اللہ کی نعمتیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

امن کی پکار

 

بھائیو اور بہنو

 

السّلام علیکم

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو اپنی عبادت اور بندگی کے لئے تخلیق کیا ہے۔ اگر بندہ دنیا میں اللہ تعالٰی کی عبادت کرتا ہے اور بندگی کرتا ہے تو اسے اللہ تعالٰی کی رضا کا حصول ہوگا اور موت کا جہاز اسے اسے وطن جنت میں لے جائے گا جہاں سے اسے دادا حضرت آدم علیہ السّلام کو ان کی بھول کی وجہ سے دنیا میں بھیجا گیا۔ حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالٰی سے بھول یہ ہوئی تھی کہ انہوں شیطان کے بہکانے پر ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا تھا جس کے قریب جانے سے بھی اللہ تعالٰی نے منع کیا تھا

 

ترجمہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 35

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اور ہم نے کہا اے آدم رہا کر تو اور تیری عورت جنت میں اور کھاؤ اس میں جو چاہو جہاں کہیں سے چاہو اور پاس نہ جانا اس درخت کے پھر تم ہو جاؤ گے ظالم۔

 

بھائیو اور بہنو! شیطان نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں یہ دعوٰی کیا تھا کہ وہ انسان اللہ کے سیدھے راستے سے بہکائے گا

 

ترجمہ سورۃالاعراف آیت نمبر 18 – 16

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 


بولا تو جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور بیٹھوں گا ان کی تاک میں سیدھی راہ پر۔ پھر آؤں گا ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے ط اور نہ پائے گا تو اکثروں کو ان میں شکر گزار۔

 

کہا نکل یہاں سے برے حال سے مردود ہو کر ط جو کوئی ان میں سے تیری راہ پر چلے گا تو میں ضرور بھر دوں گا دوزخ تم سب سے۔

 

بھائیو اور بہنو! شیطان کے انسان کو بہکانے کے بہت سے طریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ انسان کو اللہ تعالٰی کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا احساس نہیں ہونے دیتا تاکہ اللہ کی عظمت و بڑائی ان کے دل و دماغ میں نہ سمو سکے اور اللہ کی عبادت اور بندگی کر سکیں اور اللہ کے شکر گزار ہو سکیں۔ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام مبعوث کئے کہ بندے اللہ تعالٰی نعمتوں برکتوں اور رحمتوں کا احساس کر سکیں اور شکرگزار ہو سکیں۔

 

بھائیو اور بہنو!مختصر یہ کہ اس دنیا کو بھی ختم ہونا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے بنی نوع انسان کو آخری موقعہ دیا کہ وہ اللہ تعالٰی کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا احساس کر سکیں اور اس مقصد کے لئے اللہ تعالٰی نے محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کو بطور خاتم الانبیأ مبعوث فرمایا۔

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم نے، اللہ کے فضل و کرم سے، نبوت کا حق ادا کر دیا اور خلافت راشدہ کے ساڑھے بارہ سال کے عرصہ میں پچیس لاکھ مربع میل پر اللہ کے بندے اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا احساس کرنے لگے۔ جب آپ صل اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے تو اس ذمہ داری کو اللہ تعالٰی نے آپ صل اللہ علیہ وسلم کی امت کے سپرد کردیا

 

ترجمہ سورۃآل عمرانٰ آیت نمبر110

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

 

کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تا مرون بالمعروف و تنہون عن المنکر و تو منون با للہ ط ولو اٰمن اھل الکتٰب لکان خیراً لہم ط منہم المومنون و اکثر ھم الفاسقون۔

 

تم ہو بہتر سب امتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر ط اور اگر ایمان لاتے اہل کتاب تو ان کے لئے بہتر تھا ط کچھ تو ان میں سے ہیں ایمان پر اور اکثر ان میں نافرمان ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد نفس اور شیطان کو کھلی چھٹی مل گئی اور رفتہ رفتہ امت مسلمہ بھی اللہ تعالٰی کے سیدھے راستے ہٹتی چلی گئی اور آج کے دور کی حالت چودہ سو سال سے پہلے بھی بد تر ہو چکی ہے مثلاً:

 

٭متحدہ امارات میں شراب خانے، جوأ خانے، حتٰی کہ سوئر کے گوشت کی دکانیں بھی کھل چکی ہیں اور حالات حاضرہ کی خبر یہ ہے کہ متحدہ امارات میں مرد اور عورت بغیر نکاح کئے بھی آپس میں بطور شوہر اور بیوی کے رہ سکتے ہیں۔

