4مضمون – پارٹ

عیدین کے تہوار

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عیدالفطر کا دن مؤمنین کے لئے خوشی کا دن ہے کہ رمضان المبارک کے روزے خلوص دل سے رکھنے کی وجہ سے اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے مؤمینین کے گناہ معاف فرماتے رہتے ہیں۔ عید الفطر کی رات بھی اللہ تعالٰی سے توبہ و استغفار کرتے رہنے کی رات ہے کیونکہ جب جب مؤمنین عید الفطر کی نماز ادا کرتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے تو اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے گناہوں کی معافی کا پروانہ جاری فرماتے ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسے بھی شخص بھی ہو سکتے ہیں جن کے گناہ رمضان المبارک میں معاف نہ ہوسکے ہوں تو وہ عید کی رات کو معاف کروا سکیں۔ مثلاً: حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ لیلۃ القدر کی رات کو اللہ تعالٰی اپنے فضل وکرم سے تمام مؤمنین کے گناہ نہ صرف بخش دیتے ہیں بلکہ گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل فرما دیتے ہیں بجز چار اشخاص کے

 

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے:

 

ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو،

دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو،

تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا ہو اورناطہ توڑنے والا ہو،

چوتھا وہ شخص جو کینہ رکھنے والا ہو۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ جن کو لیلۃ القدر میں بھی اللہ تعالٰی سے معافی کا پروانہ نہیں مل سکا ان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی نافرمانیوں سے توبہ و استغفار کریں اور خود کو ان مؤمنین میں شامل کر لیں جنہیں اللہ تعالٰی نے اپنے فضل وکرم سے معاف کر دیا ہے۔

 

عید الفطر

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ عید کے روز اچھے اچھے پکوان پکتے ہیں، اچھے اچھے کپڑے پہنے جاتے ہیں، رشتہ داروں اور دوست احباب سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، تحفے تحائف آپس میں لئے دئیے جاتے ہیں، محتاجوں، یتیموں، مسکینوں کی سرپرستی کی جاتی ہے، وغیرہ۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عید الفطر کے تہوار کو شرعیت کی پابندیوں
کے ساتھ منانا اگلی نسل کو عید الفطر کے تہوار کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! الحمد للہ !آپ کے شوہر وقتً فوقتًا کھانا لے کر آتے تھے۔ امید ہوئی کہ آپ کے شوہر عید کے روز یا دوسرے دن عید کے روز جو کھانا پکا ہوگا اس میں سے لے کر آئیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عید الفطر کے بعد آپ کے شوہر سے ملاقات ہوئی تو میں نے دریافت کیا کہ عید کیسے منائی؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ! انہوں نے جواب دیا جس کا مفہوم ہے

 

آپ کی بھابی نے کہا کہ ہمارا کوئی ملنے والا نہیں جو ہمارے گھر میں آ سکے یا ان کے گھر میں جا سکے۔ گھر میں بیٹھے بور ہوں گے۔ اس لئے کہیں باہر چلتے ہیں۔ چنانچہ ہم بچوں کے ساتھ شیفیلڈ چلے گئے جہاں پر ہم انگلینڈ میں آنے کے بعد ابتدائی دنوں میں رہے تھے۔ وہاں پر جا کر محلے والوں سے ملاقاتیں کی اور پھر ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا اور شام کو گھر واپس آ گئے۔

 

عید الضحٰے

 

