کاری اور اس کے نتائج سے نفس پراگندہ ہوتا رہتا ہے جس کی وجہ سے روح پاکیزہ نہیں رہ سکتی اور اگر ایمان پر موت ہوئی ہے تو دوزخ میں جل کر روح کی صفائی ہوگی یا پھر خلوص دل سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کر لینے سے۔

زنا کاری کے اثرات


بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر زنا کاری ہی دوسرے برائی کے محوروں کی بنیاد ہے جو کہ حضرت آدم علیہ السّلام کے بیٹے قابیل نے اپنے ساتھ پیدا ہوئی جڑواں بہن سے شادی کرنے کی خاطر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا تھا اور اپنی بہن کو اغوا کر لیا تھا۔ چونکہ بھائی اور بہن کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا اس لئے، بالفرض محال، اگر نکاح بھی کر لیا ہو تو وہ نکاح باطل ہوتا ہے اور بہن بھائی جب بطور میاں بیوی رہتے ہیں تو وہ دونوں زنا کار ٹہرتے ہیں۔ دور حاضر میں بھی ایک فرقہ بنام پارسی بہن اور بھائی کے آپس میں نکاح کو جائز سمجھتا ہے اور اس فرقہ میں بہن اور بھائی کی شادی ہوتی ہے۔


بھائیو اور بہنو! عورت کے مرد کے آپس میں جب سفید رطوبت کا اخراج ہوتا ہے تو نا قابل بیان لذت کا حصول ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ اسی لذت کے حصول کے لئے مال دولت کی ضرورت ہوتی ہے جس سے فحاشی کے اڈے قائم کئے جاتے ہیں، نائٹ کلب بنائے جاتے ہیں، شراب اور منشیات کا استعمال ہوتا ہے، عورتوں کے جسموں کو عریاں کرنے کے لئے ایسے انداز سے کپڑے سلوائے جاتے ہیں کہ جسم کا ہر عضو مرد کی شہوت کو ابھارے، ٹی وی، اخباروں، اور رسالوں میں عورتوں کی عریاں تصویریں چھپتی ہیں، بلیو فلمیں بنا ئی جاتی ہیں جس میں مختلف انداز میں زناکاری کی جاتی ہے، پورنو گرافی ایک انڈسٹری بن چکی ہے کہ جوان اور خوبصورت لڑکیوں کے برہنہ جسم کی مختلف انداز میں تصویریں لی جاتی ہیں اور ان کے رسائل بنتے ہیں جو کہ مرد اور عورت کی جنسی شہوت کو ابھارتے ہیں، وغیرہ۔ چونکہ جنسی خواہش کا جنم لیتے رہنا ایک قدرتی امر ہے اور اس جنسی لذت کو مختلف پیرائے میں حاصل کرنے کی کو شش کی جاتی ہے۔ مثلاً:

٭مرد اور عورت آپس میں زنا کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد دونوں کا ایک دوسرے سے دل بھر جاتا ہے تو مرد دوسری عورت اور عورت دوسرا مرد تلاش کرتی ہے،

٭ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرد زناکاری کے اڈوں پر جائے اور ہر دفعہ نئی عورت سے جنسی لذت کو حاصل کرے یا پھر عورتوں کو اس طرح بدل لے جس طرح روزانہ قمیض بدلی جاتی ہے،

٭مرد مرد سے ایک دوسرے کے مقعد جنسی لذت کا حصول کرتے ہیں یا ایک دوسرے کے عضو کو چوس کر جنسی لذت حاصل کرتے ہیں،

٭مرد کمسن بچیوں کو اغوا کرتے یہں اور جسی لذت حاصل کرنے کے بعد عموما قتل کر دیتے ہیں،

٭مرد کمسن لڑکوں کو بھی اغوا کرتے ہیں اور جنسی لذت حاصل کرنے کے بعد ان کو عموماً قتل کر دیتے ہیں،

٭عورتیں جنسی لذت کو حاصل کرنے کے لئے مصنوعی عضو کو استعمال کرتی ہیں۔ ایک عورت مصنوعی عضو کو کمر کے ساتھ اس طرح باندھ لیتی ہے کہ مصنوعی عضو اس کی شرم گاہ پر ہوتاہے اور مرد کی طرح دوسری عورت کے شرم گاہ میں ڈال کر جھٹکے دیتی ہے جس سے دوسری عورت کو جنسی لذت حاصل ہوتی ہے، اسی طرح پہلی عورت بھی جنسی لذت کا حصول کرتی ہے،