 

٭سعودی عرب میں شرعیت کو ریلیکس کر دیا گیا ہے اور ایک شہر نیوآن کی تعمیر کی جا رہی ہے جہاں پر اسلامی فقہ کا نفاذ نہیں ہوگا اور عیش و عشرت کی تمام سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔

 

٭پاکستان گوکلمہ طیبہ: لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ کی بنیاد پر دنیا کے نقشہ پر ابھرا تھا میں براائی کے محور وںکو فروغ دیا جا رہا ہے اور حالات حاضرہ میں یہ قانوں بھی پاس کر دیا گیا ہے کہ مرد مرد سے اور عورت عورت سے شادی کر سکتی ہے۔

 

بھائیو اور بہنو!مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی کا قانون مغفرت اٹل ہے

 

ترجمہ سورۃآل عمران آیت نمبر85

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

و من یتبع غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ ج

و ھو فی الاٰخرۃ من الخٰسرین۔

 

اور جو کوئی چاہے سوا دین اسلام کے اور کوئی دین سو اس سے ہر گز قبول نہیں ہو گا

ج اور وہ آخرت میں خراب ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ، کم و بیش، تمام بنی نوع انسان دوزخ کی وادیوں کی طرف رواں دواں ہے۔ اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق نے اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کے ذریعہ سے اپنا پیغام بنی آدم تلک پہنچانا ہوتا ہے

 

ترجمہ سورۃ الحج آیت نمبر 75

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اللہ چھانٹ لیتا ہے فرشتوں میں پییغام پہنچانے والے اور آدمیوں میں ط اللہ سنتا دیکھتا ہے۔

 

فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو اللہ ہی چھانٹ لیتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کا پیغام پہنچانے والے بنی آدم میں سے انبیأ کو مبعوث کرتے ہیں اور انبیأ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد ان کے امتی اللہ کا پیغام اللہ کا پیغام بنی نوع انسان تلک پہنچاتے ہیں۔

 

منصوبہ امن کی پکار

 

بھائیو اور بہنو! منصوبہ امن کی پکار کس طرح سے وجود میں آیا اس کے لئے کسی بھی مندرجہ ذیل ویب سائٹس پر سپانسر شپ یا پروفائل کا جائزہ لیں

 

www.cfpislam.co.uk

www.cfpibadaahs.co.uk

www.cfppolitics.co.uk

www.callforpeace.co.uk

www.amankipukar.co.uk

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ منصویہ امن کی پکار کا مقصد بین الاقوامی سطح پر اللہ کا پیغام اجتماعی اور انفرادی طور پر پہنچانا ہے۔ الحمد للہ! نام امن کی پکار پوری دنیا میں پہنچ چکا ہے۔ لیکن چونکہ امت مسلمہ اور امت محمدیہ نے اللہ کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا احساس کرنا چھوڑ دیا ہے اس لئے وہ منصوبہ امن کی پکار کو پہچان نہیں سکی جس کی وجہ سے منصوبہ امن کی پکار منظر عام پر آ نہیں سکا۔

 

بھائیو اور بہنو! ذکر کیا گیا ہے کہ منصوبہ امن کی پکار کا مقصد انفرادی طور پر اللہ کے بندوں کی اصلاح کرنا ہیے اس ضمن میں ایک مہربان کی اہلیہ کو خطاب کیا گیا ہے۔ جب آپ دوسرے مضامین کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو علم ہو جائے گا کہ ان کے ذریعہ سے پوری بنی نوع انسان کو پیغام دیا گیا گیا ہے جیسا کہ ان مضامین کو ویب سائٹس پر شائع کر دیا گیا ہے اور آپ اس کا مطالعہ کر رہے ہیں اور انشأاللہ !کریں گے اور پھر اپنے رشتہداروں اور دوست احباب کو بھی مطالعہ کرنے کی ترغیب دیں گے۔

 

بھائیو اور بہنو! تمام بنی نوع انسان کو اللہ تعالٰی کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا احساس دلانے کے لئے مضمون: اللہ کی نعمتیں میں سے اقتباس نقل کیا جا رہا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ ان تمام مضامین کا خلوص دل سے مطالعہ فرمائیں۔ نیز تمام ویب سائٹس کا جائزہ لیں۔

 

والسّلام

 

نصیر عزیز

 

پرنسپل امن کی پکار

اقتباس

محترمہ بھابی صاحبہ !اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے انسان کو اپنی بندگی کے لئے تخلیق کیا ہے

 

