مسلمان بننے کی دعوت

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

امن کی پکار

 

مسلمان بننے اور مسلمان بنانے کی دعوت

 

برادرم

 

السّلام علیکم

 

برادرم!مختصر یہ کہ بنی نوع انسان حضرت آدم علیہ السّلام کی ذریت ہیں اور ہر انسان اللہ کا بندہ ہے۔ اللہ تعالٰی کے ارشاد حدیث قدسی کا مفہوم ہے:-

 

میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔

میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں۔

پس میں نے جن و انس کی تخلیق کی۔

 

برادرم!اللہ تعالٰی علیم ہونے کے ناطے سے جانتے تھے کہ انسان کی تخلیق کی جائے گی جس کا ذکر اللہ کے کلام قرآن پاک میں ہے:-

 

ترجمہ سورۃالدھر آیت نمبر3 – 1

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

کبھی گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں کہ نہ تھا وہ کوئی چیز جو زبان پر آتی۔

 

ہم نے بنایا آدمی کو ایک دو رنگی بوند سے ق ہم پلٹتے رہے اس کو پھر کر دیا اس کو ہم نے سننے والا دیکھنے والا۔

 

ہم نے اس کوسجھائی راہ یا حق مانتا ہے اور یا ناشکری کرتا ہے۔

 

برادرم!علمائے کرام سورۃ کے جز:-

 

ہم نے اس کوسجھائی راہ یا حق مانتا ہے اور یا ناشکری کرتا ہے۔

 

برادرم!کی تفسیر فرماتے ہیں کہ اگر انسان اللہ کا شکرگزار بنے گا تو اللہ تعالٰی کی ذات یکتا کو پہچان لے گا اور اگر انسان اللہ کا شکر گزار نہیں ہوگا تو وہ اللہ تعالٰی کی ذات یکتا کو پہچان نہیں سکے گا۔ جو بندہ اللہ لعالٰی کی ذات پہچان لے گا اس کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لئے جنت ہو گا اور وہ اللہ تعالٰی کی نعمتوں سے مستفید ہوتا رہے گا جو کسی آنکھ نے نہ دیکھی نہ کسی کان نے سنی اور نہ کسی کے وہم و گمان میں آ سکتی ہیں۔ لیکن جو بندہ اللہ تعالٰی کی ذات یکتا کو نہیں پہچان سکے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگی جس میں آگ ہی آگ ہے۔

 

برادرم!مختصر یہ کہ اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ اللہ کی ہدایت کے مطابق اس دنیا میں زندگی گزارنا ہے یعنی دین اسلام ہی جنت میں آباد ہونے کا ذریعہ ہے جس کا ذکر اللہ کے کلام قرآن پاک میں ہے:-

 

سورۃآل عمران آیت نمبر85

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

و من یتبع غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ ج و ھو فی الاٰخرۃ من الخٰسرین۔

 

اور جو کوئی چاہے سوا دین اسلام کے اور کوئی دین سو اس سے ہر گز قبول نہیں ہو گا

ج اور وہ آخرت میں خراب ہے۔

 

برادرم!سوال جنم لیتا ہے کہ بلاشبہ، اللہ کے فضل وکرم سے، ہرانسان مسلمان پیدا ہوتا ہے تو مسلمان بننے کے لئے کیا کرنا ہوتا ہے؟

 

برادرم!حدیث پاک کا مفہوم ہے:-

 

و قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کل مولود بولد علی الفطرۃ

فا بواہ یھود نہ او ینصرانہ او یمجسانہ۔

 

نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-

 

ہر بچہ فطرت اسلام ہی پر پیدا ہوتا ہے۔

بعد میں ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔

 

برادرم!علمائے کرام اس حدیث پاک کی شرح فرماتے ہیں کہ انسان کی مختلف ذہنیتیں ہیں:-

 

٭ اسلامی ذہنیت

 

٭یہودی ذہنیت

 

٭نصرانی ذہنیت

 

٭سرمایہ دارانہ ذہنیت

 

اسلامی ذہنیت

 

برادرم! اسلامی ذہنیت کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ خلوص دل سے اچھے کام کرنا اور اچھے کام کرتے رہنے کی ترغیب دینا اور برے کاموں سے بچنا اور برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتے رہنا۔ دوسرے الفاظ میں اللہ کے کلام میں جو ہدایات ہیں ان کے مطابق زندگی گزارنا۔

 

یہودی ذہنیت

 

برادرم!یہودی ذہنیت کا خلاصہ یہ ہے کہ نفس اور شیطان کے زیر اثر اللہ کے کلام میں جو ہدایات ہیں ان میں عبارتی اور معنوی تحریف کر دینا اور اس بات کی اشاعت کرنا کہ یہ اللہ کی ہدایت کے مطابق ہے۔

 

نصرانی ذہنیت

 

برادرم!نصرانی ذہنیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے عریانی اور بے حیائی کی جائے اور عریانی اور بے حیائی کی ترغیب دی جائے۔

 

 

سرمایہ دارانہ ذہنیت

 

برادرم!سرمایہ دارانہ ذہنیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مال و دولت جمع کرنے جائز و ناجائز ذریعے میں تمیز نہ کی جائے، ملازمین اور پروفیشنلزکو کم سے کم تنخواہیں یا اجرت دی جائے، چوری کا مال خرید کر اچھے داموں فرخت کیا جائے وغیرہ، وغیرہ۔

 

برادرم!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایک مسلم اور غیر مسلم اپنی زندگی میں ان چاروں ذہنیتوں کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ مثلاً:-

 

٭اچھے کام کرے گا اور اچھے کام کرنے کی ترغیب دے گا اور برے کام سے بچے گا اور برے کاموں سے بچنے کی ترغیب دے گا تو اسلامی ذہنیت کار فرما ہوگی۔

 

٭نفس اور شیطان کے زیر اثر اللہ کی ہدایت میں تبدیلی یا تحریف کرے گا اور اس پر عمل کرے گا تو یہودی ذہنیت کار فرما ہوگی۔

 

٭نفس اور شیطان کے زیر اثر عریانی اور بے حیائی اختیار کرے گا اور عریانی اور بے حیائی اختیار کرنے کی ترغیب دے گا تو نصرانی ذہنیت کار فرما ہوگی۔

 

٭اگر لوگوں کے مالی حقوق غصب کرے گا تو سرمایہ دارانہ ذہنیت کارفرما ہوگی۔

 

ماں باپ کا اولاد کی تعلیم و تربیت میں کردار

 

برادرم!بلا شبہ مرد اور عورت کے آپس میں ملنے سے خواہ ایک دوسرے کے نکاح میں ہوں یہ بغیر نکاح کے تو عورت کے رحم میں حمل ٹہر جائے گا اور، کم و بیش، 9 ماہ بعد اگلی نسل کی پیدائش ہو گی۔ حقیقت میں اگلی نسل کی پرورش اور تعلیم و تربیت مال کے رحم میں ہی شروع ہو جاتی ہے جب بچے کا ڈھانچہ مکمل ہو جاتا ہے اور فرشتہ اللہ کے حکم سے اس کے دل میں روح پھونک دیتا ہے اور بچے کا دل اور جسم زندہ ہو جاتا ہے۔ کس طرح سے بچے کی تعلیم و تربیت کا آغاز ماں کے رحم میں شروع ہوجاتا ہے یہ ایک علحیدہ موضوع ہے۔

 

برادرم!اگلی نسل کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا انحصار، ماں باپ کی ذہنیت پر اور ماحول اورفضا میں جو ذہنیتں اور دنیاوی سیاست میں جو ذہنیتیں کار فرما ہوتی ہیں، پر ہوتا ہے۔

 

برادرم!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ماں باپ اللہ تعالٰی کے قائم مقام ہوتے ہیں۔اگر ماں باپ مسلمان ہیں اور خلوص دل سے اسلامی ذہنیت رکھتے ہیں اور ان کی زندگی اسلامی ادوار کے مطابق گزرتی ہے تو اگلی نسل کی پرورش اور تعلیم و تربیت بھی اسلامی ذہنیت کے مطابق ہوتی رہے گی۔ تاہم! اگلی نسل نے مدارس، دارلعلوم، سکول، کالج اور یونیور سٹی میں تعلیم حاصل کرنی ہوتی ہے اور کسی حد تک ملکی سیاست میں بھی حصہ لیناہوتا ہے، اس لئے ان کے دل و دماغ پو یہودی، نصرانی اور سرمایہ دارانی ذہنیتوں کا بھی عکس پڑتا رہے گا، اس لئے مسلمان ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد سے تبادلہئ خیالات کرتے رہیں اور ان کے دل و دماغ پر غیر اسلامی ذہنیتوں کاجو عکس پڑ گیا ہے، اس عکس کو مٹاتے رہیں۔

 

مسلمان بننے اور مسلمان بنانے کا پس منظر

 

برادرم! مسلمان بننے اور مسلمان بنانے کا پس منظر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعا ہے جو انہوں نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں بیت اللہ کی تعمیر کی اجرت کے ضمن میں کی تھی:-

 

جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام جو انبیائے کرام کے جد امجد ہیں، اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے بیت اللہ کی تعمیر، اللہ تعالٰی کی توفیق سے، مکمل کی تو اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے دریافت فرمایا جس کا مفہوم ہے:-

 

بیت اللہ کی تعمیر کی اجرت میں کیا چاہتے ہو؟

 

حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے عرض کی جس کا مفہوم ہے:-

 

یا اللہ

اپنے فضل و کرم سے مسلمان بننے کی توفیق عطا فرما۔

 

برادرم! الحمد للہ! منصوبہ امن کی پکار نے تقاضا کیا کہ ماں باپ، سربراہ مملکت، اساتذہ، علمائے دین کا اخلاقی فرض ہے کہ خود بھی مسلمان بنیں اور دوسرے مسلم اور غیر مسلم کو مسلمان بنائیں۔

 

برادرم!مختصر یہ کہ 1400 سو سال پیشتر بنی نوع انسان کی اکثریت گمراہی میں ڈوبی ہوئی تھی اور اللہ کی کتابوں: تورات، انجیل میں تبدیلی اورتحریف کر دی گئی تھی اور بنینوع انسان جہنم کی طرف رواں دواں تھا۔ اللہ تعالٰی رحمان اور رحیم ہیں۔اللہ تعالٰی نے خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا جن کی نبوت کا مقصد تھا اور ہے کہ مسلمان مسلمان بنیں اور مسلمان بنائیں۔

 

برادرم!23 سال کے عرصہ میں آپ صل اللہ علیہ وسلم نے جزیرۃ العرب کے باشندوں کو، اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے، اللہ کا پیغام پہنچایا اور اللہ کے بندوں نے اللہ تعالٰی کی توفیق سے اللہ کے پیغام کو سمجھا اور ان کی زندگی کا مقصد پوری دنیا کے باشندوں کو مسلمان بنانے کا عزم ٹہرا جس کی وجہ سے جنگیں بھی ہوئیں، غیر مسلم ممالک میں ہجرتیں بھی کی گئیں۔ مختصر یہ کہ خلافت راشدہ کے ساڑھے بارہ سال کے مختصر عرصہ میں 25 لاکھ مربع میل کے باشندے مسلمان بن گئے۔

 

مسلمان بننے اور بنانے کا طریقہء کار

 

برادرم!قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ جن و انس اور اللہ تعالٰی کی ہر مخلوق مسلمان ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور باقی تمام مخلوق انسان کی خدمتگار ہے۔ نفس انسان پر ظلم کرتا ہے اور شیطان انسان کا دشمن ہے۔ نفس اور شیطان کے زیر اثر انسان اللہ کے سیدھے راستے گمراہ ہو جاتا ہے۔ گو دل کے گوشے میں اللہ تعالٰی کی ذات یکتا کا یقین پنہاں ہوتا ہے لیکن اللہ کی ذات یکتا کے یقین پر گمراہ کن عقائد کی وجہ سے پردہ پڑ جاتا ہے۔

 

برادرم!1400 سال پیشتر جزیرۃالعرب میں اسلامی اقدار کو پہچانا جاتا تھا۔ مثلاً:-

 

٭محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا رتبہ ملنے سے پیشتر صادق اور امین کا خطاب دیا گیا تھا،

 

٭خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو مسلمان ہونے سے پیشتر طاہرہ کا لقب سے نوازا گیا تھا،

 

٭انصاف کرنے کے لئے ایماندار اور دیانتدار اور غیر جانبدار کو منتخب کیا جاتا تھا۔ مثلاً: مسلمان ہونے سے پیشتر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،

 

٭غربأ کی سرپرستی کی جاتی تھی۔ مثلاً: اونٹ کو ذبح کر کے اس کو گوشت تقسیم کیا جاتا تھا،

 

٭وغیرہ۔

 

برادرم!الحمد للہ! اللہ کے کلام کا ترجمہ کا مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے نظر سے پوشدہ ہو گیا ہو، لیکن اللہ کے کلام میں کسی بھی بندے کی شناخت نہیں کی گئی کہ وہ دوزخی ہے۔ تاہم! اس حقیقت کا بارہا ذکر ہے کہ کفار اور مشرک اگر توبہ کئے بغبر دنیا سے رخصت ہو گئے تو ان کو ٹھکانہ دوزخ ہو گا۔

 

برادرم!تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علبہ وسلم کو اللہ کا پفغام سننے کی دعوت فرماتے تھے تو ان کو:-

 


٭اے بھائیو،

 

٭اے لوگو

 


کہہ کر خطاب فرماتے تھے۔

 

برادرم!آپ صل اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا جملہ ارشاد نہیں فرمایا:-

 

٭اے کافرو

 

٭ اے مشرکو

 

٭اے گنہگارو

 

کیوں؟

 

برادرم!کیونکہ آپ صل اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ بنیادی طور پر وہ مسلمان ہیں لیکن نفس اور شیطان کے پنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

 

برادرم!جو اللہ کے بندے دائرہ اسلام میں واپس آجاتے تھے تو آپ صل اللہ علیہ وسلم ان کو مسلمان بنانے کے لئے ان کی گناہوں کی شناخت نہیں فرماتے تھے۔ رثلاً: تم شرابی ہو، تم زانی ہو، تم ایماندار اور دیانتدار نہیں ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم برائی کے محوروں کو نشاندہی اللہ کی توفیق سے فرماتے رہتے تھے اور عربی چونکہ عربوں کی مادری زبان عربی تھی اور ہے، اس لئے جب وہ اللہ کی توفیق سے اللہ کے کلام کی تلاوت فرماتے تھے تو وہ خود ہی سمجھ جاتے تھے کہ وہ کن گناہوں میں مبتلا ہیں۔ تو نو مسلموں کو جب اپنے گناہوں کا احساس ہوتا تھا تو وہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتے رہتے تھے اور ان گناہوں کو اللہ تعالٰی کی توفیق سے طلاق دے دیتے تھے۔

 

برادرم!الحمد للہ! منصوبہ امن کی پکار نے مندرجہ بالا حقیقت سے یہ اخذ کیا:-

 

کسی اللہ کے بندے کو گنہگار نہ سمجھو۔ اگر کسی کو گناہ کرتے ہوئے دیکھا ہو تو اس کی تشہیر نہ کی جائے۔ اس کے لئے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے کہ اس کا نفس لوامہ اسے گناہ کرنے پر شرمندہ اور پشیمان ہو نے کی ترغیب دے اور اللہ کی بارگاہ میں خلوص دل سے توبہ و استغفار کرے۔ اللہ تعالٰی رحمان اور رحیم ہیں، گناہوں کو معاف کرنے والے ہیں۔ اس کے بعد اس کے متعلق حسن زن رکھا جائے کہ اللہ تعالٰی کی توفیق سے اس نے اللہ کا بارگاہ توبہ و استغفار کر لیا ہوگی اور اللہ تعالٰی نے اسے کے گناہ کو اپنے فضل و کرم سے معاف بھی فرما دیا ہوگا۔ برادرم! اب جبکہ حسن ظن کی بنأ پر اسکا گناہ معاف ہو چکا ہے تو اب وہ گنہگار ہی نہیں رہا تو اسے کیسے گنہگار سمجھا جا سکتا ہے؟