٭عورتیں آپس میں ایک دوسرے کی شرم گاہ کے اندرزبان ڈال کر شرم گاہ کے اندر اس حصے کو اس انداز سے چاٹتی ہے جہاں سے سفید رطوبت نکلتی ہے اور لذت جنم لیتی رہتی ہے،

٭عورتیں مرد کے عضو کو چوستی ہیں جس سے مرد کہ جنسی لذت حاصل ہوتی ہے اور مرد عورتوں شرم گاہ کے اندر زبان ڈال کر اس کی شرم گاہ کے اس حصہ کو چوستے ہیں جہاں سے عورت کی سفید رطوبت نکلتی ہے اور اسے جنسی لذت کا حصول ہوتا ہے،

٭جن مردوں کو کوئی عورت نہیں ملتی تو وہ مشت زنی کے ذریعے جنسی لذت کا حصول کرتے ہیں۔ جن عورتوں کوئی مرد نہیں ملتا تو وہ مصنوعی عضو کو استعمال کرتی ہیں اور جنسی لذت کا حصول کرتی ہیں۔

٭خبر کے مطابق چین نے ایسی ڈمی تیار کی ہے کہ اس کا جسم عورت کی طرح کا ہے اور اس کی رانیں اور شرم گاہ اس طرح سے ہے کہ مرد ایک زندہ عورت کی طرح اس سے جنسی لذت حاصل کر سکتا ہے۔

٭وغیرہ۔


بھائیو اور بہنو! جنسی شہوت کو پورا کرنے کا مرحلہ تو آخری مرحلہ وہ ہوتا ہے جب سفید رطربت خارج ہوتی ہے۔ سفید رطوبت خارج ہونے کے بعد مرد اور عورت دونوں کے جسم ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ اس سے پیشتر بوس کنار، ایک دوسرے کے جسموں کو شہوت بھری نظروں سے دیکھنا، ایک دوسرے کے جسموں کا مساج کرنا، مرد کا عورت کے پستانوں سے کھیلنا اور ان کو چوسنا، عورت کا مرد کے عضو کو چھیڑتے رہنا کہ اس میں خون کی گردش شروع ہو اور پوری طرح ایریکٹ ہو جائے تاکہ وہ عورت کی شرم گاہ کے اس حصہ سے سختی کے ساتھ ٹکرائے جہاں سے عورت کو جنسی لذت کا حصول ہوتا ہے۔

بھائیو اور بہنو! جنسی لذت کے حصول کے لئے ایسی دوائیں اور آلات وغیرہ بنائے جا چکی ہیں اور مرداور عورت کی شہوت کو ابھارتے اور جن مردوں کی مردانگی میں کمزروی آجاتی ہے تو وہ دوائیں استعمال کرتے ہیں جو ان کی قوت باہ کو بڑھاتی ہیں۔

بھائیو اور بہنو! جو مرد اور عورتیں زنا کاری کے مرتکب ہوتے ہیں، عام طور پر وہ غسل نہیں کرتے جس کی وجہ سے جب تلک وہ غسل نہیں کرتے تو زناکاری کے اثرات فضا میں پھیلتے رہتے ہیں اسی طرح جس طرح پھولوں سے خوشبو فضا میں پھیلتی رہتی ہے۔ اس لئے جو مرد اور عورت یا کوئی شئے اس فضا سے گزرے گی تو اس پر زناکاری کے اثرات کا اثر ہوگا۔

روح کیسے پاکیزہ رہ سکتی ہے؟


بھائیو اور بہنو! سوال جنم لیتا ہے کہ روح کیسے پاکیزہ رہ سکتی ہے؟


بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السّلام کی تمام ذریت نے اللہ تعالٰی کو رب تسلیم کرنے کا اقرار کر لیا تھا تو ہر ذریت کو روح میں تبدیل کردیا تھا اور ہر روح رب رب کی تسبیح کرنے لگ گئی تھی۔ جب ماں کے رحم میں بچے کا جسم مکمل ہو جاتا ہے تو بچے کے دل میں فرشتہ اللہ کے حکم سے روح پھونک دیا ہے جس سے دل زندہ ہو جاتا ہے اور جسم کی تمام رگوں میں خون گردش کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس طرح سے تمام جسم زندہ ہو جاتا ہے۔ جب روح کو دل میں پھونک دیا جاتا ہے تو روح پاکیزہ ہوتی ہے۔