ترجمہ سورۃالدھر آیت نمبر3 – 1

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

کبھی گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں کہ نہ تھا وہ کوئی چیز جو زبان پر آتی۔

ہم نے بنایا آدمی کو ایک دو رنگی بوند سے ق ہم پلٹتے رہے اس کو پھر کر دیا اس کو ہم نے سننے والا دیکھنے والا۔

ہم نے اس کوسجھائی راہ یا حق مانتا ہے اور یا ناشکری کرتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ دل و دماغ میں اللہ تعالٰی کی ذات یکتا پر ایمان لانا اور اللہ کا شکر گزار ہوتے رہنا ہی اللہ کی بندگی ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! اب سوال جنم لیتا ہے کہ اللہ کا شکر گزار کیسے ہوا جا سکتا ہے؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ !مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو جسم کی نعمت سے نوازا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ انسان کاجسم مندرجہ ذیل اعضا کا مرکب ہے

 

        کھوپڑی دماغ کی حفاطت کرتی ہے،

        ماتھا دل کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے

        کان علم حاصل کرنے کے لئے سنتے ہیں،

        آنکھیں دل کے پیغام کو نشر کرتی ہیں،

        ناک سے انسان سانس لیتا ہے اور خوشبو اور بدبو میں تمیز کرتا ہے،

        ہونٹوں کے بند ہو نے آواز رک جاتی ہے اور کھلنے سے آواز نکلتی ہے جس سے الفاظ بنتے ہیں

        بازو ہاتھوں کے معین ہوتے ہیں،

        ہاتھ ہر وقت کام کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں،

        انگلیاں ہتھیلیوں سے مل کر پکڑنے کا کام کرتا ہیں،

        انگوٹھا انگلیوں کے ساتھ مل کر کسیی بھی شئے کو پکڑنے میں قوت پیدا کرتا ہے،

        ہاتھوں کے ناخن انگلیوں کے پوروں کی حفاظت کرتے ہیں اور جسم کے کسی بھی حصے میں کھجلی کر سکتے ہیں،

        سینہ اندرونی اعضا کی حفاظت کرتا ہے،

        کمر بدن کو جھکانے کا کام کرتی ہے،

        رانیں جسم کو پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دیتی ہیں،

        پنڈلیاں بھی جسم کو پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد کرتی ہیں،

        گھٹنے جسم کو جھکنے میں مدد کرتے ہیں،

        پاؤں جسم کو چلنے اور بھاگنے میں معین ہیں،

        ٹخنے پنڈلی اور پاؤں میں جوڑ پیدا کرتے ہیں،

        پاؤں کی انگلیوں میں لچک ہوتی ہے جو چلنے میں مدد کرتی ہے

        پاؤں کا انگوٹھا اور انگلیاں مل کر کسی شئے کو ٹھوکر مار سکتے ہیں

         پاؤں کے ناخن انگلیوں کے پوروں کی حفاظت کرتے ہیں،

        پاؤں کی تلوا چلتے ہوئے گرم اور سردکی تمیز کر سکی ہے،

        جسم کے ہر عضو کی ہڈیاں انسان کے جسم کا ڈھانچہ بناتی ہیں،

        جسم کے ہر حصہ میں جوڑ انسان کو چلنے پھرنے، بھاگنے میں مدد کرتا ہے،

        جسم کے ہر عضو پر گوشت انسان کی شکل بناتا ہے۔

        سر پربال کھوپڑی کی حفاظت کرتے ہیں،

        جسم کے، کم و بیش، ہرحصہ پر بال جسم کے اندر کے فاسد مادوں کو باہر نکالتے ہیں،

        وغیرہ۔    

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مندرجہ بالا انسان کے جسم کے چندظاہر ی اعضا ہیں

جو انسان کے لئے ایک ہتھیار کا کام دیتے ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !اب آئیے جسم کے کا اندرونی اعضأ کا جائزہ لیتے ہیں۔ انسان کے جسم کے اندر مندرجہ ذیل اعضأ ہیں

 

        کھوپڑی میں دماغ کانوں کے ذریعے سننے، سوچنے سمجھنے کا کام کرتا ہے،

        دل جسم کا وہ حصہ ہے جس سے پورے جسم میں خون کی گردش ہوتی رہتی ہے،

        رگیں تمام جسم میں پھیلی ہوئی ہیں جن کے اندر سے خون دوڑتا رہتا ہے،

        پھیپھڑے ناک کے ذریعے آکسیجن لیتے ہیں اور منہ کے ذریعے سے کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرتے ہیں،