محترمہ بھابی صاحبہ! آپ کے شوہر نے میرے ساتھ بولٹن کی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنی شروع کی۔ عید الضحٰے سے دو ہفتہ پیشتر خطیب صاحب نے مسئلہ بتلایا کہ ہر صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے۔ یعنی اگر ایک گھر میں جتنے کمانے والے ہیں اور ان میں سے جتنے صاحب نصاب ہیں ان پر قربانی واجب ہے۔ واجب کو ادا نہ کرنے والا گنہگار ہوتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! ایک روز آپ کے شوہر سے ذکر ہوا کہ آپ کے اہل و عیال پر تین قربانیاں واجب ہیں: آپ، آپ کی اہلیہ اور آپ کا بیٹا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اپنی حصہ کی قربانی کے پیسے پاکستان بھیج دئیے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کی اہلیہ اور بیٹے کا کیا ارادہ ہے۔ کیا وہ انگلینڈ میں قربانی کریں گے؟ ان کے جواب سے ظاہر ہوا کہ غالباً وہ اس وجہ سے قربانی نہیں کرتے کہ گھر کے سربراہ کی طرف سے قربانی ہو گئی تو سب کی طرف سے ہو گئی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے جمعہ کے خطبہ میں قربانی شے متعلق مسئلہ سنا تھا اور میرا خیال تھا کہ آپ نے اہلیہ اور بیٹے کو بتلایا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بتلا دیا تھا۔ اب یہ ان کی مرضی کے وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ اللہ کی توفیق سے اصرار کیا کہ آپ ان کو مشورہ دیں کہ وہ قربانی انگلینڈ میں کریں۔ ان کو مشورہ دینے میں کہ وہ قربانی انگلینڈ میں کریں یہ وجہ تھی کہ ان کے گھر سے وقتا فوقتاً جو کھانا گزشتہ چارہ ماہ سے آتا تھا وہ چکن، سبزی یا دال ہوتی تھی۔ گوشت کا سالن غالباً ایک مرتبہ آیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ گوشت چونکہ بہت زیادہ مہنگا ہو چکا ہے یعنی دس سے پندرہ پاؤنڈ کلو جس کی وجہ سے آجکل گوشت پکانے میں پرہیز کی جاتی ہے۔ میں نے اللہ کی توفیق سےمشورہ دیا کہ گوشت انسان کی صحت و تندرستی کے لئے لازمی ہے۔ شرعیت نے یہ بھی گنجائش رکھی ہے کہ صاحب نصاب سارا گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے اگر وہ ایسے لوگوں کا نہ جانتا ہو جن کو قربانی کا گوشت شرعیت نے دینے کی اجازت دی ہے۔ آپ اس گوشت کو فریز کر کے رکھ سکتے ہیں اور سارا سال کھا سکتے ہیں۔ اس طرح سے واجب بھی ادا ہو جائے گا اور گھریلو اخراجات میں کمی ہو جائے گی کیونکہ مہنگائی کا دور ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! آپ کے شوہر نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ صرف اتنا کہا کہ شاید ان کی اہلیہ اور بیٹا کسی ایسی تنظیم کو پیسے بھیج دءیے ہوں جو غیر ترقی یافتہ ممالک میں غربأ کے لئے قربانی کا گوشت تقسیم کرتی ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! یہ تو ظاہر ہے کہ آپ نے اور آپ کے صاحبزادے نے انگلینڈ میں قربانی نہیں کی۔ ہو سکتا ہے آپ اور آپ کے صاحبزادے نے پیسے کسی قربانی کرنے کے لئے تنظیم کو بھیج دئیے ہوں۔ واللہ اعلم۔ اگر بھیج دئیے ہوں تو اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ آپ کی قربانی قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ علماۓ کرام فرماتے ہیں کی اگر واجب الادا قربانی کسی وجہ سے نہیں کی جا سکی تو اتنی قربانیوں کا مال صدقہ کر دیا جاۓ۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! اللہ کی توفیق سے جو آپ کے شوہر کو مشورہ دیا اور آپ کو یہ تفصیل لکھی ہے وہ شرعیت کی رو سے لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کے رزق میں برکت فرمائے۔

 

لب لباب

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ روز مرہ کی زندگی کو شرعیت کے مطابق گزارنے کے ساتھ اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کرنے کا یہ بھی حصہ ہے کہ اولاد کو اسلامی تہواروں سے متعلق بھی بتلایا جائے اور ان تہواروں کو اس طرح منایا جائے جس طرح شرعیت نے اجازت دی ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! ہو سکتا ہے نفس اور شیطان جو کچھ اللہ کی توفیق سے لکھا گیا ہے وہ آپ کے نفس پر بھاری ہو جس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ تاہم! جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بطور پرنسپل امن کی پکار لکھا گیا ہے۔