 

برادرم!تاہم! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر کسی کی اصلاح مقصود ہو تو ایسی صورت میں اس کے شرعیت سے منافی اعمال کی نشاندہی کی جا سکتی ہے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر سکے۔

 

بھائیو اور بہنو! آپ کے ذہن میں سوال جنم لے گا کہ کسی بندے کے شرعیت سے منافی اعمال کی شناخت کیوں شائع کی گئی؟

 

بھائیو اور بہنو! للہ تعالٰی کی توفیق سے اللہ کے بندے کی شناخت نہیں کی گئی۔ اسی لئے موصوف کو برادرم سے خطاب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ منصوبہ امن کی پکار کی تمام بنی نوع انسان کی اصلاح مقصود ہے۔ یہ کہنا بجا معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان بجز انبیائے کرام کے، کسی نہ کسی غیر شرعی اعمال کا مرتکب ہوتا ہے۔ ذیل میں جو حقائق، اللہ کی توفیق سے، پیش کئے گئے ہیں تو ہر بندہ اپنے شخصیت و کردار کا جائزہ لے سکتا ہے اور اپنی اصلاح کر سکتا ہے۔ِ تاہم! بنی نوع انسان کا یقین ہے کہ انبیائے کرام معصوم ہوتے ہیں۔ لیکن کیا وہ اپنے آپ کو معصوم اور دوسرے انسانوں سے برتر سمجھتے ہیں؟

 

بھائیو اور بہنو! مندرجہ ذیل حکایت سے روز روشن کی طرح ظاہر ہوتا ہے کہ انبیائے کرام خود کو کسی مخلوق سے بھی برتر نہیں سمجھتے تھے:-

 

ایک مرتبہ حضرت موسٰی علیہ السّلام اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہوئے۔ اللہ تعالٰی نے ان سے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے: اے موسٰی! کوئی ایسی مخلوق کو ڈھونڈ کر لاؤ جو تم سے کمتر ہو۔

 

حضرت موسٰی علیہ السّلام اپنے سے کمتر مخلوق کی تلاش میں چلے گئے۔ حضرت موسٰی علیہ السّلام کو ایسے لوگ بھی ملے ہوں گے جو کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہو رہے ہوں گے، لوگوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوں گے، وغیرہ وغیرہ۔

 

ایک عرصہ کے بعد حضرت موسٰی علیہ السّلام اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہوئے۔ اللہ تعالٰی نے ان سے دریافت فرمایا جس کا مفہوم ہے:-

 

اے موسٰی!اپنے سے کمتر کونسی

مخلوق ڈھونڈ کر لائے ہو؟

 

حضرت موسٰی علیہ نے عرض کی جس کا مفہوم ہے:-

 

یا اللہ

آپ کی توفیق سے میں نے آپ کی ہر مخلوق سے اپنا موازنہ کیا لیکن مجھے اپنے سے کمتر کوئی مخلوق نظر نہیں آئی۔

 

اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السّلام سے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے:-

 

اے موسٰی

اگر تم ایک تنکہ بھی لے کر آتے تو تم نبوت

کا حق ادا نہ کر پاتے۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! اس حکایت ے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے، کم و بیش، ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام میں سے کوئی بھی خود کو کسی مخلوق سے برتر نہیں سمجھتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! انبیائے کرام کی عاجزی اورانکساری کا حال کتاب:حصن اور حصین کے مطالعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب خاتم الانبیأ محمد ابن عبد اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی قدم بہ قدم دعاؤں سے تالیف کی گئی ہے۔ ہر دعا میں عاجزی اور انکساری کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! جب انبیائے کرام کی شخصیت و کردار میں عاجزی اور انکساری کے عنصر بدرجہ اتم موجود ہے تو ایک عام بندے کی کیا اوقات ہونی چاہیے۔

 

بھائیو اور بہنو! آئیے، اللہ کی توفیق سے، ایک مسلمان بھائی سے نفس اور شیطان کے زیر اثرشرعیت کے احکام کی قدر نہیں جاتی، اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

مسلمان بھائی کا شرعی احکام او ر اسلامی اقدار کی قدر نہ کرنا

 

برادرم! الحمد للہ! اللہ تعالٰی کو اپنے بندوں سے محبت ہے۔ جو بندے دائرہ اسلام میں موجود ہیں لیکن اللہ کے سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں تو اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے ان کی اصلاح کے لئے اسباب پیدا فرماتے رہتے ہیں۔

 

برادرم! الحمد للہ! آپ سے کئیر ہوم میں تعارف ہوا تھا اور اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے ابھی تلک قائم ہے اور انشأ اللہ! رہے گا۔

 

برادرم! منصوبہ امن کی پکار نے تقاضا کیا ہے کہ اگر آپ کو براہ راست یعنی بطور سیکنڈ پرسن خطاب کیا جائے گا تو ہو سکتا ہے کہ آپ اوفینڈ ہوں۔ اس لئے آپ سے جو شرعی احکام اور اقدار کی قدر نہیں ہوتی، انہیں بطور تھرڈ پرسن بتلایا جائے تاکہ آپ اوفینڈ نہ ہوں۔ اس لئے مضمون میں بھائیو اور بہنو! سے خطاب کیا جائے گا۔ الحمد للہ! ان مضامین کو ویب سائٹ:-

 

www.cfpibadaahs.co.uk

پر شائع کر دیا جائے گا۔

 

برادرم! مضامین کو ویب سائٹ پر شائع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کا جو بندہ بھی ان مضامین کا مطالعہ کرے گا تو وہ خود بھی اپنا موازنہ کر سکتا ہے کہ اس سے کن شرعی احکام اور اسلامی اقدار کی قدر نہیں ہو سکی اور وہ خود ہی اپنی اصلاح کر سکتا ہے۔

 

برادرم! آئیے اب حقائق کو ایک تھرڈ پرسن کے ضمن میں پیش کیا جاتا ہے۔

 

موصوف سے تعارف کا پس منظر

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ سال نومبر 2021 میں اوپن ہارٹ سرجری سے دل میں سے ٹیومر کو کاٹا گیا۔گھر کی خستہ حالت کی بنأ پر سوشل سروسز نے تقاضا کیا کہ میرے لئے اس گھر میں اکیلے رہنا مناسب نہیں ہے۔ کچھ عرصہ عارضی رہائش گاہ میں قیام کیا اور پھر کئیر ہوم میں عارضی طور پر قیام کیا۔ سال دسمبر 2022 اپنے خستہ گھر میں منتقل ہو گیا تھا۔ موصوف سے کئیر ہوم میں تعارف ہوا تھا۔

 

منصوبہ امن کی پکار کا مقصد

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! منصوبہ: امن کی پکار کا مقصد بین الاقوامی سطح پر انفرادی اور اجتماعی طور پر اللہ کا پیغام پہنچانا ہے۔ موصوف کی کئیر ہوم میں کئیر ورکر کی حیثیت تھی اور دن میں گاہے بہ گاہے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ الحمد للہ! منصوبہ امن کی پکار نے موصوف کا مذہبی لحاظ سے جائزہ لینا شروع کیا۔

 

نماز کی ادائیگی

بھائیو اور بہنو! موسم سرما میں انگلینڈ میں تین نمازو ں: ظہر، عصر،اور مغرب کا وقت دوپہر بارہ بجے سے شام چار بجے کے درمیان شروع ہوتا ہے۔ موصوف کی سروس کے اوقات صبح آٹھ بجے س۔ شام آٹھ بجے تلک تھے۔ موصوف کو نماز کی ادائیگی کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! عاجز پانچ وقت کی نماز کا پابند تھا اور ہے۔ موصوف سے اس وجہ سے دریافت نہیں کیا گیا کہ امت مسلمہ کی اکثریت نماز ادا نہیں کرتی اور موصوف بھی انہی میں سے ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو! کچھ عرصہ کے بعد موصوف نے میرے کمرے میں ظہر کی نماز ادا کرنی شروع کر دی۔ موصوف ظہر کی نماز کے صرف فرض ادا کرتے تھے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد ظہر کی نماز ادا کرنا چھوڑ دی۔ ان سے دریافت نہیں کیا گیا کہ انہوں نے ظہر کی نمارادا کرنا کیوں چھوڑ دی۔

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! رمضان المبارک کی آمد تھی۔ امن کی پکار نے موصوف سے عرض کی جس کا مفہوم تھا کہ انشأ اللہ! رمضان المبار ک میں آپ کو جائے نماز بطور تحفہ دیا جائے گا۔ موصوف نے فرمایا جس کا مفہوم تھا کہ اس سے اچھا تحفہ کون سا ہو سکتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ ایک روز ان سے دین اسلام کے ضمن میں تبادلہئ خیالات ہو رہا تھا تو انہوں نے کئیر ہوم میں سروس کے اوقات میں نماز ادا نہ ادا کرنے کی یہ تاویل بتلائی کہ چونکہ انہیں معذور بندوں کی خدمت کرنی ہوتی ہے اس لئے کپڑے ناپاک بھی ہو سکتے ہیں لیکن وہ گھر میں پانچ وقت کی نمازادا کرتے ہیں۔ یہ سن کر دل کو تسلی ہوئی کہ موصوف نماز کے بھی پابند ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! رمضان المبارک میں موصوف نے عصر اور مغرب کی نمازیں بھی ادا کرنا شروع کر دیں۔ موسم گرما میں موصوف ظہر کی نماز تو کئیر ہوم میں ادا کرتے تھے لیکن صرف فرض ادا کرتے تھے۔ان کی سنت مؤکدہ ادا نہ کرنے کی تاویل یہ تھی کہ سروس میں رکاوٹ ہو جانے کی بنأ پر وہ ظہر کی سنن ادا نہیں کرتے۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف جمعہ کی نماز اپنی مقامی مسجد میں ادا کرنے کی غرض سے چھٹی کرتے تھے۔ عاجز کے گھر میں شفٹ ہونے کے بعد عاجز موصوف کو ان کے گھر سے پک کرتا ہے اور اپنی مقامی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے لے جاتا ہے۔

 

موصوف کو کئیر ہوم سے ان کے گھر تلک لفٹ دینے کا سلسلہ

 

بھائیو اور بہنو! عاجز کے گھر میں کچھ کھانے پینے کا سامان رکھا ہوا تھا جو کہ استعمال نہیں ہو رہا تھا۔ موصوف سے ذکر کیا کہ گھر میں کھانے پینے کی اشیأ رکھی ہوئی ہیں۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ انہیں اپنے گھر میں استعمال کر لیں۔ الحمد للہ! موصوف نے حامی بھر لی۔عاجز اپنی کار میں گھر گیا اور تمام اشیأ کو کار میں رکھ کر لے آیا۔ شام کے وقت عاجز نے ان سے ذکر کیا کہ آپ کی کار کونسی ہے؟ آئیے اس میں اشیأ رکھ دی جائیں۔ موصوف نے بتلایا کہ ان کے پاس کار نہیں ہے۔ یہ سن کر حیرانیہوئی کہ انگلینڈ میں ایسے بندے بھی ہیں جن کے پاس کار نہیں ہے۔ موصوف نے یہ نہیں بتلایا کہ ان کی اہلیہ اور بیٹے کا پاس کاریں ہیں۔ عاجز نے ان سے عرض کی کہ چلیں شام کو میں آپ کو اپنی کار میں لفٹ دیتا ہوں تاکہ اشیأ آپ کے گھر پہنچ جائیں۔ اصولی طور پر کئیر ہوم میں رہنے والا کئیر ہوم کے سٹاف کو لفٹ نہیں دے سکتا اور نہ ہی اسے کوئی تحفہ دے سکتا ہے۔مختصر یہ کہ موصوف ٹالتے رہے اور پھر وہ اشیأ ہندو مذہب کے کئیر ورکر کو دے دیں۔

 

موصوف کا اکرام کرنا

 

بھائیو اور بہنو! کئیر ہوم میں جو تین وقت خوراک ملتی تھی وہ مغربی طرز کی ہوتی تھی۔ عاجز کے ایک مرحوم دوست کے فرزند ہفتہ میں ایک بار اپنے گھر سے پکا ہوا سالن دے جایا کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ کا ایک بہت بڑا آپریشن ہوا جس کیوجہ سے ان کی طرف سے سالن آنے کا سلسلے منقطع ہو گیا۔الحمد للہ! موصوف بھی کبھی کبھار سالن لے آیا کرتے تھے۔

 

عاجزکا موصوف کا اکرام کرنا

 

بھائیو اور بہنو! موصوف کو سروس کے دوران ایک گھنٹہ لنچ کرنے کا وقت ملتا تھا۔ کینٹین سے موصوف سینڈوچ، چائے، کافی وغیرہ لے لیا کرتے تھے۔ لیکن کئیر ہوم نے یہ پالیسی طے کی کہ سٹاف کو کینٹین سے خوراک خریدنا ہوگی۔ مختصر یہ کہ حکایت کے مطالعہ کرنے کی توفیق ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے:-

 

ایک مرتبہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السّلام کو اپنے ایک بندے کی طرف بھیجا جو بہت گنہگار تھا اور اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کر رہا تھا۔

 

اس بندے نے حضرت موسٰی علیہ السّلام کو بتلایا کہ وہ اللہ کی توفیق سے سے گزشتہ 35 سال سے اپنے گناہوں کی توبہ استغفار کر رہا ہے۔ ایک پرندہ روزانہ آتا ہے اور کھانے کے لئے اسے پھل دے جاتا ہے۔

 

اس بندے نے حضرت موسٰی علیہ السّلام سے عرض کی جس کا مفہوم ہے۔ آپ اللہ سے کلام فرماتے ہیں۔ کیا آپ اللہ سے پوچھ سکتے ہیں کہ آیا میری توبہ ان کی بارگاہ میں قبول ہو گئی؟

 

حضرت موسٰی علیہ السّلام کو بتلایا گیا کہ اس بندے کی توبہ قبول نہیں ہو سکی کیونکہ اس نے کبھی اس پرندے سے جو اس کے لئے پھل لے کر آتا تھا، یہ نہیں پوچھا کہ:-

 

کیا تو بھوکا تو نہیں ہے؟

 

اس لئے اس کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہوگا۔

 

جب حضرت موسٰی علیہ السّلام نے بندے کو یہ بات بتلائی تو اس بندے نے عرض کی کہ آپ اللہ تعالٰی سے اس دعا کو قبول کرنے کی درخواست فرمائیں کہ جیسا کہ مجھے جہنم میں جلتے رہنا ہے تو اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے تمام مخلوق کی مغفرت فرما دے۔

 

حضرت موسٰی علیہ السّلام کو بتلایا گیا کہ اس کی یہ دعا قبول نہیں ہو سکتی۔ تاہم! اس نے اپنے سوا دوسری مخلوق کا درد اپنے سینے میں رکھا ہے اس لئے اس کی توبہ قبول کیجاتی ہے اور مغفرت کی جاتی ہے۔

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! اس حکایت میں بہت سے سبق پنہاں ہیں۔ اس عاجز کو یہ سبق سمجھ میں آیا کہ موصوف کبھی کبھاز جو سالن وغیرہ لے کر آتے ہیں اور کئیرم نے خوراک کو خرید کر کھانے کی پابندی عائد کر دی ہے اس لئے جب اپنے لئے شاپنگ کرنے جاتا تو موصوف کے لئے بھی بریڈ، چیز، مارجرین خریدنے کی توفیق ملتی جن کو سٹاف روم کے کچن کی فرج میں رکھ دیا جاتا۔ الحمد للہ! یہ سلسلہ ابھی تلک قائم ہے جبکہ عاجز اپنے گھر میں منتقل ہو چکا ہے۔ موصوف نے چیز اور مارجرین لانے سے منع کر دیا ہے۔