        پیٹ کھانے اور پانی کو سٹور کرتا ہے اور پھر کھانا چھوٹی آنت میں چلا جاتا ہے،

        چھوٹی آنت میں خوراک کو تیزاب توڑتا ہے،

        جگر تیزاب پیدا کرتا ہے اور جیسے ہی خوراک چھوٹی آنت میں پہنچتی ہے تو پتہ کے ذریعے تیزاب چھوٹی آنت میں پہنچ جاتا ہے،

        جب خوراک ٹوٹ جاتی ہے تو وہ بڑی آنت میں چلی جاتی ہے جہاں خوراک کو ہضم کرنے کا اور خون کے بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے،

        جب خوراک ہضم ہو جاتی ہے تو مقعد کے ذریعے فضلہ خارج ہو جاتا ہے،

        گردے پانی کو فلٹر کرتے ہیں،

         اگلی شرم گاہ سے گندہ پانی خارج ہو جاتا ہے،

        ہڈیوں کے اندر گودا بنتا رہتا ہے جو ہڈیوں میں قوت کا باعث ہوتا ہے،

        جسم کے مختلف حصوں میں جوڑ جسم کو حرکت کرنے، مثلاً۔ اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، بھاگنے، انگڑائی لینے، کام کرنے میں مدد کرتے ہیں،

        جسم کے جوڑوں میں لیکوئڈ پیدا ہوتا ہے جو ہڈیوں کو گھسنے سے بچاتا ہے،

        دانت جو خوراک کو چبانے کا کام کرتے ہیں،

        لعاب جو منہ کے اندرونی حصہ کو خشک نہیں ہونے دیتا،

        زبان جو ذائقہ چکھتی ہے، الٹ پلٹ کر حلق سے نکلی ہوئی آواز کو الفاظ میں تبدیل کرتی ہے،

        حلق کے قریب وائس بوکس ہوتا ہے جہاں سے آواز نکلتی ہے،

        وغیرہ۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !مندرجہ بالا جسم کے مختصر اندرونی اعضا ہیں۔ اگر کوئی بھی عضو کسی کمی کا شکار ہو جائے توطبیب کی طرف رجوح کرنا پڑتا ہے اور اس کمی کو دور کرنے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں خواہ قرض لینا پڑے، جائداد فروخت کرنی پڑے، انسان دیوالیہ ہو جائے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ انسان کے اندرونی اور بیرونی اعضأ اللہ تعالٰی کی نعمتیں ہیں جن کا انسان کو احساس نہیں ہوتا ہے۔ احساس کے نہ ہونے سے اللہ تعالٰی کی عظمت و بڑائی آشکارا نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ یعنی اللہ تعالٰی کی جو نعمتیں ہیں ان کو

 

Taken for Granted

 

لیا جاتا ہے جیسے یہ انسان کا اللہ تعالٰی پر حق ہے اور

اس کے لئے اسے اللہ کا شکر گزار ہونے کی حاجت نہیں ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !آئیے اب اللہ تعالٰی کی ان نعمتوں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں جو ہر لحظہ انسان پر برستی رہتی ہیں لیکن انسان کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔

 

توازن

 

محترمہ بھابی صاحبہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے انسان کو ایک ہی قسم کے دو یا دو سے زیادہ عضو دئیے ہیں، مثلاً:

 

        دو بازو

        دو ہاتھ

        دو ٹانگیں،

        دو پاؤں

        دو پھپھڑے

        دو گردے

        دو آنکھیں

        ہرہاتھ اور ہرپاؤں میں چار انگلیاں اور ایک انگوٹھا،

        وغیرہ۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !چونکہ انسان کے جسم کے اندرونی اور بیرونی اعضا میں دو کی تعداد ہے اس لثے اسن کے جسم کی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

 

        دائیں طرف

        بائیں طرف

 

محترمہ بھابی صاحبہ گہری نظر سے دیکھا جائے تو نظر آئے کا کہ دونوں ٹانگوں، دونوں بازوؤں کی لمبائی کا ایک ہی سائز ہے۔ اگر ایک ملی میٹر کا بھی فرق ہو گا تو توازن برقرار نہیں رہ سکتا۔ مثلاً:

 

        آپ ایک پاؤں میں جوتا پہنیں اور ایک پاؤں میں جوتا نہ پہنیں اور چلنا شروع کریں تو آپ کا توازن نہ ہونے کی وجہ سے چلنے میں تکلیف ہوگی، پوری رفتار سے بھاگ نہیں سکیں گی،

 