 

اللہ کی برکتوں اور رحمتوں کا رک جانا

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی پاک ہیں، بے عیب ہیں

 

سورۃ الحشر آیت نمبر 24 – 22

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

الملک القدوس السلٰم المؤمن المھیمن العزیز الجبارالمتکبر ط

 

وہ بادشاہ ہے پاک ذات سب عیبوں سے سالم امان دینے والا

پناہ میں لینے والا زبر دست دباؤ والا صاحب عظمت ط

محترمہ بھابی صاحبہ! اللہ تعالٰی پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے:

 

سورۃالتوبہ آیت نمبر 108

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

فیہ رجال یحبون ان یتطھرو ط

واللہ یحب المطھرین۔

 

۔۔۔۔۔۔۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو دوست رکھتے ہیں پاک رہنے کوط

اور اللہ دوست رکھتا ہے پاک رہنے والوں کو۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول انہی لوگوں پر ہوتا ہے جو پاک رہتے ہیں۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ اگر اس کے جسم یا گھر کے کسی حصہ میں گندگی لگی ہو یا ناپاک ہو تو اس کے دل میں کراہت جنم لیتی ہے اور جب تلک گندگی یا نا پاکی دور نہ ہو جائے اس وقت تلک کراہت دور نہیں ہوتی اور دماغ صحیح طور پر کام نہیں کر سکتا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!جب بندے کے جسم کے کسی حصہ میں ناپاکی لگ جاتی ہے یا ناپاکی نکل آتی ہے مثلاً:بلیڈر یا پیٹ خالی ہوا، جنبی حالت میں ہوا، تو جب تلک نجاست کو دھویا نہ گیا اور ہاتھ صابن سے دھوئے نہ گئے اس وقت تلک بندہ ناپاکی کی حالت میں ہوتا ہے اور اللہ کے رحمتیں اور برکتیں رکی رہتی ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! اللہ تعالٰی نے کچھ جانور انسان کے امتحان کے لئے بھی پیدا کئے ہیں جو فطرتاً ناپاک ہوتے ہیں اور ان کا گھر میں رکھنا یا پالنا اللہ کی رحمتوں کو روک دیتا ہے۔ بلا شبہ ہر جانور کا انسانوں پر حق ہے کہ ان کی دیکھ بھال کریں اور ان کے رزق کا انتظام کریں۔ روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مملکت کے سربراہ کی ذمہ داریوں سے عوام کو آگاہ کیا کرتے تھے جس کا مفہوم ہے:

 

اگر دریائے فرأت کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا

تو روز محشر میں عمر اس کا اللہ کی بارگاہ میں جواب دے ہوگا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! ایک مرتبہ آپ کے دولت کدہ پر بلا اطلاع کے آپ کے شوہر سے ملنے کے لئے آنا پڑا تھا۔ بلا اطلاع اس لئے کہ میرے پاس آپ کے شوہر کا فون نمبر نہ تھا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! آپ کے گھر میں کتا نظر آیا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! کتے کے ضمن میں ایک واقعہ اور ایک حدیث ذہن میں آئی:

 

واقعہ

 

مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ اور چند علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبأ ریل کے ایک ڈبے میں ہی سفر کر رہے تھے۔ طلبأ مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کو پہچانتے نہ تھے۔

 

طلبأ نے چھیڑ خانی کے لئے مولانا سے ایک سوال کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ تعالٰی نے کتے کو پیدا کیا۔ کتا بہت وفادار جانور ہے۔ مالک کے اشارہ پر دم ہلاتا ہوا اس کا ہر حکم مانتا ہے۔ حدیث میں کتے کو گھر میں رکھنے اور پالنے سے کیوں منع کیا گیا ہے؟

 

مولانا نے ذہن میں آیا کہ اگر طلبأ کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں بتلاؤں گا تو ایک لمبی بحث چھڑ سکتی ہے۔ مولانا نے کہا جس کا مفہوم ہے:

 

کتا اپنی ہی نسل کو سامنے دیکھ کر بھونکتا ہے۔

اس لئے کتا جس گھر میں بھی ہوگا، گھر کے مکینوں میں

کتے کی فطرت پیدا ہو سکتی ہے۔

 