 

موصوف کو کئیر ہوم سے ان کے گھر تلک لفٹ دینا

 

بھائیو اور بہنو! عرض کیا گیا ہے کہ موصوف کے پاس کار نہیں تھی اور پبلک ٹرانسپورٹ ان کے لئے مہنگی تھی اور دو بسیں تبدیل کر کے کئیرم ہوم پہنچتے تھے اس لئے وہ پیدل ہی کئیر ہوم آتے جاتے تھے۔ تاہم! شام کے وقت اگر کوئی سٹاف ممبر ان کے گھر کی طرف جاتا تو آدھے راستے تلک ان کو لفٹ مل جاتی تھی اور باقی گھر تلک فاصلہ وہ پیدل طے کرتے تھے۔

 

بھائیو اور بہنو! ان سے عرض کی گئی کہ میں شام کے وقت روزانہ آپ کو لفٹ دے دیا کروں گا۔ انہوں نے ہوم منیجر سے ذکر کیا تو اس نے ان کو بھی منع کر دیا اور مجھے بھی منع کر دیا کہ میں ان کو لفٹ نہیں دے سکتا۔

 

بھائیو اور بہنو! منصوبہ: امن کی پکار کے لئے یہ ہضم کرناآسان نہیں تھا کہ اللہ کا بندہ صبح یھی پیدل چل کر آئے اور شام کو بھی آدھا یا پورا راستہ پیدل چل کر جائے جبکہ روزانہ آدھے راستہ تک بھی لفٹ دینے والا نہ ہو۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! اس کا حل یہ نکالا کہ عاجز شام پونے آٹھ بجے عاجز تازہ آکسیجن حاصل کرنے کے بہانے سے کئیر ہوم سے نکل جاتا اور کچھ دور موصوف کا انتظار کرتا۔ موصوف آ جاتے تو ان کو ان کے گھر تک کار میں لفٹ دینے کی توفیق مل جاتی۔ اللہ تعالٰی سے پرخلوص دعا ہے کہ اس خدمت کو اپنے فضل و کرم سے قبول فرمائے۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! موصوف کو لفٹ دینے کا سلسلہ ابھی تلک، اللہ کے فضل و کرم سے قائم ہے جب ان کو کسی سٹاف ممبر سے لفٹ نہیں مل سکتی۔

 

موصوف کا اپنے احباب سے تعارف کروا دینا

 

بھائیو اور بہنو!عاجز کی اولاد اور رشتہ دار اس بات کا فکر کرتے تھے کہ میرے کھانے وغیرہ کا کیا انتظام ہے۔ ان کو بتلایا گیا کہ میرے مرحوم دوست کے فرزند ہفتہ میں ایک بار کچھ سالن دے جایا کرتے تھے اور اب موصوف کبھی کبھار گھر کا پکا ہوا سالن اور چاول وغیرہ لے آتے ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! پاکستان میں چھوٹے پیمانے پر ایک لوہے کے کھڑکیاں دروازے بنانے کا کاروبار ہے۔ اس کاروبار کے منیجر سے بھی ان کا غائبانہ تعارف کروا دیا تھا۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! موصوف سال میں دو مرتبہ پاکستان جایا کرتے تھے اور ہیں۔ سال 2022 میں وہ پاکستان تشریف لے گئے۔ پاکستان میں وہ اسلام آباد،کوئٹہ، کراچی اور لاہور رشتہ داروں سے ملنے جاتے تھیے منصویہ: امن کی پکار نے تقاضا کیا کہ لاہور میں بزنس منیجر موصوف کا اکرام کرے۔ پہلی مرتبہ جب موصوف لاہور تشریف لے گئے تو الحمد للہ! بزنس منیجر نے، اللہ کی توفیق سے، ان کا خاطر خواہ اکرام کیا۔ مثلاً: بزنس مینجر نے کار مستعار لی اور موصوف کو:-

 

٭ان کے والد کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے لے کر گیا،

 

٭دوپہر اور شام کے درمیان کا وقت تھا تو ان کو ریسٹورنٹ میں پر تکلف کھانا کھلابا،

 

٭کھانا کھلانے کے بعد آئس کریم کھلائی،

 

٭شام کو موصوف کو ان کے میزبان کے گھر چھوڑا،

 

٭دوسرے روز صبح ان کی پرتکلف ناشتہ سے میزبانی کی گئی،

 

٭شام کو موصوف کو اسلام آباد جانا روانہ ہونا تھا۔ لیکن ایک سیاسی جماعت نے ہائی وے پر دھرنا ڈالا ہوا تھا اور راستے بند تھے۔ بزنس منیجز نے اپنے ا یک دوست سے رابطہ قائم کیا کہ وہ موصوف کو کار پر دوسرے راستے سے اسلام آباد لے جائیں۔ موصوف کے لئے اسلام آباد جانا اس لئے لازم تھا کہ ایک روز کے بعد ان کی واپسی کی فلائٹ تھی۔ لیکن کار پربھی موصوف کو اسلام آباد لے کر جانا مشکل نظر آیا۔ الحمد للہ! بزنس منیجر نے ریل گاڑی سے متعلق اطلاع لی اور ان کی سیٹ بک کروا دی۔ شام کو بزنس منیجر موصوف کو ریلوے سٹیشن لے کر گیا اور پلیٹ فارم پر ان کو اسلام آباد کی طرف رخصت کیا۔

 

بھائیو اور بہنو! دوسری مرتبہ جب موصوف پاکستان تشریف لے گئے تو لاہور نہیں جاسکے۔ فون پر بات ہوئی تھی۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف تیسری مرتبہ جب لاہور تشریف لے گئے تو ان کا پہلا سٹاپ لاہور تھا۔ ان کے کزن نے ان کی میزبانی کی تھی۔ بزنس منیجر سے آخری روز ملاقات ہوئی تھی جب موصوف کو اسلام آباد جانا تھا۔ بزنس منیجر ان کو بسوں کے اڈے پر الوادع کر آیا تھا۔

 

بھائیو اور بہنو! عاجز نے اپنی ہمشیرہ سے بھی موصوف کا غائبانہ تعارف کروایا ہوا تھا۔ بزنس منیجر کو عاجز کی ہمشیرہ نے کسی وجہ سے فون کیا اور ان کو یتلایا کہ نوید صاحب کو الوداع کہنے آیا ہوا ہے۔ عاجز کی ہمشیرہ نے بھی موصوف سے بات چیت کی اور اگلی مرتبہ آکر ملاقات کرنے کے دعوت دی۔

 

مسلمان بننے کی دعوت

 

بھائیو اور بہنو! مسلمان ہونے اور مسلمان بننے میں فرق ہے۔مختصر یہ کہ ہر روح مسلمان ہے۔ جب بچے کا جسم ماں کے رحم میں مکمل ہو جاتا ہے تو فرشتہ اللہ کے حکم سے اس کے دل میں اس کی روح پھونک دیتا ہے اور بچہ جب دنیا میں ماں کے رحم سے نکل کر آتا ہے تو وہ مسلمان ہوتا ہے لیکن اب اسے مسلمان بننا ہوتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! مسلمان بننے کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے:-

 

ایک طالب علم ایک کالج میں داخلہ لیتا ہے تو وہ اس کالج کا طالب علم کہلاتا ہے۔ طالب علم ہونے کے لئے اسے اساتذہ کے لیکچرز کو سننا ہوتا ہے، گھر آکر سلیبس کی کتابوں کو پڑھنا اور سمجھنا ہوتا ہے اور امتحان کو پاس کرنا ہوتا ہے۔ اب طالب علم طالب علم ہو گیا۔ جب طالب علم اس علم کو روزمرہ کی زندگی میں خلوص دل سے عمل میں لائے گا تب وہ طالب علم بننا شروع ہو گا اور طالب علم بننے کا سلسلے آخری دموں تلک چلتا رہے گا۔ِ

 

بھائیو اور بہنو! جس طرح طالب علم کو طالب علم بننے کے لئے ایک لائحہ عمل درکار ہوتا ہے اسی طرح مسلمان کو مسلمان بننے کے لئے اللہ تعالٰی کے بنائے ہوئے سلیبس کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے، اسے سمجھنا ہوتا ہے اور اس کے مطابق خلوص دل سے عمل کرنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ترتیب دیا ہوا ہوا سلیبس،اللہ کا کلام، قرآن ہے اور لائحہ عمل خاتم الانبیأ محمد ابن عبدللہ صل اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات ہے جو سنت اور حدیث ہے۔ یعنی اللہ کے کلام کی تفسیر ہے۔

 

موصوف کی ازواجی زندگی کا جائزہ

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! منصوبہ امن کی پکار کا مقصد اجتماعی طور پر بھی مسلمانوں کو مسلمان بننے کی دعوت دینا ہے۔ مسلمان بننے کی شروعات ہر بچے کے ماں باپ سے ہوتی ہے۔بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے ذمہ داری ماں پر ہوتی ہے۔ باپ اکثر گھر سے باہر اللہ کے فضل کی تلاش کے لئے نکل جاتا ہے اور شام کو واپس آتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! اولاد پیدا ہونے کے بعد چند سال تلک ماں کی سرپرستی میں ہوتی ہے۔ اس لئے ماں اپنی اولاد کو جو تعلیم دے گی وہی تعلیم ان کے دل و دماغ میں مستقبل میں علم کو سمجھنے کی بنیاد بنتی جائے گی۔ اس طرح سے ماں کا اولاد پر اثر زیادہ ہوتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف سے تبادلہء خیالات ہوتا رہتا تھا۔ مختصر یہ منصوبہ امن کی پکار کا احساس ہوا کہ موصوف اور ان کی اہلیہ میں سرد جنگ جاری ہے جو کہ دور حاضر میں عام بات ہے۔

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! منصوبہ امن کی پکار نے موصوف کی فیملی کا عقابی نظر سے جائزہ لیا تو نظر آیا:-

 

٭موصوف، ان کی اہلیہ اور ان کے دو صاحبزادے شریف النفس ہیں،

 

٭منصوبہ امن کی پکار کا یہ تاثر تھا کہ ان کی اہلیہ کوئی ملازمت نہیں کرتی۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ ملازمت کرتی ہیں۔

 

٭موصوف نے یہ نہیں بتلایا تھا کہ ان کی اہلیہ الحمد للہ! نماز ادا کرتی ہیں۔الحمد للہ! موصوف کو مسلمان بننے ضمن میں ان کی ذات کے لئے کچھ تحائف دئیے گئے۔ منصوبہ: امن کی پکار نے ان کی اہلیہ کے لئے بزنس منیجر سے عبایا خریدوائی اور موصوف کو دی۔ موصوف جب انگلینڈ واپس آئے تو ان سے دریافت کیا گیا کہ عبایا ان کی اہلیہ کو پسند آئی؟ انہوں نے بتلایا کہ انہیں معلوم تھا کہ ان کی اہلیہ عبایا نہیں پہنے گی اس لئے وہ     عبایا لاہور میں اپنی کزن کو دے آئے ہیں۔ موصوف نے یہ بھی بتلایا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ سے ذکر کیا تھا کہ عاجز نے ان کے لئے عبایا تحفتہً بھیجی تھی لیکن وہ عبایا اپنی کزن کو دے آئے ہیں۔ ان کی اہلیہ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا جس کا مفہوم ہے کہ آپ لے آتے۔ میں نماز عبایا پہن کر ادا کر لیتی۔بھائیو اور بہنو! اس طرح معلوم ہوا کہ ان کی اہلیہ بھی پانچ وقت نماز کی پابندہیں۔     

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! منصوبہ امن کی پکار نے موصوف کو اپنی اہلیہ سے سرد جنگ ختم کے لئے کچھ گر بتلائے جو الحمد للہ! کارگر ثابت ہوئے اور دونوں کی درمیان سرد جنگ ختم ہو گئی۔

 

موصوف کی اہلیہ کو مسلمان بنانے کی کوشش

 

بھائیو اور بہنو! موصوف سے تبادلہئ خیالات کرتے ہوئے نظر آیا کہ موصوف کی اہلیہ ان پر حاوی ہیں۔ اس لئے موصوف سے گزارش کی گئی کہ وہ شرعی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی اہلیہ سے ملاقات کروادیں تاکہ منصوبہ امن کی پکار ان کو مسلمان بننے کی ترغیب سے آگاہ کر سکے۔ الحمد للہ! وہ شریف النفس ہیں اور پانچ وقت نماز کی بھی پابند ہیں اور گھر کی سیاست پر حاوی بھی ہیں، اس لئے اگر اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے ان کو دین اسلام کی روح کو پہچاننے کی توفیق عطا فرما دی تو پھر اللہ کے فضل و کرم سے گھر میں اسلامی فضا جنم لینا شروع ہو جائے گی۔ نیز چونکہ ان کا اپنے صاحبزادوں پر بھی اثر ہوگا اس لئے وہ بھی پانچ وقت نماز کے پابند ہو جائیں گے۔ الحمد للہ! وہ شریف النفس ہیں اور مغربی برائی کے محوروں سے دور ہیں مثلاً: شراب، جوأ اور لڑکیوں سے دوستی وغیرہ۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف اپنی اہلیہ سے ملاقات کروانے کے لئے راضی نہ ہوئے۔

 

اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا احساس

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ اللہ کے فضل و کرم سے منصوبہ امن کی پکار نے عقابی نظر سے دنیا میں گمراہی کی وجوہات کا جائزہ لیا تو نظر آیا کے حقیقت میں انسان کو اللہ کی نعمتوں کا احساس نہیں جس کی وجہ سے، کم و بیش، ہر انسان اللہ تعالٰی کے سیدھے راستے بھٹک جاتا ہے۔ بنی نوع انسان نے اللہ تعالٰی کی نعمتوں کو:

 

Taken for Granted

 

بھائیو اور بہنو! لے رکھا ہے جیسا کہ انسان کا اللہ تعالٰی پر ان نعمتوں کا حق ہے اس لئے نہ تو ان کا احساس کرنے کی ضرورت ہے اور نہ اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ نعوذ باللہ

 

بھائیو اور بہنو! قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے لوگوں کے دل و دماغ سے گمراہی کو نکالنے کے لئے انبیائے کرام مبعوث کئے جاتے تھے تو انبیائے کرام دین اسلام کے احیأ کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا بھی احساس دلاتے ہوں گے۔ جو اللہ کے بندے اللہ تعالٰی کی توفیق سے اللہ کی نعمتوں کا احساس کرلیتے تھے اور اللہ کی نعمتوں کو پہچان جاتے تھے وہ اللہ تعالٰی کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے پر راضی ہو جاتے تھے۔

 

بھائیو اور بہنو! اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا احساس کرنا اور پہچاننا ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے:-

 

آپ کا کسی ایسے بندے سے تعارف ہوتا ہے جو اعلٰی تعلیم یافتہ ہے، اربوں کا کا کاروبار ہے، بے شمارجائدادوں کا مالک ہے، ایماندار اور دیانتدار ہے، وغیرہ۔

 

وہ بندہ آپ کو ملازمت دیتا ہے اور ماہانہ تنخواہ مقرر کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ آپ کا رہنے کے لئے گھر، کام کاج کے لئے کار، دوسرے ممالک مبں جانے کے اخراجات، گھر یلو کام کاج کے لئے خادم،تحفے تحائف، وغیرہ دیتا ہے تو کیا آپ اس بندے کی مرضی کے مطابق اپنی خدمات فراہم نہیں کریں گے؟ تنخواہ کے علاوہ یہ سہولتیں آپ کا حق نہیں ہے۔آپ کا حق صرف تنخواہ لینا ہے بشرطیکہ آپ ملازمت کا حق ادا کریں۔ لیکن آپ کو ان سہولتوں کا احساس کرنا لازم ہے اور ان سہولتوں کو اگر پہچانا جائے گا اور آجر کا شکریہ ادا کیا جائے گا تو آپ آجر کے قریب بھی ہوتے جائیں گے۔