        اگر آپ کے دائیں پاؤں کا سائز آٹھ ہو اور بائیں پاؤں کا سائز سات ہو تو کیا توازن برقرار رہ سکتا ہے؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ !اللہ تعالٰی کی جسم کے چند قسم کے اعضأ کی تعداد دو رکھنے میں یہ حکمت نظر آتی ہے کہ اگر جسم کا ایک عضو ضائع ہو جائے تو صرف ایک عضو سے بھی انسان اللہ کا فضل تلاش کر سکتا ہے۔ جسم کے اندرونی اعضأ میں ایک عضو ہے کہ اگر وہ ضائع ہو جائے اور جسم کے باقی تمام اعضأ صحت مند ہوں تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔

 

وہ عضو ہے دل

 

محترمہ بھابی صاحبہ !دل انسان کے جسم کا مرکزی عضو ہے جس کے ذریعے پورے جسم میں خون کی گردش ہوتی ہے۔ جب خون اعضأ کو نہیں پہنچتا تو آکسیجن بھی نہیں پہنچتی تو اعضأ کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !مختصر یہ کہ اگر انسان اپنے جسم کے ہر عضو کا جائزہ لیتا رہے تو نظر آئے گا کہ جسم کا ہر عضو اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے جس کا انسان کو احساس نہیں ہے۔

 

کائنات کی ہر مخلوق انسان کے لئے اللہ کی نعمت ہے

 

محترمہ بھابی صاحبہ !علمائے کرام فرماتے ہیں کہ کائنات پہلے آسمان اور زمین کی تہوں تلک ہے۔ آسمان سے پانی برستا ہے اور زمین سے پیداوار پیدا ہوتی ہے۔ زمین اور آسمان کے درمیان جتنی بھی مخلوقات ہیں، مثلاً :سورج، چاند ستارے، سیارے، کہکشائیں، ہوائیں، وغیرہ وغیرہ سب سے اللہ کے حکم سے اثرات جنم لیتے رہتے ہیں جو زمین اور آسمان کے درمیان جو فضا ہے اس میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔

 

پیداوار

 

محترمہ بھابی صاحبہ !آسمان سے پانی برستا ہے تو ان تمام مخلوقات کے اثرات پانی میں شامل ہو جاتے ہیں جس سے زمین سیراب ہوتی رہتی ہے اور پیداوار پیدا ہوتی رہتی ہے۔ اگر کسی بھی مخلوق کے اثرات پانی میں شامل نہیں ہوں گے تو پیداوار کی جزیات پیداوار کے مرکزی نقطہ تلک نہیں پہنچ سکتیں۔ مثلاً: اللہ تعالٰی کے حکم سے سورج نکلتا ہے تو دن کا ظہور ہوتا ہے اور سورج کی گرم شعائیں بیج کو پکانا شروع کرتی ہیں۔ سورج غروب ہو جاتا ہے تو رات کا ظہور ہوتا ہے اور درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق بیج کو پکنے کے بعد بہت کم درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سورج غروب نہ ہو تو بیج سورج کی گرم شعاؤں سے جل جائے گا اور کوئی پیداوار نہیں ہوگی۔ اور اگر سورج غروب ہی رہے تو بیج پک ہی نہیں سکے گا اور پیداوار نہیں ہوگی۔ مثلاً: نارتھ اور ساؤتھ پول میں کوئی پیداوار نہیں ہوتی۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !اب انسان اندازہ لگا سکتا ہے کہ میز پر جو مختلف قسم کے پکے پکائے کھانے آجاتے ہیں ان میں کتنی اللہ تعالٰی کی نعمتوں کے اثرات شامل ہوتے ہیں۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ آج کے دور میں بنی نوع انسان کی اکثریت کھاتی اور پیتی ہے وہ من و سلوٰی ہے جیسے حضرت موسٰی علیہ السّلام کی قوم کے لئے آسمان سے، اللہ کے فضل و کرم سے، پکے پکائے کھانے نازل ہوتے تھے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !کیا انسان اللہ کی ان نعمتوں کی قدر کرتا ہے؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ !گھر کی عورت جب اہل و عیال کے لئے گھر گرہستی کے کام کرتا ہے، کھانا پکاتی ہے، روٹیاں پکاتی ہے تو کیا اہل و عیال اس کی قدر کرتے ہیں؟ بلکہ اگر کسی کے مزاج کے مطابق نہیں تو تنقید کرتے ہیں۔

 

پانی

 