بھائیو اور بہنو! قرآن و حدیث کی روشنی میں بچہ جب ماں کے رحم سے نکال لیا جاتا ہے تو اس ضمن میں ہدایت ہے کہ بچے کو نہلایا آجائے تاکہ وہ پاک ہو جائے اور اسے صاف ستھرے کپڑے پہنائے جائیں اور اس کے دائیں کان میں اذان دی جائے اور بائیں کان میں تکبیر پڑھی جائے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ بچے کے لئے یاد دہانی ہوتی ہے کہ چونکہ اس نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کیا تھا اس لئے اب اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کے کلام کو سیکھے، اس پر عمل کرے اور اللہ کا پیغام دوسروں تلک پہنچائے۔

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ماں باپ بچے کے لئے اللہ تعالٰی کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ اگر ماں باپ بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت قرآن و حدیث کی روشنی میں کرتے ہیں تو بچے کی روح پاکیزہ رہے گی۔ جب بچے کے جسم میں سفید رطوبت کی مقدار زیادہ ہو جائے گی تو وہ عضو تناسل کے ذریعے خارج ہو جائے گی یعنی احتلام ہو جائیگا جس کا مطلب ہے کہ اب بچہ بالغ ہو گیا ہے۔


بھائیو اور بہنو! جب بچہ بالغ ہو جاتا ہے تو سفید رطوبت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اسے خارج کیا جائے تاکہ لذت کا حصول ہو سکے۔ اس ضمن میں ماں باپ کو ہدایت ہے کہ بچے کا نکاح کر دیا جائے اور اس طرح سے جنسی شہوت بھی پوری ہوتی رہے گی اور روح بھی پاکیزہ رہے گی۔ لیکن اگر سفید رطوبت کو نکاح کئے بغبر کسی بھی ذریعہ سے لذت کے حصول کے لئے خارج کیا تو روح پراگندہ ہونا شروع ہو جائے گی۔

ایمانداری اور دیانتداری


بھائیو اور بہنو! جب بندہ بالغ ہو جاتا ہے اور اللہ کا فضل تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے تو اگر وہ ایمانداری اور دیانتداری سے کاروبار کرتا ہے یا اگر ملازمت کرتا ہے اور ایمانداری اور دیانتداری سے خدمات فراہم کرتا ہے تو اس کی روح پاکیزہ ہی رہتی ہے۔

عزت و احترام

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب بندہ خلوص دل سے ماں باپ، اساتذہ، دوست احباب، رشتہ داروں کی عزت و احترام کرتا ہے تو اس کی روح پاکیزہ رہتی ہے۔

پیار، محبت اور شفقت


بھائیو اور بہنو! خلوص دل سے اپنی اولاد رشتہداروں اور دوست احباب کے بچوں سے پیار، محبت اور شفقت سے پیش آنا اور ان کی ضروریات کے مطابق ان کو تحفے تحائف دینے سے بھی روح پاکیزہ رہتی ہے۔

مہمان نوازی


بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حقیقت میں تمام بنی نوع انسان اللہ کے بندے کا مہمان ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک درد مند دل جب کسی بھی انسان کو تکلیف یا پریشانی میں دیکھتا ہے تو اس کی مدد کے لئے دل میں جذبہ جنم لیتا ہے۔ مثلاً

بھائیو اور بہنو! گھر سے باہر جب بندہ جاتا ہے تو ایک طرح سے تمام بہن بھائیوں کے درمیان سے گزر ہوتا ہے کیونکہ تمام انسان حضرت آد علیہ السّلام کی ذریت ہیں۔ اگر بندہ کسی کو جانتا بھی نہ ہو لیکن وہ گر گیا ہے تو وہ اس کو سنبھلنے میں مدد کرے گا اور اگر اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے یا ہسپتاللے کر جانا ہے تو وہ بندہ اسے ڈاکڑ کے پاس یا ہسپتال میں لے کر جائے گا۔حتٰی کہ گھر سے باہر اگر کوئی سائل بھی آتا ہے تو وہ ایک طرح اللہ کا بھیجا ہوا مہمان ہوتا ہے جس کی ضرورت اس کی شان کے مطابق پوری کرنی ہوتی ہے۔ ایسی مہماں نوازی کرنے سے الحمد للہ! روح پاکیزہ رہتی ہے۔

صدقہ و خیرات


بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ رزق میں برکت اور اللہ تعالٰی سے قربت حاصل کرنے کا طریقہ اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرتے

رہنا ہے۔ صدقہ وہ خیرات کی اہمیت کو بتلانے کے لئے اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے اپنے کلام قرآن پاک میں آیات کا نزول فرمایا ہے:

سورۃ البقرۃ آیت نمبر 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الذین یؤمنون با لغیب و یقیمو ن الصلٰوۃ و مما رزقنٰھم ینفقون۔

جو کہ یقین کرتے ہیے بے دیکھی چیزوں کا اور قائم رکھتے ہیں نماز کو اور جو ہم نے روز ی دی ہے ان کو اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

سورۃ البقرۃ آیت نمبر 83

بسم اللہ الرحمن الرحیم

و اذ میثاق بنی اسراء یل لا تعبدون الا اللہ قف و بالوالدین احساناو ذی القربٰی والیتٰمٰی والمسٰکین و قولو للناس حسناو اقیمواالصلٰوۃ و اٰتواالزکٰوۃ ط ثم تولیتم الا قلیلا منکم و انتم معرضون۔

اور جب ہم نے قرار لیا بنی اسرائیل سے کہ عبادت نہ کرنا مگر اللہ کی قف اور ماں باپ سے سلوک نیک کرنا اور کنبہ والوں سے اور یتیموں اور محتاجوں سے اور کہیو سب لوگوں سے نیک بات اور قائم رکھیو نماز اور دیتے رہیو زکواۃ ط پھر تم پھر گئے مگر تھوڑے سے تم میں اور تم ہو ہی پھرنے والے۔

سورۃ البقرۃ آیت نمبر 254

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یا ایھا الذین اٰمنوا انفقوا مما رزقنٰکم من قبل ان یاتی یوم لا بیع فیہ ولا خلۃ شفاعۃ ط والکٰفرون ھم الظٰلمرن۔

اے ایمان والو! خرچ کرو اس میں سے جو ہم نے تم کو روزی دی پہلے اس دن کے آنے سے کہ جس میں نہ خرید و فروخت ہے اور نہ آشنائی اور نہ سفارش ط اور جو کافر ہیں وہی ہیں ظالم۔

ترجمہ سورۃالبقرۃآیت نمبر 273

بسم اللہ الرحمن الرحیم

للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ لا یستطیعون ضرباً فی الارض ز یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف ج تعرفہم بسیمٰھم ج لا یسئلون الناس الحافا ط وما تنفقوا من خیر فان اللہ بہ علیم۔

سرپرستی ان فقیروں کے لئے جو رکے ہوئے ہیں اللہ کی راہ میں چل پھر نہیں سکتے ملک میں ز سمجھے ان کو ناواقف مالدار ان کے سوال نہ کرنے سے ج تو پہچانتا ہے ان کو ان کے چہرہ سے ج نہیں سوال کرتے لوگوں سے لپٹ کر ط اور جو کچھ خرچ کرو گے کام کی چیز وہ بیشک اللہ کو معلوم ہے۔

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! اللہ کے جو بندے اللہ کی رضا کے حصول کے لئے خلوص دل سے صدقہ وخیرات کرتے رہتے ہیں ان کی روح بھی، اللہ کے فضل و کرم سے، پاکیزہ رہتی ہے۔

لب لباب

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حقوق اللہ کے ادا کرنے کے ساتھ اللہ کے راستے میں خلوص دل سے صدقہ و خیرات کرنا آخرت کی زندگی میں اجر کثیر کا اللہ کی بارگاہ میں تقاضا کرتا ہے اور دنیا کی زندگی میں دل میں سکینت اور دماغ میں سکون کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالٰی، اپنے فضل و کرم سے، اپنے کلام قرآن پاک کے شروع میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ البقرہ میں ارشاد فرمایا ہے

سورۃ البقرۃ آیت نمبر 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الذین یؤمنون با لغیب و یقیمو ن الصلٰوۃ و مما رزقنٰھم ینفقون۔

جو کہ یقین کرتے ہیے بے دیکھی چیزوں کا اور قائم رکھتے ہیں نماز کو اور جو ہم نے روز ی دی ہے ان کو اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو! اللہ کے راستے میں بے لوث خرچ کرنے کا ذکر قرآن پاک میں خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کی چہتی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی زندہ مثال سے کیا ہے