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ منصوبہ امن کی پکار نے تقاضا کیا کہ ایک مضمون ترتیب دیا جائے اور خطاب: محترمہ بھابی صاحبہ کیا جائے اور جو اللہ کی نعمتیں ہر لمحہ ہر انسان پر، اللہ کے فضل و کرم سے، نازل ہوتی ہیں، ان نعمتوں کا احساس دلایا جائے۔

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! اللہ تعالٰی کی توفیق سے اللہ کی نعمتوں پر مضامین ترتیب دئیے گئے اور ان مضامین کو ویب سائٹ:-

 

www.cfpislam.co.uk

پر شائع کر دیا گیا۔

 

بھائیو اور بہنو! منصوبہ امن کی پکار کا مضمون: اللہ کی نعمتیں شائع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب اللہ کی نعمتوں کا احساس نہیں کیا جاتااور اللہ تعالٰی کی ذات یکتا کو پہچانا نہیں جاتا تو گمراہی جنم لینا شروع ہو جاتی ہے اور پھیلتی رہتی ہے۔ حالات حاضرہ میں گمراہی کا دور دورہ ہے۔ بنیادی طور پر عورت چونکہ اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ دار ہوتی ہے اس لئے اگر اللہ کے فضل و کرم سے اگر عورت صحیح طور پر مسلمان بن جائے تو پوری قوم راہ راست پر آ سکتی ہے۔ محاورا ہے:-

 

جب ایک مرد علم کا حصول کرتا ہے تو انفرادی طور پر علم حاصل کرتا ہے۔

 

جب ایک عورت علم کا حصول کرتی ہے تو پوری قوم علم کا حصول کرتی ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! قرائن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چودہ سو سال پیشتر دین اسلام کے احیأ کی بنیاد عورت ہی تھی۔ وہ کس طرح؟

 

بھائیو اور بہنو! مندرجہ ذیل حقائق کا جائزہ لیں:-

 

٭الحمد للہ! خاتم الانبیأ محمد ابن عبد اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو عورت حضرت آمنہ نے جنم لیا تھا،

 

 

٭عرب کے دستور کے مطابق آپ صل اللہ علیہ وسلم کی پرورش حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالٰی نے فرمائی تھی،

 

٭جب اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے چالیس سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز کئے گئے تھے اور آپ صل اللہ علیہ وسلم پہلی وحی کے بوجھ سے گھبرا کر غار حرا سے گھر واپس تشریف لائے تھے تو سب سے پہلے آپ صل اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی نے ہی آپ صل اللہ علیہ کے اوصاف جتلا کر آپ صل اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور تشفی دی تھی اور پھر مزید تسلی کے لئے آپ صل اللہ علیہ وسلم کو اپنے کزن ورقہ بن نوفل کیپاس لے کر گئی تھیں جو اس وقت اللہ کی کتاب انجیل کے عالم تھے۔

 

٭بلا شبہ مسلمان مرد دین اسلام کے احیأ کے لئے دوسرے ممالک میں ہجرت فرماتے تھے اور جب غیر مسلم سرا براہ مملکت دائرہ اسلام میں واپس آنے سے انکار کرتے تھے تو جنگ کی نوبت آجاتی تھی تو مرد ہی رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے جنگ کے لئے جاتے تھے۔ لیکن سوال جنم لیتا ہے کہ مردوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کس نے کی تھی؟

 

ماؤں نے

 

بھائیو اور بہنو! ماؤں نے کیسے تربیت کی تھی اس کو ایک حکایت سے سمجھا جا سکتا ہے۔

 

الحمد للہ! حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ مؤذن تھے۔ جب خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہو گئے تو حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی سے صدمہ برداشت نہ ہو سکا اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ملک شام میں مدینہ سے ہجرت فرما گئے۔

 

ایک رات حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو آپ صل اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے:-

 

اے بلال!یہ کیسی بے وفائی ہے کہ تم ملاقات کے لئے نہیں آتے؟

 

بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ اسی وقت اٹھے اور رخت سفر باندھا اور اللہ کے فضل وکرم سے مدینہ پہنچ گئے۔

 

الحمد للہ! مدینہ میں حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی نے آپ صل اللہ علیہ وسلم کی روضہ مبارک پر حاضری دی، ہدیہ سلام پیش کیا اور روتے جاتے تھے۔

 

اہل مدینہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اذان دینے کی گزارش کی۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ معذرت فرماتے رہے کہ میرا حوصلہ نہیں پڑتا۔ اہل مدینہ نے آپ صل اللہ علیہ کے نواسوں: حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سفارش کروائی۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی آپ صل اللہ علیہ وسلم کے نواسوں کی سفارش پر اذان دینے کی حامی بھرلی۔

 

جب حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی کی آواز میں مدینہ میں اذان کی آواز، اللہ کے فضل و کرم سے گونجی اور اہل مدینہ کے گھروں میں پہنچی تو مرد و عورت بچے بے قرار ہو کر مسجد نبوی پہنچے اور سب اہل مدینہ روتے جاتے تھے کیونکہ خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کے دور نبوت کی یاد تازہ ہو گئی تھی۔

 

الحمد للہ! ایک ماں کی گود میں اس کا بیٹا تھا۔ جب اذان تمام ہوئی تو بیٹے نے ماں سے پوچھا جس کا مفہوم ہے:-

 

اے ماں! بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ تو آ گئے ہیں۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم کب تشریف لائیں گے؟

 

بھائیو اور بہنو! ماں کے بیٹے کے سوال سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟

 

بھائیو اور بہنو! ماں کے بیٹے کے سوال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماں نے بیٹے کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں اسلامی اقدار اور اسلام کے احیأ کرنے والی شخصیتوں کی تعلیم دی تھی، ان میں مسلمان بننے کا جذبہ پیدا کیا تھا۔

 

بھائیو اور بہنو! عورت کی شخصیت کا ایک رخ تو یہ تھا کہ دین اسلام کے چودہ سو سال پیشتر دین اسلام کے احیأ کی بنیاد بنی تھی اور آج وہی عورت ہے جو گمراہی کی راہوں کو راہ دیتی چلی جا رہی ہے۔

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! منصوبہ امن کی پکار کا مقصد بنیادی طور پر عورتوں کی اصلاح کرنا ہے۔ اسی وجہ سے مضامین: اللہ کی نعمتیں ویب سائٹس:-

 

www.cfpislam.co.uk

www.cfpibadaahs.co.uk

پر اللہ کے فضل و کرم سے شائع کر دئیے گئے ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو! بات دوسری طرف نکل گئی تھی۔ آئیے اصل موضوع کی طرف آ جاتے ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف سے گزارش کی کہ الحمد للہ! اللہ تعالٰی کی توفیق سے، آپ کی اہلیہ کے نام ایک مضمون ترتیب دیا ہے: اللہ کی نعمتیں۔ آپ نے اپنی اہلیہ سے ملاقات کروانے سے معذرت کر لی تھی۔ الحمد للہ! مضمامین:اللہ کی نعمتیں ویب سائٹ پر شائع کر دئیے گئے ہیں۔ آپ کی ای میل پر ایک وضاحتی خط بھیجا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس خط کا مطالعہ فرمائیں اور ای میل کو اپنی اہلیہ کی ای میل پر فارورڈ کر دیں۔ موصوف نے حامی بھرلی اور رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ان کو ایک بیگ دیا گیا جس میں موصوف، ان کی اہلیہ اور ان کے صاحبزادوں کے لئے چند تحائف تھے جن کے استعمال سے بندہ مسلمان نظر آتا ہے۔ موصوف سےگزارش کی کہ وہ اپ ڈیٹ فرماتے رہیں۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف نے کس طرح سے اپنی اہلیہ کو مسلمان بنانے میں پس و پیش کی، اس موضوع کو علحیدہ طور پر، انشأاللہ پیش کیا جائے گا۔

 

موصوف کی شخصیت و کردار کا شرعی نقطہء نظر سے جائزہ

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ حضرت موسٰی علیہ السّلام کے واقعہ سے، جس کا ذکر کیا گیا ہے، سے سبق ملتا ہے کہ انسان گو اشرف المخلوقات ہے لیکن وہ ایک تنکے سے بھی برتر نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق نظر آتا ہے کہ تمام مخلوقات بجز انسان کے کسی سے حساب کتاب نہیں ہوگا۔ اس لئے نہ وہ جنت میں جا سکتا ہے اور نہ جہنم میں۔ لیکن انسان کا حساب کتاب ہوگا اور اس فیصلہ اس کے اعمال کے مطابق ہو گا کہ آیا وہ جنت میں جا سکتا ہے یا جہنم میں۔ اگر انسان جہنم میں چلا گیا تو وہ کیسے تنکے سے برتر ہوا۔ انسان کی انکساری کو ایک حکایت سے سمجھا جا سکتا ہے۔

 

ہلاکو خاں نے اپنا ایک ایلچی اس وقت کے ایک اللہ کے ولی کے پاس بھیجا اور کہا کہ اس پیغام کا اللہ کے ولی سے جواب لے کر آؤ جس کا مفہوم ہے:-

 

آپ میرے کتے سے افضل ہیں یا میرا کتا آپ سے افضل ہے؟

 

بھائیو اور بہنو! اللہ کے ولی نے جواب دیا جس کا مفہوم ہے:-

 

اس کا جواب میں دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپ کو بھیج دوں گا۔

 

جب اللہ کے ولی کا آخری وقت تھا تو اللہ کے دستور کے

مطابق ان کو نظر آیا ہوگا کہ اللہ کی رحمت کے فرشتے ان کی روح کو لے جانے کے لئے آ رہے ہیں۔ تو انہوں نے اپنے بندے سے ہلاکو خاں کو پیغام بھجوایا جس کا مفہوم ہے:-

 

میں آپ کے کتے سے افضل ہوں۔ہمارے اللہ! نے مجھے معاف کر دیا ہے۔

 

 

مشاہدہ

 

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ کے نیک بندے لوگوں کی نظر میں اللہ کے ولی ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ان میں، اللہ کے فضل و کرم سے، عاجزی اورانکساری کا پہلو درجہ اتم موجود ہوتا ہے اور وہ اپنی ذات کو کسی شئے سے بھی برتر نہیں سمجھتے اور آخری دم تلک وہ اپنی ذات کو نفس اور شیطان کے وار سے محفوظ نہیں سمجھتے۔ اس پہلو کے ضمن میں بھی ایک حکایت ہے:-

 

امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا آخری وقت تھا۔ لواحقین ان کے گرد بیٹھے ہوئے تھے اور ان کو کلمہ پڑھنے کی ترغیب دلا رہے تھے کہ آخری دم تلک ان کی زیان سے کلمہء حق جاری رہے۔

 

امام رحمتہ اللہ علیہ بار بار یہ دہرا رہے تھے:-

 

ابھی نہیں! ابھی نہیں! ابھی نہیں

 

کچھ دیر کے بعد ان کے حواس درست ہوئے۔ لواحقین نے عرض کی جس کا مفہوم ہے کہ اللہ تعلٰی کی توفیق سے ہم آپ کو کلمہئ حق پڑھنے کی ترغیب دلا رہے تھے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپ کی زبان مبارک پر کلمہئ حق جاری رہے۔ لیکن آپ بار بار دہرا رہے تھے:-

 

ابھی نہیں! ابھی نہیں! ابھی نہیں

 

امام بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے بتلایا کہ شیطان ملعون میرے پاس آیا تھا اور بار بار کہہ رہ تھا:

 

امام حنبل رحمتہ علیہ! تم مجھ سے بچ کر جارہے ہو۔

 

تو میں اس کو، اللہ کی توفیق سے، جواب دیتا تھا:-

 

ابھی نہیں! ابھی نہیں! ابھی نہیں

 

بھائیو اور بہنو! شیطان کا یہ مزاج ہے کہ وہ اللہ کے ولیوں کو بھی آخری دم تلک اللہ کے سیدھے راستے سے گمراہ کرنے کے لئے وار کرتا رہتا ہے۔ شیطان کا یہ بھی دعوٰی ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے ستر ہزار علمأ کو ان کے آخری وقت میں گمراہ کر چکا ہے جبکہ ان کی ساری عمر بظاہر اللہ تعالٰی کی عبادت کرتے ہوئے گزری تھی۔

 

بھائیو اور بہنو! ایک اور واقعہ سننے میں آیاہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام عمر بطور ہندو مذہب کا پیروکار ہوتے ہوئے گزری اور کسی کو علم بھی نہیں تھا کہ آخری وقت میں اس کے دل سے گمراہی کے پردے، اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے، ہٹا دئیے تھے اور کلمہءحق کا اس نے، اللہ کی توفیق سے، اقرار کر لیاتھا۔

 

بھائیو اور بہنو! اس ہندو کی مغفرت کا راز اس طرح فاش ہوا کہ مولانا قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ جو دارالعلوم دیو بند کے بانی ہیں، کو خواب آیا کہ وہ ہندو لالہ جی جنت میں گھوم رہے ہیں۔ مولانا قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ نے ان سے پوچھا جس کا مفہوم ہے:-

 

لالہ جی! آپ جنت میں کیسے پہنچ گئے؟لالہ جی نے جواب دیا جس کا مفہوم ہے: الحمد للہ! اللہ کے فضل وکرم سے آخری وقت میں کلمہ ءحق کا اقرار کر لیا تھا۔

 

بھائیو اور بہنو! انسان کی محدود عقل کے لئے اللہ تعالٰی کے دستور نرالے ہیں۔ تمام عمر بتوں کی پوجا کرتے ہوئے گزری ہو گی، ایک نماز ادا نہیں کی اور آخری وقت میں صرف کلمہئ حق کا اقرار کر لینے سے اللہ تعالٰی نے اسے اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دیا۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! جب کیئر ہوم میں عارضی طور پر قیام کا سلسلہ شروع ہوا گو خود کہ غیر مسلموں، بجز موصوف کے، سے واسطہ پڑا۔ بلا شبہ اللہ کا کلام ہر طرح سے افضل ہے لیکن اللہ کے کلام کو جاننے والا اسے کسی سے افضل نہیں بناتا۔غیر مسلم اپنے عقائد کی وجہ سے دائرہ اسلام سے باہر نکل چکے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر وہ بھی حضرت آدم علیہ السّلام کی ذریت میں سے ہیں اور مسلمان ہیں۔ الحمد للہ! منصوبہ امن کی پکار کا مقصد مسلمانوں کو مسلمان بننے کی دعوت دینا ہے اور غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں واپس آنے کی دعوت دینا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو!موصوف کچھ روز کے بعد جب تبادلہئ خیالات ہوا تو ان سے عرض کی کہ گو عاجز آپ سے عمر میں بڑا ہے لیکن عاجز آپ کی بڑے بھائی کی حیثیت سے عزت کرتا ہے۔

 

موصوف کا بظاہر مغربیت سے متاثر ہونا

 

بھائیو اور بہنو! یہ قدرتی امر ہے کہ جس فضا اور ماحول میں انسان کی پرورش اور تعلیم و تربیت ہوگی،اس کے دل و دماغ پر اسی فضا اور ماحول کے اثرات مرتب ہوتے رہیں گے۔

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ چودہ سو سال پیشتر اللہ تعالٰی نے بنی نوع انسان کو اپنے قہر سے بچانے کے لئے خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے، اللہ کے فضل و کرم سے، گمراہی کی جڑوں کو جزیرۃ العرب سے اکھاڑ دیا تھا اور صحابہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی تعلیم و تربیت کی تھی۔ الحمد للہ! صحابہ اکرام رضی اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے آپ صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کے بل بوتے پر اور اللہ تعالٰی سے لو لگا کر غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں واپس آ جانے کی دعوت دی۔ الحمد للہ! خلافت راشدہ کے مختصر ساڑھے بارہ سال کے عرصہ میں 25 لاکھ مربع میل پر غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔

 

بھائیو اور بہنو! سوال جنم لیتا ہے کہ اس مختصر عرصہ میں ایسا کس طرح ہوا تھا کہ اسلام کا احیأ 25 لاکھ مربع میل پر ہو گیا؟

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ غیر مسلم سربراہوں نے جب دائرہ اسلام میں واپس آنے سے اور ذمی بننے سے انکار کر دیا تھا تو غیر مسلم عوام تلک اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا جا سکتا تھا۔ اس لئے اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے جنگوں کی نوبت آئی۔ الحمد للہ! جب اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے فتح ہو جاتی تو ملک میں مسلمان گورنر کا تعین کیا جاتا اور اسلامی نظام قائم کیا جاتا تھا۔ غیر مسلم جب اسلامی اقدار کا مشاہدہ کرتے جن کی وجہ سے مسلمان کے دل و دماغ میں سکینت اور سکون جنم لیتا رہتا تھا اور وہ کامیاب زندگی گزارتے تھے تو وہ ان سے متاثر ہوتے تھے اور دائرہ اسلام میں واپس آ جاتے تھے۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! مسلمانوں نے، اللہ کے فضل و کرم سے، کائنات کی تحقیق عقابی نظروں سے کی اور قدرت کے راز افشاں ہوتے چلے گئے جن کو قلمبند کیا جاتا رہا۔ اس کا ثبوت کتاب:-

 

Book of Knowledge

(علم کی کتاب)

میں نظر آتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! ذیل میں علم کی کتاب کا ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب انگریز مصنفین کی تصنیف شدہ ہے۔الحمد للہ! یہ اقتباس منصوبہ امن کی پکار کی تصنیف شدہ کتاب: ناموس رسالت کی حفاظت کیوں کی جائے؟ میں بھی نقل کیا گیا ہے۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مسلمان

ہر علم کے میدان

کی بنیاد ہیں

 

Book of Knowledge

 

“علم کی کتاب “کا یہ اقتباس صاف طور پر بتلاتا ہے کہ کائنات کی تسخیر کے سلسلے میں مسلمانوں نے اللہ کے فضل و کرم سے ہر میدان میں تحقیق و تفتیش کی ہے اور موجودہ سائنٹفک ترقی انہی تحقیق و تفتیش کی مرہون

منت ہیں۔

 

سارسنز بہترین کاریگر اور ہنر مند لوگ تھے۔ تولیدہ اور دمشق کی تلواریں دنیا میں مشہور تھیں۔اس طرح کی کاریگری اور ہنر مندی، صراحی، چراغ اور دوسری اشیأ جو کہ تانبہ، چاندی اور پیتل سے بنتی تھیں، دیکھی جا سکتی تھی۔

 

قالین اور غالیچہ کی صنعت میں اب بھی کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ نیز ظروف اور شیشے کی صنعت میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

 

تعمیرات کے فن میں مسلمانوں نے رہنمائی کی۔دیواروں کی سجاوٹ، قالین اور دستکاری کی اشیأ نے تصاویر کی جگہ لے لی جو کہ اسلام میں ممنوع ہیں۔

 

میٹھی اشیأ، شربت، شیرہ اور خوشبو بنائی گئیں۔

 

کاغذ جس کے بغیر چھپائی کی ایجاد بے معنی ہو جاتی یورپ میں مسلمانوں کے توسط سے آیا۔

 

کرواڈوا اور مراکو سے بہترین چمڑے کی اشیأ آئیں۔

 

ادب میں، خصوصی طور پر شاعری، اور سائنس میں مسلمانوں نے اعلی درجے کی قابلیت حاصل کی۔ قاہرہ کی یونیورسٹی میں ایک وقت ۰۰۰,۲۱ طالب علم زیر تعلیم تھے۔ دسویں صدی میں سپین سے ۰۰۰,۰۰۴ کتابوں کے مسوّدات ملے۔

 

صاحب علم عربوں نے بہت بڑے یونانی فلاسفر ارسطو، جبکہ وہ مغربی یورپ میں بھلایا جا چکا تھا، کی تحریروں کی حفاظت کی اور انہیں دنیا میں پھیلایا۔

 

ریاضی، خصوصی طور پر الجبرا، میں مسلمان علماء نے رہنمائی کی۔

 

آج کے دور میں جن عربی ہندسوں کا استعمال ہوتا ہے عرب علماء نے ان کا تعارف کروایا تھا جو ہندوستان سے لائے تھے

 

عربوں نے علم ہیئت، طبّ، کیمسٹری کے علوم میں کئی قسم کی دریافتیں کی ہیں۔

 

مسلمانوں کے تعمیرات کی اعلیٰ کارکردگی سپین اور ہندوستان میں دیکھی جا سکتی ہے۔

 

مشاہدات

 

مندرجہ بالا اقتسابات روز روشن کی طرح ظاہر کرتے ہیں کہ فنّی، فلکیاتی، مشینی صنعت میں ترقی کی بنیاد اس بنأ پرتیار ہوئی تھی کہ مسلمانوں نے قرآن جو کہ “اللہ کا کلام” ہے، کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا۔

 

مندرجہ بالا کارکردگیوں کے پس منظر میں یہ راز پنہاں ہے کہ اس وقت کے مسلمان قرآن کی آیات کے معنی و مطالب کا گہری نظر سے مطالعہ     کرتے تھے اور اپنی توجہ اللہ کی طرف کرتے تھے جس سے اللہ اور بندے کے درمیان ایک رابطہ اور تعلّق پیدا ہو جاتا تھا۔چونکہ مسلمان علم کے حصول کی طلب میں ہوتے تھے،

 

اللہ تعالیٰ ان پر علم کے خزانے کھولتے چلے جاتے تھے جو وہ مستقبل میں آنے والی نسلوں کے لئے لکھ کر محفوظ رکھتے تھے۔

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ مغرب نے مسلمانوں کی کائنات کی تحقیق جو کہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں کی گئی تھی، کا مطالعہ کیا اور مزید سائنسی علم کی بنأ پر کائنات کی تحقیق کی اور صنعتی انقلاب کے بانی بن گئے۔

 

بھائیو اور بہنو! مغربی تہذ یب و تمدن چونکہ عیش و عشرت کا دلدادہ تھا اور ہے، مغرب نے دنیا کی زندگی میں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لئے اشیأ کی ایجاد کی اور بے حیائی اور عریانی کو فروغ دیا۔

 

بھائیو اور بہنو! رفتہ رفتہ نفس اور شیطان نے امت مسلمہ کے دل و دماغ نے مغربی اثر قبول کرنا شروع کر دیا اور حلات حاضرہ میں، کم و بیش پوری دنیا میں مغربی اقدار کو ہی اپنایا جا رہا ہے اور مغرب میں آباد ہونے کی کوشش جاری و ساری ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! باب کا مضمون موصوف کا مغربی تہزیب و تمدن سے متاثر ہونے کا ذکر شروع ہوا تھا۔ مندرجہ بالا تمہید مغربی تہذیب و تمدن سے متاثر ہونے کا پس منظر ہے۔

 

موصوف کا مغربی تہذیب و تمدن سے متاثر ہونے کا مشاہدہ اور تجربہ

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! موصوف سے ابھی تلک رابطہ قائم ہے اور ان کو باتوں باتوں میں دین اسلام کے احکام کی حکمتیں بتلائی جاتی تھیں اور بتلائی جاتی ہیں جب ان کو شام کو کار پر ان کے گھر چھوڑنے جاتا ہوں۔۔ الحمد للہ! موصوف سنتے تھے لیکن ان پر تبادلہءخیالات نہیں فرماتے تھے اور نہ ہی ان کے بظاہر مشاہدہ سے تبدیلی نظر آتی ہے۔ ذیل میں باتوں باتوں میں یا صراحتاً مسلمان بننے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ موصوف پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ الحمد للہ! اللہ تعالٰی کو اپنے بندوں سے محبت ہے۔ اللہ تعالٰی علیم، بصیر اور سمیع ہونے کی حیثیت سے جانتے ہیں کہ کس بندے کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ آپ اللہ کے بندے ہیں۔ الحمد للہ! پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں۔مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے منصوبہ امن کی پکار کو یہ سعادت دی ہے کہ، بلاشبہ آپ مسلمان ہیں لیکن آپ کو مسلمان بننے کی ضرورت ہے، آپ کو اللہ تعالٰی کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں سے آگاہ کیا جائے۔علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب بندے کو اللہ تعالٰی کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا احساس ہوتا ہے تو پھر وہ خلوص دل اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کرتا ہے اور اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے مسلمان بننے میں مدد فرماتے ہیں۔

 

گھر میں اسلامی فضا اور ماحول

 

بھائیو اور بہنو! ظاہر موصوف کے گھر میں اسلامی فضا نظر نہیں آتی۔ گھر میں کتا بھی رکھا ہوا ہے۔ موصوف کی گھریلو سیاست ان کی اہلیہ کے پاس ہے اور موصوف بھی ان سے ڈرتے ہیں۔ ان کو یہ مشورہ دیا کہ آپ گھر میں اسلامی فضا اور ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ موصوف کو مندرجہ ذیل اسلامی شعار اختیار کرنے کی ترغیب دی۔

 

شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کو خوش آمدید کرنا

 

بھائیو اور بہنو! موصوف نے بتلایا کہ دونوں شوہر اور بیوی کے پاس فرنٹ ڈور کی چابیاں ہیں۔ جب وہ آفس سے گھر واپس آتے ہیں تو دروازہ کھولتے ہیں اور گھر میں داخل ہو جاتے ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف سے گزارش کی کہ آپ اپنی اہلیہ کو خوش آمدید کرنے میں پہل اس طرح سے کریں کہ جب آپ کو گھر کے باہر کار کے داخل ہونے آواز سنائی دے تو آپ فوراً اٹھیں اور گھر کا دروازہ کھولیں اور پھر کار کا دروازہ کھولیں اور اپنی اہلیہ کو خوش آمدید کریں۔ پہلی مرتبہ ان کی اہلیہ حیران ہوگی لیکن خوش بھی ہو گی کہ ان کے شوہر نے ان کا اکرام کیا۔ جب چند مرتبہ آپ اس عمل کو دہرائیں گے تو آپ کی بیوی بھی آپ کا اسی طرح اکرام کرنا شروع کر دے گی۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف کے پاس کار نہیں ہے۔ ان سے گزارش کی کہ جب وہ گھر پہنچیں تو دروازہ کھٹکھٹائیں۔ اگر ان کی اہلیہ گھر پر ہوگی تو وہ دروازہ کھولنے کے لئے آئے گی اور آپ کا اکرام کرے گی۔ اس طرح سے رفتہ رفتہ دونوں کے دل و دماغ میں ایک دوسرے سے متعلق جو ریزرویشنز ہیں دور ہوتی چلی جائیں گی۔

 

گھر میں اور گھر سے باہر جاتے ہوئے اور اندرآتے ہوئے اسلامی شعائر کا استعمال کرنا

 

بھائیو اور بہنو! موصوف سے گزارش کی کہ موقع کی مناسبت سے اسلامی شعائر کا استعمال کرنا شروع کردیا جائے۔ مثلاً:-

 

٭گھر میں داخل ہوتے ہوئے اونچی آواز میں السّلام علیکم کہا جائے،

 

٭گھر سے باہر جاتے ہوئے اللہ حافظ کہا جائے،

 

٭کھانا کھاتے ہوئے الحمد للہ کہا جائے،

 

٭کھانے کی لذت کی تعریف کے لئے ماشااللہ کہا جائے،

 

٭ایک دورسے کی مدح کرنے کے لئے سبحان اللہ کہا جائے،

 

٭اہلیہ کو الوداع کہتے ہوئے یہ کہا جائے کہ انشأاللہ؟ مغرب نماز کے بعد آدھے گھنٹہ میں گھر پہنچ جاؤں گا،

 

٭وغیرہ۔

 

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب گھر کے اندر اسلامی شعائر کا استعمال ہوتا رہے گا تو گھر میں اسلامی فضا پھیلتی رہ گی جس طرح کے پھولوں کی خوشبو سے فضا معطر ہوتی رہتی ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! افسوس کی بات یہ نظر آتی ہے کہ موصوف مندرجہ بالا ترغیبات کو عمل میں نہیں لائے۔

 

اسلامی شعائر میں تاویل

 

بھائیو اور بہنو! یہ قدرتی امر ہے کہ جب ابک بندہ کسی جگہ ملازمت کرتا ہے تو اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ آجر کو بتلا دے کہ دین اسلام پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کا حکم ہے۔ اس لئے جو نمازوں کا وقت خدمات فراہم کرتے ہوئے آئے گا تو نماز ادا کی جائے گی۔ جب عاجز نے موصوف کو ظہر کی نماز ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا تو ظاہر ہوا کہ موصوف نے آجر کو دین اسلام کی نمازوں سے باخبر نہیں کیا۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! جب موصوف نے ظہر کی نماز ادا کرنی شروع کی تو وہ صرف فرض کی رکعت ادا کرتے تھے۔ سنت اور نوافل نہ ادا کرنے کی انہوں نے تاویل کی کہ خدمت فراہم کرنے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔یا شاید وہ آجر کو معلوم نہیں ہونے چاہتے تھے کہ وہ نماز ادا کر رہے ہبں۔ موصوف کو ایک گھنٹہ لنچ کی رخصت تھی اور اس ایک گھنٹہ کی آجر اجرت بھی نہیں دیتا تھا۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف کا یونیفارم پتلون اور کمپنی کی طرف سے نیلے رنگ کی بشرٹ تھی۔ کئیر ہوم میں آکر وہ اپنی ٹی شرٹ اتار دیتے تھے اور نیلے رنک کی بشرٹ پہن لیتے تھے۔ موصوف بنیان نہیں پہنتے تھے۔ اسی یونیفارم میں وہ نماز ادا کرتے تھے۔ یہ ہو سکتا تھا کہ وہ شلوار اور قمیض لا کر سٹاف روم میں رکھ لیتے اور نماز اسلامی لباس پہن کر ادا کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔وہ آجر اور سٹاف ممبرز کو اسلامی لباس میں نظر نہیں آنا چاہتے تھے۔

 

بھائیو اور بہنو! م طور پر موصوف کو جمعہ کے روز کی چھٹی ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات ان کو جمعہ کے روز سٹاف میں کمی کی وجہ سے جمعہ کو بھی کام پر جاتا ہوتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! جس جمعہ کے روز ان کو پورا دن کام کرنا ہوتا تھا تو وہ مغربی لباس میں ہی آتے تھے اور مغربی لباس میں ہی جمعہ کی نمازادا کرتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ اسلامی لباس نہیں لاتے تھے کہ جمعہ کی نماز ادا کرنے سے پیشتر پہن لیں۔ایک مرتبہ جب ان کو پورے دن کام کرنا تھا تو جمعہ کی نماز ادا کرنے سے پیشتر مجھ سے کہا کہ چونکہ مجھے کام پر جانا ہے اس لئے فرض ادا کرتے ہی چلے چلیں گے۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ جمعہ کی نماز کی سنن ادا نہیں کریں گے۔ الحمد للہ! ان کو طریقے سے سمجھایا کہ کہ جمعہ کی نماز کی سنن کو چھوڑ دینا مناسب نہیں۔

 

بھائیو اور بہنو! بعض اوقات ان کو جمعہ کے روز دوپہر کے بعد کام پر جانا ہوتا تھا۔ الحمد للہ! گھر سے وہ اسلامی لباس پہنتے تھے لیکن وہ ایک تھیلے میں پتلون اور ٹی شرٹ لے کر آتے تھے۔ جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ مسجد سے ایک ملحق کمرے میں اسلامی لباس اتار کر پتلون اور ٹی شرٹ پہنتے تھے۔ اس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ وہ آجر اور سٹاف ممبرز کو اسلامی لباس میں نظر نہیں آنا چاہتے تھے۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! باتوں باتوں میں، کچھ درشتی کے ساتھ ان کی اصلاح کے لئے ترغیب دلائی کہ یہ مناسب معلوم نے ہوتا کہ بندہ مسجد میں اسلامی لباس پہن کر جائے اور مسجد سے باہر کافرانہ لباس پہن کر نکلے۔ الحمد للہ! انہوں نے یہ روش چھوڑ دی۔