محترمہ بھابی صاحبہ! پانی اللہ تعالٰی کی خاص الخاص نعمت ہے جس کی ہر مخلوق کو ضرورت ہوتی ہے۔ حتٰی کہ پتھروں کو بھی صحت مند رہنے کے لئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بارش نہ ہو تو سورج کی گرمی سے پتھر خشک ہو نا شروع ہو جائیں گے اور ان میں توڑ پھوڑ شروع ہو جائے گی۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! چند مثالیں پیش خدمت ہیں کہ جب انسان پانی کو استعمال کرتا ہے تو کیا وہ اللہ تعالٰی کا شکر گزار ہوتا ہے؟

 

        جیسے ہی اس نے وضو کرنے کے لئے، غسل کرنے کے لئے وغیرہ پانی کے نل کو کھولا اور پانی آنا شروع ہو گیا تو کیا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا؟

 

        انسان نے وضو کیا، غسل کیا اور تروتازہ ہو گیا تو کیا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا؟

 

        انسان کو پیاس لگی، فرج میں ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالی، پانی پیا اور پیاس بجھ گئی تو کیا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا؟

 

        گھر کی عورت نے کھانا پکانے، آٹا گوندھنے، برتن دھونے، سبزی دھونے وغیرہ کے لئے پانی کا نل کھولا اور پانی نکل آیا تو کیا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا؟

 

        مختصر یہ کہ انسان ہر روز دن و رات میں کئی مرتبہ پانی کا استعمال کرتا ہے تو کیا وہ ہر مرتبہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے؟

 

        وغیرہ۔

 

چلنا، پھرنا، بھاگنا، سیڑھیاں چڑھنا اور اترنا

 

محترمہ بھابی صاحبہ! گو کہ جب انسان سوتا ہے تو نیند میں بھی کروٹیں بدلتا ہے۔ لیکن جب وہ جاگتا رہتا ہے تو اس کا جسم حرکت میں رہتا ہے۔ مثلاً:

 

        ایک منزل سے دوسری منزل تلک پیدل چل کر جاتا ہے تو کیا وہ سوچ سمجھ کر ہر قدم اٹھاتا ہے؟

        جب وہ کھیلتا ہے اور بھا گتا ہے تو کیا وہ سوچ سمجھ کر ہر قدم اٹھتا ہے؟

        جب وہ سیڑھیاں چڑھتا اور اترتا ہے تو کیا وہ سوچ سمجھ کرہر سیڑھی پر قدم رکھتا ہے اور اٹھاتا ہے؟

        جب وہ کرسی پر بیٹھتا ہے یا بستر پر لیٹتا ہے تو کیا وہ بیٹھنے یا لیٹنے سے پیشتر ہر زوائیے سے جائزہ لیتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ توازن برقرار نہ رہ سکے اور وہ گر جائے؟

        وغیرہ۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !اگر انسان ایمانداری اور دیانتداری سے جائزہ لے تو اس کو نظر آئے گا کہ ایسا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے؟

 

احساس کی نعمت

 

محترمہ بھابی صاحبہ !یہ قدرتی امر ہے کہ انسان کے جسم کے اندرونی اور بیرونی اعضأ ہر لحظہ نقل و حرکت کرتے رہتے ہیں جس کا انسان کو شعوری او ر لا شعوری طور پر احساس ہوتا رہتا ہے یا وہ محسوس کرتا ہے کہ جسم کے اعضأکا کیا مطالبہ ہے۔ مثلاً

 

        جسم میں پانی کی کمی سے پیاس کا احساس ہوتا ہے،

        پیٹ خالی ہو تو بھوک کا احساس ہوتا ہے،

        بلیڈر بھر گیا ہو تو پیشاب کرنے کا احساس ہوتا ہے،

        بڑی آنت بھر جائے تو رفع حاجت کرنے کا احساس ہوتا ہے،

        چوٹ لگ جائے تو درد کا احساس ہوتا ہے،

        خون میں کمی ہو جائے تو کمزروی کا احساس ہوتا ہے،

        وغیرہ۔

محترمہ بھابی صاحبہ !احساس کی یہ چند مثالیں ہیں۔ انسان اگر احساس کی نعمت پر غور کرتا رہے تو اس کو بے انتہا مثالیں مل جائیں گی۔ احساس ہونے کے بعد انسان اس کا علاج کرتا ہے۔ مثلاً:

 

        پیاس لگی ہے تو پانی پی لے گا۔ انشأاللہ !پیاس بجھ جائے گی۔ اگر پانی نہیں پیئے گا تو جسم پانی کی کمی کی وجہ سے ڈی ہائڈریشن کا شکار ہو جائے گا۔

 