ترجمہ سورۃالدھر آیت نمبر 12 – 7

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پورا کرتے ہیں منت کو اور ڈرتے ہیں اس دن سے کہ اس کی برائی پھیل پڑے گی۔ اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو اور یتیم کو اورقیدی کو۔ ہم جو تم کو کھلاتے ہیں سو خالص اللہ کی خوشی چاہنے کو نہ تم سے ہم چاہیں بدلہ اور نہ چاہیں شکرگزاری۔ ہم ڈرتے ہیں اپنے رب سے ایک دن اداسی والے کی سختی سے۔ پھر بچا لیا اللہ نے برائی سے اس دن کی اورملا دی ان کو تازگی اور خوش وقتی۔ ج اور بدلہ دیا ان کو ان کے صبر پر باغ اور پوشاک ریشمی۔

بھائیو اور بہنو! مندرجہ بالا ّآیات کا پس منظر ہے

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہا اور حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ بیمار ہو گئے تھے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اللہ کی توفیق سے نذر مانی کہ جب اللہ تعالٰی اپنے فضل وکرم سے صاحبزادوں کو شفا عطا فرمائیں گے تو وہ اللہ کی توفیق سے تین روزے رکھیں گی۔

الحمد للہ! اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے صاحبزادوں کو شفا عطا فرمائی۔

تنگدستی کا زمانہ تھا۔ مختصر یہ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک یہودی سے اون کاتنے کے لئے لے آئے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی نے اللہ کی توفیق سے روزہ رکھا، اون کاتی، شام کو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی نے یہودی سے اجرت لی اور کھانے پینے کا سامان لے کر آ گئے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی نے کھانا پکایا۔ روزہ افطار کرنے کا وقت قریب تھا کہ دروازے پر سے ایک سائل کی آواز آئی جس کا مفہوم ہے

اے نبی کے گھر والو !محتاج ہوں، بھوکا ہوں۔ اللہ کے واسطے سرپرستی فرمائیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف دیکھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سمجھ گئے اور تمام کھانا محتاج کے حوالے کر دیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے پانی سے روزہ افطار کیا۔

دوسرے دن پھر اون کاتی اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ یہودی سے اجرت لے کر کھانے پینے کا سامان لے کر آئے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی نے کھانا پکایا۔ روزہ افطار کا وقت قریب تھا کہ دروازے پر سے سائل کی آواز آئی جس کا مفہوم ہے

اے نبی کے گھر والو !یتیم ہوں، بھوکا ہوں، اللہ کے واسطے سر پرستی فرمائیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی نے حضرت علی کی طرف دیکھا۔ حضرتت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام کھانا یتیم کو دے دیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی نے روزہ پانی سے افطار کیا۔

تیسرے روز پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی نے اون کاتی۔ حضرت علی رضی اللہ تعاٰی عنہ نے یہودی سے اجرت لی اور کھانے پینے کا سامان لے کر آئے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہن نے کھانا پکایا۔ روزہ افطار کرنے کا وقت قریب تھا کہ دروازے سے سائل کی آواز آئی جس کا مفہوم ہے

اے نبی کے گھر والو !قیدی ہوں، بھوکا ہوں، اللہ کے واسطے سرپرستی فرمائیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف دیکھا اور انہوں نے کھانا قیدی کے حوالے کر دیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے روزہ پانی سے افطار کیا۔

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے جو بنی نوع انسان کو سبق ملتا ہے وہ یہ کہ ہمیشہ اپنی ضرورت سے دوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھو۔اللہ کے غیب میں بے بہا خزانے ہیں۔ جب بندہ اپنی ضرورت سے دوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھتا ہے تو وہ بھی اللہ کی توفیق سے ہی رکھتا ہے۔ اللہ تعالٰی دوسرے کی ضرورت کو اپنی ضرورت سے مقدم رکھنے والے کو کیسے بھول سکتا ہے؟

بھائیو اور بہنو! اللہ کے راستے میں خلوص دل سے خرچ کرنے وملوں کی روح ہمیشہ پاکیزہ رہتی ہے۔

حقوق اللہ کا خلوص دل سے ادا کرتے رہنا

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ خلوص دل سے اللہ تعالٰی کی ذات یکتا پر ایمان لانے کے بعد حقوق اللہ کو خلوص ادا کرتے رہنے سے بھی روح پاکیزہ رہتی ہے

نماز اداکرنا

بھائیو اور بہنو! خلوص دل اور خشوع اور خضوع سے نماز ادا کرتے رہنے سے بندے کے دل و دماغ میں عاجزی و انکساری کا جذبہ جنم لیتا رہتا ہے اور اللہ کے کلام کا علم حاصل ہوتا رہتا ہے۔