 

موصوف کو مسلمان بنانے کی کوشش کا بظاہر ناکام ہونا

 

بھائیو اور بہنو! دین اسلام کا یہ بھی اصول نظر آتا ہے کہ مسلمان کو مسلمان بنانے میں میں ایسے تحائف دئیے جائیں جن کے استعمال سے وہ مسلمان نظر آ سکے۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! جب عاجز کئیر ہوم میں تھا تو پاکستان سے بزنس منیجر نے چمڑے کی چپلی، سفید شلوار قمیض کے سوٹ، بنیانیں اور رومال منگوائے تھے۔ مختصر یہ کہ موصوف نے چمڑے کی چپلی دیکھی اور ان کو پسند آئی۔ ان سے کہا کہ انشأ اللہ! آپ کے لئے بنوا دی جائے گی۔ جب آپ پاکستان جائیں گے تو آپ کو مل جائے گی۔

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ موصوف کو ایک جوڑا سفید سوٹ، ایک بنیان اور دو رومال پیش کئے گئے تاکہ سفید شلوار قمیض پہن کر وہ مسلمان نظر آئیں۔رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور عید مبارک کی آمد تھی۔

 

بھائیو اور بہنو! جب موصوف پاکستان تشریف لے گئے تو بزنس منجیر نے ان کو ایک چمڑے کی چپلی اور ایک درجن بنیانیں اور ان کی اہلیہ کے لئے عبایا تحفتہً پیش کی۔ اہلیہ کے لئے جو عبایا دی تھی وہ اپنی کزن کو اس نقطہئ نظر سے دے آئے تھے کہ ان کو اہلیہ عبایا نہیں پہنے گی۔ نوٹس کیا گیا کہ وہ بنیانوں کا استعمال بھی نہیں کر رہے۔ کس کا مطلب ہے کہ وہ بنیانیں بھی پاکستان میں کسی رشتہ دار کو دے آئے ہوں گے۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! منصوبہ امن کی پکار نے موصوف کی اہلیہ کو بھی مسلمان بنانے اور مسلمان نظر آنے کی ترغیبات سے متعلق سوچ بچار کی۔ مختصر یہ کہ ان کی اہلیہ، ان کے صاحبزادوں کے لئے مندرجہ ذیل تحائف بزنس منیجر سے بذریعہ پارسل پاکستان سے منگوائے:-

 

٭عبایا

 

٭سکارف

 

٭نقاب

 

٭دستانے

 

٭گھر سے باہر پہنے والی کالے رنگ کا جوتی

 

٭گھر کے اندر پہننے والے سلیپر

 

٭جرابیں

 

٭صاحبزادوں کے لئے سفید ٹوپیاں

 

٭موصوف کے لئے چمڑے کے سلیپر

 

بھائیو اور بہنو! پہلا رمضان المبارک کئیر ہوم میں گزرا تھا اور دوسرا رمضان المبارک گھر میں گزرا تھا۔

 

بھائیو اور بہنو! ایک روز شام کو موصوف کو ان کے گھرچھوڑنے کے لئے گیا تو ان سے گزارش کی کہ آپ اپنی اہلیہ سے ملاقات کروانے کے لئے راضی نہیں ہوئے تھے۔ الحمد للہ! اللہ کی توفیق سے، مضمون میں ان کو خطاب محترمہ بھابی صاحبہ سے کیا گیا ہے اور مضامین اللہ کے نعمتیں ویب سائٹ:-

 

www.cfpislam.co.uk

پر شائع کر دئیے گئے ہیں

 

بھائیو اور بہنو! اور ان کے نام ایک وضاحتی خط بھی لکھا ہے جو آپ کو ای میل کر دیا جائے گا۔ آپ اس خط کا مطالعہ کریں اور اپنی اہلیہ کو فارورڈ کر دیں۔ موصوف نے حامی بھر لی اور دوسرے روز وضاحتی خط ای میل کر دیا گیا اور ان کو تحائف کا بیگ دے دیا اور ان سے درخواست کی کہ آپ مہربانی سے مجھے اپ ڈیٹ کرتے رہیں۔

 

موصوف کا اپ ڈیٹ نہ کرنا

 

بھائیو اور بہنو! امید تھی کہ موصوف ای میل کی وصولی کی اطلاح دیں گے اور وضاحتی خط کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے تاثرات سے آگاہ کریں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

 

بھائیو اور بہنو! ذیل میں موصوف سے استفسار کیا گیا:-

 

٭دو روز کے بعد ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ نے ای میل کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے بتلایاکہ ابھی نہیں کیا لیکن ای میل وصول ہو گئی ہے۔ ان سے گزارش کی گئی کہ بہتر ہے کہ گھر میں اسلامی فضا اورماحول پیدا کرنے کے لئے وضاحتی خط کا مطالعہ کر لیں اور اہلیہ کو ای میل فارورڈ کر دیں اور اپنے تاثرات سے آگاہ کریں۔ موصوف نے حامی بھر لی۔

 

٭دو، تین روز گزر گئے۔ موصوف نے یہ نہیں بتلایا کہ آیا انہوں نے وضاحتی خط کا مطالعہ کیا۔ ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتلایا کہ انہوں نے مطالعہ کیا ہے لیکن انہوں نیاپنے تاثرات نہیں بتلائے۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا انہوں نے وضاحتی خط اپنی اہلیہ کو فارورڈ کر دیا ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ ان کو ای میل فارورڈ کر دی ہے اور اہلیہ نے کہا کہ جب ان کے پاس وقت ہوگا تو وہ وضاحتی خط کا مطالعہ کر لیں گی۔

 

٭موصوف کی طرف سے کوئی اپ ڈیٹ نہیں مل رہا تھا۔ ایک روز ان کی اصلاح کے لئے بات چیت کی کہ آپ کی طرف سے کوئی اپ ڈیٹ نہیں مل رہا جو کہ شرعی اصول و ضوابط کے منافی ہے، آپ نے کبھی اپنی طرف سے کچھ نہیں بتلایا بلکہ آپ سے دریافت کرنا پڑتا ہے۔ موصوف نے صرف اتنا کہا کہ: کوتاہی ہو گئی۔ ان سے گزارش کی گئی کہ مہربانی فرما کر اپ ڈیٹ کرتے رہیں۔

 

٭کچھ روز کے بعد موصوف تے دریافت کیا کہ کیا ان کی اہلیہ کو عبایا پسند آئی؟ انہوں جواب دیا کہ انہوں نے پہن کر دیکھی تھی اور ایسی فٹ آئی جیسے ان کے لئے بنائی گئی ہے۔

 

٭الحمد للہ! ان کو تحائف رمضان المبارک میں پیش کئے گئے تھے۔ عید الفطر قریب آئی توانہیں عید مبارک کا پیغام بھیجا:-

 

السّلام علیکم

 

اللہ پاک کی ذات یکتا سے امید ہے کہ آپ اور آپ کے اہل و عیال اللہ تعالٰی کے بھیجے ہوئے تحائف سے رمضان المبارک کو الوداع اور عیدالفطر کو خوش آمدید کہیں گے:

 

آپ نئے سلیپرز اور آپ کے صاحبزادے ٹوپیاں پہن کراور آپ کی اہلیہ سکارف اور عبایا پہن کر عید کی نماز کے لئے رخصت کریں گی اور عبایا اور نقاب پہن کر گھنٹی کی آواز سن کر خوش آمدید کہیں گی۔ انشأ اللہ آپ کے دل میں سکینت اور دماغ کی سکون کی لہریں جنم لیتی رہیں گی۔ اس یاد گار کو کیمرے میں محفوظ کر لیں۔

 

والسّلام

 

بھائیو اور بہنو! موصوف کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ امید تھی کہ موصوف اور ان کی اہلیہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے تحائف کی وصولی کی اطلاع دیں گے اور ان کے استعمال سے اپ ڈیٹ کرتے رہیں گے۔ مثلاً:-

 

٭اہلیہ نے عبایا اور سکارف پہن کر نماز ادا کرنا شروع کردی ہے،

 

٭اہلیہ کو جوتی، سلیپرز پسند آئے اور وہ ان کا استعمال کر رہی ہیں،

 

٭صاحبزادے ٹوپیوں کا استعمال کر رہے ہیں،

 

٭موصوف سلیپرز کا استعمال کر رہے ہیں اور بہت آرام دہ ہیں،

 

٭وغیرہ۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف کی اہلیہ اور صاحبزادے خود ہی ای میل کے ذریعے تحائف کی وصولی اور ان کے استعمال سے متعلق اپ ڈیٹ کر سکتے تھے۔موصوف نے خود بھی سلیپرز کا ذکر نہیں کیا۔

 

بھائیو اور بہنو! شرعی اور رسمی اصول ہے کہ تحائف وصول کر کے شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔ لیکن قرائن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موصوف نے نہ تو:-

 

٭خود وضاحتی خط کا مطالعہ کیا،

 

٭نہ اہلیہ کو ای میل فارورڈ کی،

 

٭نہ ہی تحائف کے بیگ کو کھولا گیا کیونکہ ابھی تلک (ماہ ستمبر) نہ تو خالی بیگ واپس کیا گیا اور نہ ہی اپ ڈیٹ کیا گیا۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف کا یہ کہنا کہ انہوں نے نے وضاحتی خط کا مطالعہ کیا ہے، ای میل اہلیہ کو فارورڈ کر دی ہے، اہلیہ کو عبایا کا پسند آنا وغیرہ میں حقیقت نظر نہیں آتی۔

 

بھائیو اور بہنو! قرآن و حدیث کی روشنی میں موصوف اور ان کے اہل و عیال کو مسلمان بننے اور مسلمان نظر آّنے کا اللہ تعالٰی کی توفیق سے اسباب کا انتظام کیا، اسباب کو پیش بھی کیا اور انہوں نے وصول بھی کیا۔ لیکن بظاہر ایسا نظر نہیں آتا کہ موصوف میں اتنی جرأت ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کی مغربی روش کو تبدیل کرنے کی کوشش کر سکے۔

 

بھائیو اور بہنو! تاہم! اللہ تعالٰی سے پر خلوص دعا ہے کہ اسلامی اسباب ان کے پاس موجود ہیں اور انشأ اللہ! وہ ان کو اپنی یاد دلاتے رہیں گے، اور ایسا وقت آئے گا کہ وہ ان کو قبول کر لیں گے۔ الحمد للہ! وہ پانچ وقت کی نماز کے پابند ہیں اور رمضان المبارک کے روزے بھی رکھتے ہیں، زکواۃ بھی دیتے ہوں گے، اور حج کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں، اور اللہ کے فضل و کرم سے شریف النفس ہیں۔

 

سال 2023 کے رمضان المبار ک میں موصوف کی افطاری کی سعادت

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! موصوف کئیر ہوم میں ہفتہ میں چار روز خدمات فراہم کرتے تھے اور ہیں۔ ان کے ڈیوٹی کے اوقات صبح 08.00am سے شام 08.00pm سے ہوتے تھے اور ہیں۔ چار روز کی ڈیوٹی کے درمیان کبھی ایک دن کبھی دو دن کے وقفہ ہوتا تھا اور ہے۔ جب کبھی سٹاف کی کمی ہو تو لگاتار چار دن بھی ڈیوٹی کے فرائض انجام دینے ہوتے ہیں۔ حقیقت میں ان کی ڈیوٹی ان کا ٹرویلنگ ٹائم اور صبح تیاری میں اور شام کو گھر پہنچ تھکاوٹ کو دور کرنے کے لئے، ملا کر 16 گھنٹے ہو جاتی ہے۔

 

بھائیو اور بہنو!سال کے رمضان المبارک میں افطار کے اوقات شام آٹھ بجے سے پہلے شروع ہو جاتے تھے۔ الحمد للہ! منصوبہ: امن کی پکار نے تقاضا کیا کہ ان کی افطاری کا انتظام کیا جائے۔

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! عاجز ان کو شام ساڑھے سات بجے افطاری دے آتا تھا۔ اگر ان کو لفٹ کی ضرورت ہوتی تھی توآٹھ بجے کے بعد مغرب کی نماز ادا کرکے ان کو ان کے گھر چھوڑ آّتا تھا۔ افطاری پکوڑے یا آملیٹ، سیب کا ملک شیک، یا گاجر کے جوس، عجوہ کھجور، پکوڑے، اور رول پر مشتمل ہوتی تھی۔

 

بھائیو اور بہنو! اللہ تعالٰی سے پرخلوص دعا ہے کہ موصوف کے لئے افطاری کا اہتمام کرنا قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

 

سرمایہ کارانہ ذہنیت

 

بھائیو اور بہنو! موصوف کی سرمایہ کارانہ ذہنیت کے کچھ واقعات مشاہدہ اور تجربہ میں آئے ہیں جو کہ ایک مسلمان بننے کے منافی ہیں۔

 

پاکستان سے انگلینڈ روپے ٹرانسفر کروانا

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! منصوبہ: امن کی پکار ہر ماہ توفیق کے مطابق بزنس منیجر کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لئے منی ایکسچینجر کے ذریعے ہدیہ بھیجتا تھا۔ موصوف نے بتلایا کہ پاکستان میں ان کے بنک میں روپیہ ہے جو وہ انگلینڈ ٹرانسفر کرنا چاہتے ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ ان سے گزارش کی گئی کے بہتر یہ ہے کہ جتنا ہدیہ منی ایکسچینجر کے ذریعہ بھیجا جاتا ہے وہ آپ کے انگلینڈ کے بنک اکاؤنٹ میں جمع کروا دیا جائے گا اور آپ پاکستان میں بزنس منیجر کے بنک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیا کریں۔ جو مارکیٹ ریٹ ڈالر ایسٹ کا ہوگا اس ریٹ سے دو روپے کم میں آپ پاکستان میں روپے ٹرانسفر کر دیا کریں۔

 

بھائیو اور بہنو! کچھ عرصہ کے بعد موصوف نے گوگل سے ریٹ دیکھا کو مارکیٹ ریٹ سے 20 روپے کم تھا۔ مختصر یہ کہ کچھ عرصہ تلک موصوف ڈالر ایسٹ مارکیٹ ریٹ سے 20 روپے کم میں پاکستان روپے ٹرانسفر کرتے رہے۔

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ منصوبہ امن کی پکار نے تفتیش کی کہ مارکیٹ ریٹ اور گوگل ریٹ میں اتنا فرق کیوں ہے۔ تفتیش سے پتہ چلا کہ موصوف جو ریٹ بتلاتے ھے وہ بنک ریٹ تھا۔ یعنی بنکوں کی آپس میں ہزاروں لاکھوں کی ٹرانسفر ہوتی رہتی ہے۔ موصوف کو تفتیش ای میل کر دیف گئی، جس کے مطلب یہ تھا کہ آئندہ ڈالر ایسٹ مارکیٹ ریٹ سے 2 روپے کم میں پاکستان روپے ٹرانسفر کئے جاثیں گے۔

 

بھائیو اور بہنو! اگلے ماہ جب ان کو پیغام بھیجا گیا کہ روپے ٹرانسفر کرنے ہیں تو ان کو جواب آیا کہ اب ان کے پاس گنجائش نہیں رہی۔

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ ان سے گزارش کی گئی کہ آپ نے کچھ اپنے لئے بچا کر رکھے ہوں گے۔ آپ پاکستان پیسے ٹرانسفر کروا دیں۔ جب میں بزنس منیجر کو منی ایکسچینجر کے ذریعے بھیجوں گا تو وہ آپ کے پاکستان کے بنک اکاؤنٹ میں ٹراسفر کر دے گا۔