        بھوک کا احساس ہو گا تو کھانا کھا لے گا اور بھوک مٹ جائے گی۔

 

        جب پیشاب کرنے کا احساس ہو گا تو اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے کچھ دیر کے لئے روکنے کی قدرت بھی دی ہے جو ایک نعمت ہونے کے مترادف ہے۔ لیکن اگر وہ جلد ہی بلیڈر کو خالی نہیں کرتا تو پھر بلیڈر میں پانی ابل پڑے گا اور خارج ہونا شروع ہو جائے گا جس سے کپڑے گیلے اور ناپاک ہو جائیں گے اور بھری محفل میں رسوا ہو جائے گا۔

 

        جب رفع حاجت کا احساس ہو تو اللہ تعالٰی نے انسان کو کچھ دیر کے لئے روکنے کی قدرت دی ہے۔ لیکن اگر وہ جلد ہی رفع حاجت نہیں کرتا تو مقعد کا دہانہ کھل جائے گا۔

 

        چوٹ لگنے کا احساس ہے تو فوری طور پر طبیب کی طرف رجوع کرے وگرنہ انفیکشن پیدا ہو سکتا ہے۔

 

        خون میں کمی ہو تو فوراً طبیب کی طرف رجوع کرے وگرنہ روحانی اور جسمانی کمزروی بڑھتی جائے گی۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !مختصر یہ کہ انسان کو جب بھی اللہ تعالٰی کی مندرجہ بالا احساس کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں تو کیا وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے؟

اقتباس تمام ہوا۔

 

بھائیو اور بہنو! جن نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا اللہ تعالٰی کی توفیق سے ذکر کیا گیا ہے، آپ ایمانداری اور دیانتدار ی سے اپنا محاسبہ کریں کہ ان میں سے کتنی نعمتوں کا آپ نے احساس کیا ہوگا؟

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ جب تلک بندوں کے دل و دماغ میں اللہ تعالٰی کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا احساس نہیں ہوگا اس وقت تلک اللہ تعالٰی کی عظمت و بڑائی دل و دماغ میں سما نہ سکے گی اور اللہ تعالٰی کی عبادت اور بندگی کرنے کا شوق نہیں جنم لے گا۔

 

بھائیو اور بہنو! اللہ تعالٰی رحمان اور رحیم ہیں۔ مندرجہ ذیل حقائق کا جائزہ لیں:

 

    بھائیو اور بہنو! اللہ تعالٰی علیم ہونے کے ناطے سے جانتے تھے کہ بنی نوع انسان کے دل و دماغ میں یہ سوال جنم لے گاکہ اللہ تعالٰی کون ہیں؟

 

    بھا ئیو اور بہنو !اللہ تعالٰی نے حدیث قدسی میں جواب دیا:

 

میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔

میں نے چاہا کے پہچانا جاؤں۔

پس میں نے جن و انس کی تخلیق کیے

 

    بھائیو اور بہنو! اللہ تعالٰی علیم ہونے کے ناطے سے جانتے تھے کہ بنی نوع انسان کے دل و دماغ میں یہ سوال جنم لے گاکہ اللہ تعالٰی کا حسب و نسب کیا ہے؟

 

اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں جواب دیا

 

سورۃ الاخلاص

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

قل ھواللہ احد۔ج اللہ الصمد۔ ج

لم یلد لا و لم یو لد لا ولم یکن لہ کفواً احد۔

 

تو کہہ! وہ اللہ ایک ہے۔ ج اللہ بے نیاز ہے۔

ج نہ کسی کو جنا لا نہ کسی سے جنا۔ لا اور نہیں اس کے جوڑ کا کوئی۔

 

    بھائیو اور بہنو! اللہ تعالٰی علیم ہونے کے ناطے سے جانتے تھے کہ بنی نوع انسان کے دل و دماغ میں یہ سوال جنم لے گا کہ اللہ تعالٰی کی ذات یکتا کو کس طرح پہچانا جائے؟

 

    اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں جواب دیا

 

ترجمہ سورۃ الاعراف آیت نمبر54

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے پیدا کئے آسمان اور زمین چھ دن میں پھر قرار پکڑا عرش پر قف اڑھاتا ہے رات پر دن کہ وہ اسے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا ط اور پیدا کئے سورج اور چاند اور ستارے تابعدار اپنے حکم کے ط سن لو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا ط بڑی برکت والا ہے اللہ جو رب ہے سارے جہان کا۔

 