زکواۃ ادا کرنا

بھائیو اور بہنو! خلوص دل سے زکواۃ ادا کرنے سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتے رہنے کا جذبہ جنم لیتا رہتا ہے۔

رمضان المبارک کے روزے رکھنا

بھائیو اور بہنو! رمضان المبارک کے روزے رکھنے سے دل و دماغ میں نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے رہنے کا جذبہ جنم لیتا ہے۔

حج کی سعادت حاصل کرنا

بھائیو اور بہنو! خلوص دل سے حج ادا کرنے سے اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے بندے کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔

اللہ کے کلام قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! اللہ کا کلام کی عبارت تختیوں پر قلم نے اللہ تعالٰی کے حکم سے لکھی تھی۔ جب چودہ سو سال پیشتر رفتہ رفتہ اللہ کے کلام کا نزول ہوتا رہا تو اللہ کے کلام کو کاتبان وحی کاغذوں پر لکھتے رہے۔ اللہ کے کلام کو اللہ کی کتاب کا نام دیا گیا اور اللہ کی کتاب کو قرآن کا نام رکھا گیا۔

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کے کلام کی عبارت کی تلاوت بغیر سمجھے کرتے رہنا بھی کار ثواب ہے۔ خلوص دل سے اللہ کے کلام کی تلاوت کرتے رہنے سے دل اور دماغ میں جو پولیوشن ہوتا ہے وہ صاف ہوتا رہتا ہے جس طرح بلیچ گندگی کو صاف کر دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں روح پاکیزہ ہوتی رہتی ہے۔

ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش کرنا

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں ہ ہر وقت باوضو رہنے سے بھی روح پاکیزہ رہتی ہے۔

لب لباب

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ خلوص دل سے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتے رہنے سے، اللہ کے فضل و کرم سے، روح پاکیزہ رہتی ہے۔ حقوق اللہ جب ادا کرنے کے بعد حقوق العباد کے ادا کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مثلاً: نماز ادا کی اور اس کے بعد اللہ کے فضل کی تلاش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ایک دوسرے سے قوت حاصل ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں روح پاکیزہ رہتی ہے۔

حرف آخر

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! آپ نے جسم اور روح کو پاکیزہ رکھنے کی گزارشات کا مطالعہ کیا۔لیکن جب تلک جسم اور روح کو پاکیزہ رکھنے کے لئے اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا احساس نہ کیا جائے اس وقت تلک روح اور جسم کی پاکیزگی میں نکھار نہیں آتا۔ اس ضمن میں منصوبہ امن کی پکار کا تقاضا ہے کہ اگلا مضمون ترتیب دیا جائے کہ بندہ کس طرح جسم اور روح کو پاکیزہ کرنے کے لئے اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا احساس کر سکتا ہے۔ چنانچہ اگلا مضمون بندہ جب صبح سو کر جاگتا ہے اور اللہ کے فضل کی تلاش کے لئے تیار ہوتا ہے تو اس ضمن میں اسے پر لا تعداد نعمتوں کا نزول ہوتا ہے جن کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ تو اگر صبح جاگ کر اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لئے لا تعداد نعمتوں کا نزول ہوتا جس کے لئے زیادہ سے زیادہ ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ درکار ہے تو اللہ تعالٰی کی نعمتیں جو تمام عمر بندے پر نازل ہوتی رہتی ہیں ان کا احاطہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ جسم اور روح کو پاکیزہ رکھنے کے لئے نفس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ دوسرے الفاظ میں نفس کا تزکیہ کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے۔ آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لئے ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ چند روزہ زندگی میں نفس پر قابو پا لیا تو الحمد للہ! اللہ تعالٰی رضا کہ حصول ہوگا۔ موت کے بعد قبر میں جنت کی طرف سے کھڑکی کھول دی جائے گی، روز محشر میں میں بغیر حساب کے جنت میں داخلے کا پروانہ مل جائے گا اور ہمیشہ کے لئے، اللہ کے فضل و کرم سے، جنت میں اللہ تعالٰی کی نعمتوں سے بندہ مستفید ہوتا رہے گا جو کسی آنکھ نے نہ دیکھی نہ کسی کان نے سنی اور نہ کسی کے وہم و گمان میں آ سکتی ہیں۔

دعاؤں میں یاد رکھیں

والسّلام

نصیر عزیز

پرنسپل امن کی پکار


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll Up