 

بھائیو اور بہنو! ن کا اس بات سے معذرت کرنا کہ ان کے پاس پاکستان میں بچت میں گنجائش نہیں ہے، اس وجہ سے نظر آتی ہے کہ وہ ڈالر ایسٹ مارکیٹ ریٹ اور بنک ریٹ میں جو فرق آ رہا تھا، وہ نقصان برداشت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ان کے معذرت کرنے کے بعد بھی موصوف سے، کم و بیشں پانچ لاکھ روپے اس بنأ پر ٹرانسفر ہو چکے ہیں کہ جب میں ان کے انگلینڈ کے اکاؤنٹ میں اسٹرلنگ ٹرانسفر کرواتا ہوں تو وہ اس بات کا تقاضا نہیں کرتے کہ وہ واپس اسٹرلنگ میرے بنک اکاؤنٹ کرواتے ہیں اور بزنس منجیر روپے ان کے پاکستان کے بنک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دے۔

 

اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرنا

 

بھائیو اور بہنو! عاجز کے بھانجے نے پاکستان سے یہ پیغام بھیجا کہ رائے ونڈ میں غریبوں کے مفت علاج کے ڈاکٹر سروس مہیا کر رہے ہیں اور دوائیاں بھی مفت تقسیم کی جا رہی ہیں لیکن دوائیوں اور مفت علاج کے انتظامات کے لئے سرپرستی کی ضرورت ہے۔ منصوبہ امن کی پکار نے وہ پیغام موصوف کو فارورڈ کر دیا جس کا مطلب تھا کہ وہ ہدیہ بزنس منیجر کو ٹراسفر کر دیں اور بزنس منیجر بھانجے کے بنک اکاؤنٹ میں ٹراسفر کر دے گا۔۔ مختصر یہ کہ موصوف کا پیغام آیا کہ اس ماہ نہیں۔ اگلے ماہ۔ بھائیو اور بہنو! اگلے ماہ انہوں نے ذکر تک نہیں کیا۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف کی سرمایہ کارانہ ذہنیت کا دوسرا واقعہ یہ ہے۔ عاجز نے گھر کی مرمت میں بلڈرز میں £200.00 کمی تھی۔ عاجز کو 500.00£ حکومت سے ملنے کی امید تھی۔ وہ دستاویز موصوف کو دکھائی گئی کہ وہ 200.00£چند دنوں کے لئے قرض دے دیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی تنخواہ اپنے بیٹے کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیتے ہیں۔ مہینے کا آخر تھا۔ ان کو تنخواہ ملنے والی تھی۔ عاجز نے عرض کی کہ تنخواہ ملے گی تو اسمیں قرض دے سکیں گے؟ انہوں فرمایا جس کا مفہوم ہے:-

 

We will see then.

 

بھائیو اور بہنو! تنخواہ ملنے پر انہوں نے پوچھا تک نہیں کہ آیا عاجز کو £200.00 کے قرض کی ضرورت ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف کے علاوہ موصوف کی اہلیہ بھی ملازمت کرتی ہیں اور ان کا چارٹرڈ اکاؤنٹیٹ بیٹا بھی ملازمت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان سے بھی منصوبہ: امن کی پکار کے ذریعے روپے ٹرانسفر کروائے تھے۔

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! عاجز منصوبہ امن کی پکار کے تقاضا سے، کم و بیش، ایک ہفتہ میں تین یا چار بار موصوف کو شام کے وقت لفٹ دیتا ہے۔ لیکن موصوف نے کبھی کار میں ڈیزل ڈلوانے کی آفر نہیں کی۔ تاہم! اگر وہ آفر بھی کرتے تو ان کی آفر منظور نہ کی جاتی۔منصوبہ امن کی پکار کا تقاضا تھا اور ہے کہ اللہ کے راستے میں کسی کی مدد کرنا اس بات کے منافی ہے کہ بندے سے کوئی مالی مدد کی توقع کی جائے۔

 

تحفہ تحائف

 

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ شرعیت کا اصول ہے کہ اگر کسی کو تحفہ ملتا ہے تو موقع بموقع تو وہ اس بندے کو بھی تحفہ دے جس سے آپس کے تعلقات میں مضبوطی جنم لیتی رہتی ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف سال میں دو مرتبہ پاکستان تشریف لے جاتے ہیں۔ عاجز سے تعارف کے بعد جب وہ پہلی مرتبہ پاکستان گئے تھے تو الحمد للہ! بزنس منجیر نے ان کا بہت اکرام کیا جس کا ذکر ہو چکا ہے۔ بزنس منیجر کی باتوں سے پتہ چلا کہ موصوف نے ان کو جو اکرام کیا تھا اور تحائف دئیے تھے اس کا شکریہ ادا نہیں کیا تھا۔ جب موصوف واپس آئے تو انہوں نے عاجز کو بھی شکریہ کے الفاظ نہیں کہے کہ عاجز کے بزنس منیجر نے ان کا کیسے اکرام کیا۔ صرف اتن کہا کو بزنس منیجر نے ان کو بہت اچھا پروٹوکال دیا تھا۔ تاہم! بزنس منیجر کے ایک بچے کو ایک ہزار روپے دئیے تھے۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف دوسری اور تیسر مرتبہ بھی پاکستان گئے۔ اصولی طور پر انہیں بزنس منیجر کے لئے کچھ تحفہ لے کر جانا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ عاجز کے لئے پاکستان سے کوئی تحفہ لے کر آتے۔

 

مسلمان بھائی کی مدد نہ کرنا

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! اوپن ہارٹ سرجری کامیاب ہونے کے بعد عاجز کا قیام، کم و بیش، نو ماہ تلک کئیر ہوم میں رہا تھا۔ موصوف سے تبادلہئ خیالات ہوتا رہتا تھا اور عاجز کی زندگی میں جو آزمائشیں آئیں تھیں اور آنے والی ہیں ان کا بھی ذکر کیا جاتا تھا۔ عاجز کی کمر میں درد بھی مستقل رہتا تھا اور ہے جس کا موصوف مشاہدہ کر رے تھے۔ گھر کی خستہ حالت کا بھی ان کو علم تھا اور تنگدستی کے بھی علم تھا کیونکہ عاجز کی آمدنی کا ذریعہ صرف اسٹیٹ پینشن تھی اور ہے۔موصوف کو یہ بھی بتلایا گیا کہ الحمد للہ! زندگی اللہ کا پیغام بین الاقوامی سطح پر اللہ کا پیغام پہنچانے کے ئے وقف ہو چکی ہے اور ان کو ویب سائٹس کا مشاہدہ بھی کروایا گیا تھا۔

 

آئیں تھیں اور آنے والی ہیں ان کا بھی ذکر کیا جاتا تھا۔ عاجز کی کمر میں درد بھی مستقل رہتا تھا اور ہے جس کا موصوف مشاہدہ کر رے تھے۔ گھر کی خستہ حالت کا بھی ان کو علم تھا اور تنگدستی کے بھی علم تھا کیونکہ عاجز کی آمدنی کا ذریعہ صرف اسٹیٹ پینشن تھی اور ہے۔موصوف کو یہ بھی بتلایا گیا کہ الحمد للہ! زندگی اللہ کا پیغام بین الاقوامی سطح پر اللہ کا پیغام پہنچانے کے ئے وقف ہو چکی ہے اور ان کو ویب سائٹس کا مشاہدہ بھی کروایا گیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے اپنے کلام قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے جس کا مفہوم ہے کہ اہل ثروت ایسے اللہ کے بندوں کی سرپرستی کریں جن کی زندگی اللہ کے راستے کی تلاش میں گزر ری ہے اور وہ کسی سے سوال نہیں کرتے:-

 

ترجمہ سورۃالبقرۃآیت نمبر 273

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ لا یستطیعون ضرباً فی الارض ز یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف ج تعرفہم بسیمٰھم ج لا یسئلون الناس الحافا ط وما تنفقوا من خیر فان اللہ بہ علیم۔

 

سرپرستی ان بندوں کے لئے جو رکے ہوئے ہیں اللہ کی راہ میں چل پھر نہیں سکتے ملک میں ز سمجھے ان کو ناواقف مالدار ان کے سوال نہ کرنے سے ج تو پہچانتا ہے ان کو ان کے چہرہ سے ج نہیں سوال کرتے لوگوں سے لپٹ کر ط اور جو کچھ خرچ کرو گے کام کی چیز وہ بیشک اللہ کو معلوم ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! مندرجہ بالا آیت کے مفہوم کے مطابق موصوف کی یہ اخلاقی ذمہ داری تھی کہ وہ خود سے منصوبہ امن کی پکار کی بطور ہدیہ یا بطور قرض حسنہ سرپرستی کی آفر کرتے لیکن نفس اور شیطان کے زیر اثر ایسا نہیں ہوا۔

 

بھائیو اور بہنو! جب عاجز اپنے خستہ حال گھر میں رہنے کے لئے چلا گیا تو اسے قابل رہائش بنانے کے لئے کام کرنے کی اور کروانے کی ضرورت تھی وگرنہ کونسل والے اس گھر میں رہنے کی اجازت نہ دیتے۔ جو کام بلڈرز کا تھا وہ تو الحمد للہ! کروا لیا گیا۔ لیکن کچھ کام بذات خود کرنا تھا۔ مثلاً: دیواروں سے کاغذ کو اکھاڑنا، دیوارں کو کھرچنا، دیوارں کو پینٹ کرنا وغیرہ، گند وغیرہ کو فرشوں سے صاف کرنا۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! موصوف کو، کم و بیش،روزانہ ان کے گھر تلک لفٹ دی جاتی تھی اور ان کو اپنی کارگزاری کے متعلق خبردار بھی کیا جاتا تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی اس بات کی آفر نہیں کی تھی کہ وہ بھی چھٹی کے دن آکر عاجز کی گھر کی بحالی میں مدد کریں گے۔ موصوف کی ہفتہ میں تین چھٹیاں ہوتی تھیں اور ہیں۔

 

موصوف کے دوست احباب کا حلقہ

 

بھائیو اور بہنو! حیرانگی کی بات ہے کہ موصوف کا انگلینڈ میں کوئی حلقہ احباب نہیں ہے اور نہ کوئی رشتہ دار ہے۔ اس بات کا اس وقت پتہ چلا کہ جب عاجز کئیر ہوم میں تھا اور عید الفطر منائی گئی۔ اس روز موصوف نے چھٹی لی تھی۔ عید کے بعد موصوف سے دریافت کیا کہ عید کیسے منائی؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کی اہلیہ نے مشورہ دیا تھا کہ گھرمیں بیٹھے عید کے دن بور ہوں گے، اس لئے باہر چلتے ہیں۔ موصوف نے بتلایا کہ پوری فیملی بذریعہ کار شیفیلڈ گئی تھی، جس جگہ رہائش پذیر تھے، ان جگہوں کی زیارت کی، ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا اور پھر واپس آگئے۔ عاجز نے تاثر پیش کیا کہ شیفیلڈ میں پرانے ہمسائیوں سے ملاقات ہوئی ہوگی؟ انہوں نے بتلایا کہ شیفیلڈ میں بھی ان کا کوئی حلقہ احباب نہیں تھا۔

 

بھائیو اور بہنو! قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اہلیہ اور صاحبزادوں کا بھی محدود حلقہ احباب ہے جو کہ گھر سے باہر ہی ہے۔ ان کے گھر میں کسی کا آنا جانا نہیں ہے۔

 

موصوف کی فیملی کا آپس میں رابطہ اور تعلق

 

بھائیو اور بہنو! قرائن اور مشاہدہ سے نظر آتا ہے کہ موصوف کی فیملی کا آپس میں ایک دوسرے کا سے بھی بہت کم تبادلہئ خیالات ہوتانظر آتا ہے۔

 

    موصوف بھی کئیر ہوم میں ملازمت کرتے تھے اور ہیں اور ان کی ڈیوٹی کے اوقات سے شام ہیں۔ بعض اوقات انہیں رات کی ڈیوٹی بھی سرانجام دینی ہوتی ہے جس کے اوقات شام تک ہوتے تھے اور ہیں۔ کئیر ہوم تک پہنچنے کی صبح کو تیاری اور ٹرویلنگ ٹائم اور شام کو گھر پہنچنے کے بعد تھکاوٹ کہ دور کرنے کے لئے نہانے اور کپڑے تبدیل کرنے کے مزید چار گھنٹے ملا کر موصوف کا رابطہ چار دن 16 گھنٹے فیملی کے ممران سے نہیں ہوتا۔

 

٭موصوف کی اہلیہ بھی کسی خدمت گار ادارے میں ہی ملازمت کرتی ہیں۔ ان کے ڈیوٹی کے اوقات معلوم نہیں ہیں۔ جب عاجز شام کو موصوف کو ان کے گھر تک لفٹ دیتا ہے تو کبھی ان کی اہلیہ کی کار نظر آتی ہے کبھی نہیں آتی۔

 

  • ٭موصوف کا بڑا صاحبزادہ چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہے۔ وہ بھی ملازمت کرتا ہے۔

 

٭موصوف کا چھوٹا صاحبزادہ کالج میں تھا۔ الحمد للہ! اب اس کا کالج ختم ہو چکا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! قرائن سے نظر آتا ہے کہ چونکہ ہر فیملی ممبر کے ڈیوٹی کے اوقات مختلف ہیں، اس لئے آپس میں تبادلہئ خیالات کا وقت بہت کم ملتا نظر آتا ہے کیونکہ ہر فیملی ممبر اپنی ڈیوٹی ادا کر کے تھکا ہوا ہوتا ہے اور اپنے کمرے میں آرام کرنا چاہتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف کی فیملی کی ایک بات بہت حیران کن ہے کہ ان کی اہلیہ اور ان کے بڑے صاحبزادے کے پاس کاریں ہیں لیکن موصوف سردی ہو یا گرمی، بارش ہو رہی ہو یا برفباری یا تیز ہوا چل رہی ہو۔ موصوف صبح پیدل ہی کئیر ہوم جاتے ہیں اور شام کو اگر کسی سٹاف ممبر سے لفٹ نہ ملے تو پیدل ہی تین میل سے زائد کا فاصلہ طے کر کے گھر پہنچتے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ موصوف کو ان کی اہلیہ یا ان کے صاحبزادے نے ان کو نا مساعد موسم میں لفٹ دی ہو۔

 

موصوف کا اپنے فیملی ممبرز سے عاجز کا غائبانہ تعارف نہ کروانا

 

بھائیو اور بہنو! اس بات کا احساس اس وقت ہوا کہ جب ایک مرتبہ جمعہ کے روز موصوف کو ان کے گھر سے لینے کے لئے عاجز آیاتھا تو ان کا چھوٹا بیٹا بھی ان کے ساتھ تھا۔ موصوف کے بیٹے نے مجھ سے دریافت کیا کہ عاجز کی ان کے والد سے ملاقات کیسے ہوئی؟اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف کے صاحبزادے کو عاجز کا غائبانہ تعارف نہیں کروایا گیا تھا۔

 

بھائیو اور بہنو! اسی طرح قرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف نے اپنی اہلیہ سے بھی عاجز کا تفصیلی طور پر غائبانہ تعارف نہیں کروایا تھا۔ کبھی کبھار جو گھر کا پکا ہوا سالن لے کر موصوف اس کے متعلق اتنا ہی بتلایا ہو گا کہ کئیر ہوم میں ایک مسلمان ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! چونکہ موصوف نے عاجز کا تفصیلی طور پر اپنی اہلیہ سے تعارف نہیں کروایا تھا کہ الحمد للہ! عاجز کی زندگی بین الاقوامی سطح پر اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے مختص ہو چکی ہے، اسی لئے انہوں نے اہلیہ کو جو وضاحتی خط لکھا تھا اس کو ان کی ای میل پر فارورڈ نہیں کیا اور نہ ہی ان کو تحائف کا بیگ دیا گیا۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ ایک بندے کو تحائف ملیں اور وہ اس کا شکریہ ادا نہ کرے۔ موصوف نے جو بتایا تھا کہ انہوں نے وضاحتی خط پڑھ لیا تھا اور وہ خط اہلیہ کو ای میل کر دیا تھا اور یہ کہ ان کو عبایا بہن فٹ آئی تھی جیسے ان کے لئے ہی بنائی گئی ہے، حقیقت پر مبنی نظر نہیں آتا۔