ترجمہ سورۃ الحدید آیت نمبر6 – 4

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

جس نے بنائے آسمان اور زمین چھ دن میں پھر قائم ہوا تخت پر ط جانتا ہے جو اندر جاتا ہے زمین کے اور جو اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ اترتا ہے آسمان سے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے ط اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو ط اور اللہ جو تم کرتے ہو اس کو دیکھتا ہے۔

 

اسی کے لئے راج ہے آسمانوں کا اور زمین کا ط اور اللہ ہی تک پہنچتے ہیں سب کام۔

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی کی ذات یکتا غیب میں ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں اللہ تعالٰی نورہیں

 

سورۃ النور آیت 35

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اللہ نور السمٰوٰت والاض ط

اللہ روشنی ہے آسمانوں کی اور زمین کی ط

 

بھائیو اور بہنو! اللہ تعالٰی کی ذات یکتا کو نہیں دیکھا جا سکتا

 

ترجمہ سورۃالانعام آیت نمبر 103

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

نہیں پا سکتی اس کو آنکھیں اور وہ پا سکتا ہے آنکھوں کو

اور وہ نہیات لطیف اور خبردار ہے۔

 

بھائیو اور بہنو!روایت ہے کہ ایک یہودی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا جس کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالٰی کی ذات کو کیوں نہیں دیکھا جا سکتا؟ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جواب ددیا جس کامفہوم ہے: کیا تم روشن سورج کو لگاتار دیکھ سکتے ہو؟ وہ یہودی شرمندہ ہوا۔

 

بھائیواور بہنو!روشن سورج کی روشنی تے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں تو کیا نظر آئے گا۔ حالات حاضر میں اگر سامنے سے آنے والی کار کی فوگ لائٹس آن ہوں تو فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے اور ڈرائیور کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ اللہ تعالٰی کی ذات یکتا نور ہے تو انسانی آنکھ اللہ تعالٰی کو کیسے دیکھ سکتی؟

 

بھائیو اور بہنو! اللہ کی ذات کو غیب میں ہونے کو ایک دنیاوی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! ٹیلیفون، ریل گاڑی کا انجن، آئی ٹی وغیرہ کا موجد صرف اللہ کی ذات ہے۔ جن بندوں کو موجد کہا جاتا ہے وہ صحیح نہیں۔ انہوں نے زمین و آسمان کے درمیان جو مرعی اور غیر مرعی مخلوقات ہیں ان میں سے دریافتیں کی ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو!جن بندوں نے دریافتیں کی ہیں ان کو فوت ہوئے ایک زمانہ ہو گیا۔ لیکن لوگوں نے انہیں نہیں دیکھا۔ تاہم! لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کو دریافت کرنے والی کوئی شخصیتیں ہیں جن کو پہچاناجاتا ہے۔ بھائیوں اور بہنو! اسی طرح اللہ تعالٰی کی ذات یکتا غیب میں ہے۔ اس کائنات کو تخلیق کرنے والی کوئی ذات ہی ہو سکتی ہے اور وہ ذات ہے

 

اللہ

لب لباب

 

بھائیوں اور بہنو!مختصر یہ کہ بنی نوع انسان کی اکثریت کیوں اللہ کی عبادت اور بندگی سے دور ہو چکی ہے، وہ اس لئے کہ اللہ تعالٰی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کو جانتی نہیں اور اللہ تعالٰی کی ذات یکتا کو پہچانتی نہیں ہے کہ اللہ کی عظمت و بڑائی اس کے دل و دماغ میں سما جائے اور اللہ کی عبادت اور بندگی ادا کرنے کا شوق دل و دماغ میں جنم لیتا رہے اور اللہ کا قرب نصیب ہوتا رہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی کی رضا کا حصول ہو اور آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لئے جنت میں گزرے اور اللہ کی نعمتوں سے مستفید ہوتا رہے جو کسی آنکھ نے نہ دیکھی نہ کسی کان نے سنی نہ کسی کے وہم و گمان میں آ سکتی ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ دنیا آخرت کے لئے کھیتی ہے۔ اگر بندہ اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارے گا تو دنیا بھی جنت بن سکتی ہے یعنی دل میں سکینت اور دماغ میں سکون۔ تاہم! اللہ تعالٰی کی ہدایت کے مطابق زندگی کو استوار کرنا آسان بھی نہیں کیونکہ بندے کو نفس اور شیطان کا ہر لمحہ مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے ذریعے پیغام دیا ہے

 

یہ شہادت گۂ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

 

والسّلام

 

نصیر عزیز

 

پرنسپل امن کی پکار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll Up