طلبأ کی سمجھ میں بات آ گئی اور انہوں نے ارادہ کر لیا کہ وہ کتے کو نہیں پالیں گے۔

 

حدیث

 

خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ اس گھر میں فرشتوں کا گزر نہیں ہوتا جس گھر میں کتا ہو۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! کتا چونکہ ناپاک ہوتا ہے اس لئے اس کے جسم سے جو ناپاکی کے اثرات خارج ہوتے رہتے ہیں وہ گھر کی فضا کا حصہ بنتے رہتے ہیں جو آکسیجن کے ساتھ مل جاتے ہیں اور جسم کے اندر جذب ہوتے رہتے ہیں۔ جب کتا گھر کے اندر پرورش پاتا ہے تو اس کے کھانے کا برتن علحیدہ ہوتا ہے جو اس کی زبان لگنے سے ناپاک ہو جاتا ہے۔ وہ گھر کے اندر ہی رفع حاجت اور پیشاب کرتا ہے، خواہ اسے گھر سے باہر یعنی گارڈن میں رفع حاجت اور پیشاب کرنے کی تربیت دی گئی ہو۔ لیکن گارڈن بھی گھر کا حصہ ہوتا ہے جہاں گھر کے مکین آرام کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں، کپڑے سوکھنے کے لئے لٹکائے جاتے ہیں اور اس سے جب قدرتی امر کے تحت پیار ہو جاتا ہے تو اسے اٹھاتے بھی ہیں اور گلے سے لگاتے بھی ہیں۔ کتے کی زبان ناپاک ہوتی ہے۔ کتا ہر وقت زبان نکالے رہتا ہے۔ وہ اس وجہ سے کہ وہ زبان سے آکسیجن حاصل کرتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مندرجہ بالا گزارش کے پیش نظر آپ اپنے شوہر اور صاحبزادوں کے ساتھ مشورہ کریں اور اسے جہاں کتوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے وہاں پر دے آئیں۔

 

دین اسلام کی اشاعت

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ دین اسلام کا تعارف، احیأ اور فروغ ہر گھر سے شروع ہوتا ہے اور اس کا منبع گھر کی عورت بطور ماں ہوتی ہے۔

 

وہ کس طرح؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ! قرآن و حدیث کی روشنی میں گھر کی عورت گھر گرہستی اور اولاد کی پرورش کرنے کی اور تعلیم و تربیت کرنے اخلاقی طور پر ذمہ دار ہوتی ہے اور گھر کا سربراہ گھر سے باہر اللہ کا فضل اخلاقی طور پر تلاش کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے تاکہ اولاد کی پرورش اور تعلیم وتربیت بھی ہو سکے اور جسم اور روح کا رشتہ بھی قائم رہ سکے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!چونکہ گھر کی عورت کی اخلاقی ذمہ داری اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت ہوتی ہے اس لئے اسے چاہیے نکاح ہونے سے پیشتر وہ کم از کم دین اسلام کا بنیادی علم حاصل کر لے اور ایسے واقعات کا علم حاصل کرلے جن واقعات سے دین اسلام کی اقدار کے مطابق روزمرہ کی زندگی کا شوق جنم لیتا ہو۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ بچے کی تعلیم و تربیت اس وقت سے شروع ہوتی جاتی ہے جب وہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور اسے جسم میں روح ڈال جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال مفتی سعید احمد پالنپوری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ضمن میں دی تھی

 