 

شرعی علم کے حصول سے بیگانگی نظر آتی ہے

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! بطور پرنسپل امن کی پکار عاجز کا دین اسلام کا علم، انفرادی اور اجتماعی طور پر، بتلانے کے لئے باتوں باتوں میں ایسا موقف اختیارکر لیتا ہے کہ دوسرے فریق کے علم میں اضافہ ہو۔ اگر دوسرے فریق کو علم ہے تو اس علم کی دہرائی ہو جائے گی۔ اگر دوسے فریق کوعلم نہیں تو اس کے علم میں اضافہ ہو جائے گا۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! عاجز موصوف کو باتوں باتوں میں، کئیر ہوم میں اور ان کو ان کے گھرتلک لفٹ دیتے ہوئے دین کا علم، اللہ کی توفیق سے، گوش گزار کرتا رہتا تھا اور کرتا رہتا ہے اور موصوف سنتے بھی تھے اور ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنی طرف سے کبھی کوئی بات شیئر نہیں کی۔ بعض اوقات یہ کہہ دیتے تھے کہ آپ کی باتیں سن کر بڑا مزہ آیا۔

 

بھائیو اور بہنو! ایک مرتبہ موصوف نے ذکر کیا کہ ان کا چھوٹا بیٹا قرآن پاک کا نسخہ خرید کر لایا ہے۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے اس قرآن کے نسخہ کا معائنہ کیا ہے جس کا جواب نفی میں تھا۔ ان سے عرض کی گئی کہ آپ اس قرآن کے نسخہ کا معائنہ کریں کہ آیا وہ نسخہ عربی زبان میں اور ترجمہ انگریزی زبان میں ہے۔ دوسرے یا تیسرے روز موصوف سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے قرآن کے نسخہ کا معائنہ کیا؟ ان کے جواب میں کچھ الجھن نظر آئی۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ انہوں نے قرآن پاک کے نسخہ کا معائنہ کیا ہے یا نہیں۔ تاہم! اتنا بتلایا کہ ان کو صاحبزاہ اسلام کے متعلق جاننا چاہتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف سے عرض کی گئی کہ قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنے سے دین اسلام کے علوم کا علم نہیں ہو سکتا۔ آج کے دور میں فرقہ اہل قرآن ویب سائٹ یو ٹیوب پر صرف قران کے ظاہر ی ترجمہ کو لیتے ہیں اور حدیث اور تاریخ کا انکار کرتے ہیں اور وہ لوگوں کو خود قرآن پاک کا ترجمہ پڑھ کر دین اسلام کو سمجھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے صاحبزادے ان کے ویڈیو دیکھ کر اور سن کر قرآن کا نسخہ خرید کر لائے ہوں۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف کو یہ بھی بتلایا کہ علمائے کرام کے مطابق صرف قرآن کا ترجمہ قرآن نہیں کہلا سکتا۔ قرآن عربی زبان میں ہے اور اللہ کا کلام ہے۔ تراجم مختلف ہو سکتے ہیں اور ان کی تفسیر مختلف ہو سکتی ہے۔ اس لئے قرآن کا نسخہ عربی اور ترجمہ کے ساتھ ساتھ ہونا ضروری ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! موصف سے عرض کی گئی کہ اگر آپ کا صاحبزادہ دین سلام کے بنیادی اصول و ضوابط جاننا چاہتا ہے تو آپ اسے ویب سائٹ:-

 

www.cfpislam.co.uk

کا جائزہ لینے کی ترغیب دیں۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف نے حامی بھر لی۔ ان کو ویب سائٹ کی شناخت ای میل کر دی گئی اور انہوں نے وصولی کی اطلاع دی تھی۔

 

بھائیو اور بہنو! دوسرے یا تیسرے روز موصوف سے دریافت کیا کہ آیا انہوں نے ویب سائٹ:-

 

www.cfpislam.co.uk

کا مطالعہ کیا ہے؟

 

بھائیو اور بہنو! موصوف کا جواب نفی میں تھا اور کہا کہ آج کروں گا۔غالباً اگلے دن ان کی چھٹی تھی۔ لیکن نہ موصوف نے بتلایا اور نہ ہی عاجز نے ان سے دریافت کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ موصوف نے اپنے چھوٹے صاحبزادے کو بھی ویب سائٹ کا جائزہ لینے سے متعلق نہیں بتلایا ہوگا۔

 

عیدین کے تہواروں کو رسمی طور پر منانا

 

بھائیو اور بہنو! قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ موصوف کی فیملی رسمی طور پر ہی عیدین کے تہواروں کو مناتی ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! عید الفطر جو کئیر ہوم میں عارضی قیام کے دوران آئی تھی اس کے متعلق ذکر کیا گیا ہے کہ موصوف کی فیملی شیفیلڈ چلی گئی تھی اور ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا تھا۔

 

بھائیو اور بہنو! عیدالضحٰے بھی کئیر ہوم میں قیام کے دوران ہی آئی تھی۔ جمعہ کے بیان میں خطیب صاحب نے عید الصحے پر قربانی کے ضمن میں مسئلہ بتلایا کہ ایک گھر میں ہر صاحب نصاب پر قربانی کرنا واجب ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! جمعہ مبارک کی نماز کے بعد موصوف سے عرض کی گئی کہ آپ کی فیملی میں تین قربانیاں واجب ہیں۔ آپ یہ قربانیاں کس طرح کرتے ہیں؟ آیا انلگینڈ میں یا پاکستان میں پیسے بھیجتے ہیں؟

 

بھائیو اور بہنو! موصوف نے بتلایا کہ وہ اپنی قربانی کے لئے پاکستان بھائیوں کو پیسے بھیج دیتے ہیں اور قربانی کا گوشت ضرورت مندوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف سے دریافت کیا گیا کہ آپ کی اہلیہ اور صاحبزادے کس طرح قربانی کرتے ہیں۔ انہوں بتلایا کہ انہوں نے ان کی قربانی کے متعلق بتلا دیا ہے۔ اب ان کی مرضی قربانی کریں یا نہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی تنظیم کو قربانی کے پیسے دے دیتے ہوں کہ ان کی طرف سے قربانی کر دی جائے۔

 

بھائیو اور بہنو! اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف کے فیملی ممبرز کا آپس میں ایک اہم تہوار سے متعلق مشورہ نہیں ہوتا۔الحمد للہ! عیدین کے تہوار تو ایسے ہیں کہ ان کی تیاری جوش و خروش سے کی جاتی ہے۔ اگر گھر میں ہی عید منائی جائے تو اجھے اچھے پکوان پکتے ہیں، ہمسائیوں سے پکوانوں کا تبادلہ ہوتا ہے،پڑوسی جو کسی وجہ سے معذور ہے اس کے گھر پکوان بھیجے جاتے ہیں تاکہ وہ کسی محرومی کا شکار نہ ہو۔

 

بھائیو اور بہنو! جب عاجز اپنے گھر میں منتقل ہو گیا تو عید الفطر بھی آئی اور عید الضحے بھی آئی۔ ذکر کیا گیا ہے کہ رمضان المبارک میں موصوف کو افطاری کا سامان بھی دیا جاتا رہا۔ قدرتی طور پر توقع تھی کہ موصوف کے گھر میں عیدین کے روز پکوان پکے ہوں گے، اور اس بات کے پیش نظر کہ عاجز نے اللہ تعالٰی کی توفیق سے موصوف کے لئے افطاری کا اہتمام بھی کیا تھا اور پھر مسلمان نظر آنے کے لئے تحائف بھی بھیجے تھے، تو موصوف اپنی اہلیہ کے ساتھ عید کے روز عاجز کے گھر عید کی مبارک باد دینے اور تحائف کا شکریہ ادا کرنے کے لئے تشریف لائیں گے اور ساتھ میں پکوان بھی ہوں گے۔ ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ اگر کسی وجہ سے عید کے روز نہ گھر سے نکل سکیں تو پکوان فریز کر دئیے جائیں اور عید کے بعد دے دئیے جائیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی عید الضحٰے پر ایسا ہوا۔ اصولی طور پر موصوف اور ان کی اہلیہ کے علم میں تھا کہ عاجز معذور بھی ہے اور اکیلا بھی۔

 

بھائیو اور بہنو! قرائن سے معلوم ہوتا کہ موصوف کی فیملی کے لئے عیدین کے تہوار بھی عام دنوں کی طرح ہوتے ہیں اور ان کے لئے اہتمام کرنا ضروری نہیں۔ یا پھر انہوں نے عاجز کو اس قابل نہیں سمجھا کہ بطور پڑوسی کے اس کا بھی فیملی والوں پر حق ہوتا ہے۔ بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ پڑوسی صرف وہ نہیں ہوتا جو گھر کے گرد و نواح میں ہو۔ وہ بندہ بھی پڑوسی ہوتا ہے جو دور رہتا ہو لیکن معذور یا اکیلا ہو اور موصوف اور ان کی اہلیہ اس بات سے خبردار تھے کہ عاجز معذور بھی ہے اور اکیلا بھی اور کبھار کبھار وہ سالن یا چاول وغیرہ بھی بھیجتے تھے۔

 

موصوف کی مزاجی کیفیت

 

بھائیو اور بہنو! عاجز انفارایشن ٹیکنالوجی سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتا۔ عاجز کے پاس کئیر ہوم میں ڈیسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ تھا۔ کئیر ہوم کے سٹاف کی ایک بچی نے عاجز کے ڈیسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ میں وٹس اپ انسٹال کر دیا تھا۔ جب کبھی کو ایشو ہوتا تو وہ بچی اس کا حل کر دیتی تھی۔

 

بھائیو اور بہنو! عاجز جب اپنے گھر میں منتقل ہوا تو وٹس اپ نے کسی ڈیوائس کا تقاضا کیا جس کا عاجز کو علم نہ تھا۔ مختصر یہ کہ موصوف سے دریافت کیا گیا کہ کیا وہ بچی ڈیوٹی پر ہے۔ انہوں نے بتلایا ہے ہے۔ عاجز نے عرض کی کہ میں کئیر ہوم آ رہا ہوں تاکہ اس بچی سے مسئلہ کا حل ہو جائے۔

 

بھائیو اور بہنو! عاجر گھر سے تیار ہو کر کئیر ہوم جانے کے لئے گھر سے باہر نکلا تو موصوف کا فون آیا کہ عاجز کئیر ہوم نہ آئے کیونہ ہوم منیجر نے منع کر دیا ہے۔ عاجز نے موصوف سے کہا کہ ہوم منیجر سے بات کروائی جائے۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ میٹنگ میں ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ عاجز نے موصوف سے دو تین مرتبہ درشتی سے کہا کہ آپ کو ہوم منیجر کو بتلانے کی کیا ضرورت تھی۔ موصوف نے بہت غصہ سے جواب دیا:-

 

Don’t Shout at me. Don’t Shout at me.

اور فون دھڑام سے بند کر دیا۔

 

بھائیو اور بہنو! رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ عاجز کو احساس ہوا کہ عاجز کی طرف سے زیادتی ہو گئی لگتی ہے۔ عاجز نے ان کو مندرجہ ذیل ای میل بھیجی:-

 

برادرم

 

السّلام علیکم

 

معذرت خواہ ہوں کہ اپنی اوقات کو نفس نے بھلا دیا تھا اور آپ کی شان میں بے ادبی ہوگئی۔ امید ہے آپ درگزر فرمائیں گے۔

 

بھائیو اور بہنو! مووف کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔

 

بھائیو اور بہنو!رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور ان کو الحمد للہ! افطاری دی جاتی تھی۔عاجز ہوم کئیر پہنچ کر موصوف کو فون کرتا تھا۔ وہ باہر آتے اور افطاری لے جاتے تھے۔

 

بھائیو اور بہنو! جس روز یہ واقعہ ہوا تو عاجز موصوف کے لئے افطاری لے کر گیا۔ ان کو تین بار فون کیا لیکن لگتا ہے کہ انہوں نے فون سائلینٹ پر کر دیا۔ اگر وہ کسی وجہ سے مصروف تھے تو وہ عاجز کوکال بیک کرتے۔ تاہم! عاجز افطاری ریسیپشن کے باہر رکھ آیا اور موصوف کو ٹیکسٹ میسیج کردیا کہ افطاری ریسیپشن کے دروازے کے قریب رکھ دی ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف کا فون نہیں آیا۔ عاجز نے ہی فون کیا تھا کہ ان کو جمعہ کی نماز کے لئے ان کے گھر سے لینے آؤں گا۔ تب انہوں نے فون اٹھایا۔ جمعہ کی نماز کے لئے موصوف نے کوئی بات نہیں کی جبکہ ان کا اخلاقی فرض تھا کہ جیسا کہ ان سے معذرت کی تھی۔

 

بھائیو اور بہنو! موصوف عاجز سے کم عمر ہیں۔ عاجز کی عمر 77 سال ہے اور موصوف کی عمر 50 سال ہوگی۔ ایک طرح سے موصوف میرے بیٹے کی طرح ہیں گو ان سے کہا گیا تھا کہ گو عاجز عمر میں اس سے بڑا ہے لیکن موصوف کو عاجز بڑے بھائی کی حیثیت دیتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! عمر میں فرق کے تقاضے سے موصوف کو نرمی سے کام لینا چاہیے تھا۔

 

حج کی ادائیگی کو ملتوی کر دینا

 

بھائیو اور بہنو!! جب عاجز کئیر ہوم میں تھا اور عید الضحٰے کی آمد تھی تو عاجز نے ان سے دریافت کیا کہ آیا انہوں نے حج ادا کرنے کی سعادت حاصل کر لی ہے جس کا جواب نفی میں تھا۔ لیکن بتلایا کہ اگلے سال اہلیہ کے ساتھ حج کی ادائیگی کا ارادہ ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! امسال کی ابتدأ میں موصوف سے دریافت کیا کہ کیا حج کی تیاری ہو رہی ہے؟ موصوف نے بتلایا کہ اس سال ارادہ ملتوی اس وجہ سے سے کردیا ہے کہ ان کے ساتھی ہندو مذہب کے کئیر ورکر کی بیٹی کی شادی ہے۔ اس کو قرض دے دیا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! حالات حاضرہ میں ایک بندے کے حج کے اخراجات کم از کم 5،000.00£ہوتے ہیں۔ تو دو بندوں کے اخراجات10،000.00 £ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ اتنا پیسا موصوف کی ڈسپوزل پر تھا جو انہوں نے رسم و رواج کی پابندی کو حج کی ادائیگی سے نعوذ باللہ! افضل سمجھا۔ بھائیو اور بہنو! آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آج کے دور میں شادیوں پپر جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالٰی کی نافرمانیوں سے بھرپور ہوتا ہے۔

 

لب لباب

 

بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! منصوبہ: امن کی پکار کا مقصد یہ نہیں کہ موصوف کی شخصیت و کردار کا جائزہ اس لئے لیا گیا ہے کہ قاری حضرات کے نظر میں موصوف کی قدر و قیمت کم ہو جائے۔ بلکہ اس لئے لیا گیا ہے اور ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے کہ قائرین اس مضمون کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی شخصیت و کردار کا جائزہ لیں کہ ان کا اپنا اخلاقی کردار کیا ہے اور انہیں بھی کس پہلو میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ نیز موصوف کے لئے دعا گو رہیں کہ اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی اصلاح کی کوشش فرمائیں۔

 

دعاؤں میں یاد رکھیں

 

والسّلام

 

نصیر عزیز

 

پرنسپل امن کی پکار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll Up