مفتی صاحب نے بتلایا تھا کہ جب ان کی اہلیہ قرآن پاک کی حافظہ نہیں تھی تو جو بچے پیدا ہوئے تھے انہیں قرآن کے حفظ کرنے میں زیادہ وقت لگا تھا بہ نسبت ان بچوں کے جب اہلیہ قرآن کی حافظہ ہو گئی تھیں۔ انہوں نے بتلایا کہ اللہ کی توفیق سے وہ گھر کے کام کاج کرتے ہوئے دل میں اللہ کے کلام کی تلاوت کرتی رہتی تھیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! بچے کی تعلیم و تربیت کا ماں کے پیٹ میں ہونا ہی ہوتا ہے۔ جب اس کے جسم میں روح پڑ جاتی ہے وہ زندہ ہوتا ہے اور اسے بھی اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے کھانے اور پینے کی ضررت ہوتی ہے۔ اس دستور کے تحت اللہ تعالٰی نے اپنے فضل وکرم سے ماں کے پیٹ کے اندر بچے اور ماں کے درمیان ناف کی سلسلہ باندھ دیا ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ناف کی ٹیوب کو کا ٹ دیا جاتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! جب بچہ ماں کے پیٹ میں زندہ ہو جاتا ہے تو وہ سنتا بھی، سمجھتا بھی ہے، بولنا سیکھتا بھی ہے۔ مثلاً:

 

٭جب بچے کی پیدائش ہو جاتی ہے تو باہر آتے ہی وہ رونا شروع کر دیتا ہے۔ اس رونے میں پیغام ہوتا ہے کہ وہ ناپاک ہے اسے نہلایا جائے۔

 

٭جب بچے کو نہلایا جاتا ہے اور وہ تروتازہ ہو جاتا ہے تو چپ ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ پھر رونا شروع کر دیتا ہے۔ اس رونے میں پیغام ہوتا ہے کہ وہ برہنہ ہے اسے کپڑے پہنائے جائیں،

 

٭جب پاک و صاف اور صاف ستھرے کپڑے پہنائے جاتے ہیں تو وہ چپ ہو جاتا ہے،

 

٭کچھ دیر کے بعد پھر رونا شروع کر دیتا ہے۔ اس رونے میں یہ پیغام ہوتا ہے کہ اسے بھوک لگی ہے۔ ماں جب بچے کے منہ میں پستان کی نیپل ڈالتی ہے تو بچہ اسے چوسنا شروع کر دیتا ہے۔ ماں کے پستان سے دودھ نکل کر بچے کے منہ میں آتا ہے اور دودھ کو نگلتا ہے اور دودھ خوراک کی نالی کے ذریعے پیٹ میں چلا جاتا ہے،

 

٭جب بچے کا پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ ماں کے پستان کی نیپل منہ سے نکال دیتا ہے۔ اس میں یہ پیغام ہوتا ہے کہ اس کا پیٹ بھر گیا ہے اور بھوک ختم ہو گئی ہے۔

 

٭وغیرہ۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مندرجہ بالا امثال سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ وہ ماں کے پیٹ میں سے ہی سیکھ کر آیا ہے۔ اور بچہ اسی وقت سیکھ سکتا ہے کہ جب وہ سنے گا۔ بچہ وہی علم حاصل کرے گا جو اس کی ماں روز مرہ کی زندگی میں کر رہی ہوتی ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ چودہ سو سال پیشتر دین اسلام کے احیأ کے لئے محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا تھا۔ جو مرد دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے تھے ان کی تعلیم و تربیت آپ صل اللہ علہ وسلم فرماتے تھے۔ مرد گھر میں جا کر گھر کی عورتوں کو تعلیم دیتے تھے۔ گھر کی عورتیں بچوں کو تعلیم دیتی تھیں اور تربیت کرتی تھیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دین اسلام مردوں کے توسط سے پھیلا ہے۔ بلا شبہ یہ صحیح ہے کیونکہ مرد اپنے شہر میں اور دوسرے ملکوں میں جا کر اللہ کا پیغام پہنچاتے تھے، ضرورت پڑتی تھی تو غیر مسلموں سے جنگ ہوتی تھی اور فتح ہونے پر اسلامی نظام قائم کیا جاتا تھا اور غیر مسلم دین اسلام کی خوبیاں دیکھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے تھے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! حقیقت یہ ہے کہ بلا شبہ دین اسلام کا تعارف، احیأ اور فروغ مردوں کے توسط سے ہوا۔ لیکن مردوں کو اس کام کے لئے کس نے تیار کیا؟

 

گھر کی عورت نے

 

محترمہ بھابی صاحبہ!گھر کی عورت نے اولاد کی:

 

٭تعلیم و تربیت کی بنیاد رکھی،

٭اسلامی اقدار کے مطابق روزمرہ کی زندگی کو گزارنے کا شوق پیدا کیا تھا،

٭زمانہ کے حالات کے مطابق گھوڑا سواری، تلوار بازی، نیزہ بازی، تیرا اندازی وغیرہ سیکھنے کی بنیاد رکھی تھی،

٭وغیرہ۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! دین اسلام کا تعارف، احیأ اور فروغ کے لئے وہ مرد ہی جا سکتے ہیں جو پرہیز گار اور پاکیزہ ہوں اور جنگی فنون سے واقف ہوں۔ ان مردوں کو کس نے تیار کیا؟

 

گھر کی عورت نے

 


محترمہ بھابی صاحبہ!تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چودہ سو سال پیشتر دین اسلام کے تعارف،احیأ اور فروغ کے تمغے کی سزاوارگھر کی عورت ہے نہ کہ مرد۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے مردو عورت میں مساوات رکھی ہے۔ یعنی کچھ کام مرد کرسکتا ہے عورت نہیں کر سکتی۔ کچھ کام مرد کر سکتا ہے عورت نہیں کر سکتی۔ مرد اور عورت دونوں ذہین ہیں۔ لیکن عورت ذہین اور بھولی ہے اور مرد ذہین اور چالاک ہے۔ مرد کو عورت پر اس وجہ سے اللہ تعالٰی نے فوقیت دی ہے کہ مرد طاقتور ہے اور عورت کمزور ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورت مرد کے مقابلہ میں حقیر ہے جیسا کہ قرائن بتلاتے ہیں کہ ہر زمانہ میں عورت کو حقیر سمجھا جاتا تھا اور آج بھی حقیر سمجھا جاتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! عورت اور مرد میں مساوات کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے:

 

غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے دس احباب کی جماعت تیار کی جاتی ہے۔ تمام احباب میں مساوات ہے۔

 

لیکن یہ اللہ تعالٰی کے دستور میں ہے کہ ایک جماعت کا امیر ہو جو کوئی عمل کرنے کا فیصلہ کرے گا اور ہر فرد اس کے فیصلے کے مطابق عمل کرنے کا پابند ہوگا۔

 

مختصر بہ کہ دس احباب ایک ساتھی کو جماعت کا امیر مقرر کر لیتے ہیں۔ اب جو ساتھی امیر مقرر ہوا ہے اس کو دوسرے ساتھیوں پر فوقیت حاصل ہو گئی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امیر دوسرے ساتھیوں کو اپنے سے حقیر سمجھے گا۔

 

جماعت کا یہ دستور ہے کہ کہ کوئی بھی عمل کرنے سے پیشتر مشورہ کر لیا جائے۔ جب آپس میں مشورہ کیا جاتا ہے تو سب میں مساوات جنم لیتی ہے۔ مشورہ میں اگر کسی ساتھی کا دیا ہوا مشورہ مان لیا جاتا ہے اور سب احباب اس پر راضی ہوتے ہیں اور امیر بھی اس کو مان لیتا ہے تو فیصلہ امیر کا ہوتا ہے اور اس کے نتائج کا ذمہ دار امیر ہوتا ہے نہ کہ وہ ساتھی جس کا مشورہ مان لیا گیا تھا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اسی طرح گھر کے سربراہ اور گھر کی عورت میں کوئی بھی کام کرنے سے پہلے مشورہ ہوتا ہے۔ اب دونوں میں مساوات نے جنم لیا۔ اب اگر گھر کے سربراہ نے گھر کی عورت کا مشورہ مان لیا تو فیصلہ گھر کے سرابرہ کا بطور امیر ہوگا۔ نتائج کی ناکامی یا ناکامی کا ذمہ دار امیر ہوگا نہ کہ گھر کی عورت جس کے مشورہ سے فیصلہ کیا گیا تھا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! عورت چونکہ بھولی ہے اور مرد چالاک۔ حالات حاضرہ میں ایک طرف مرد اسے مساوات کی راہ دکھلاتا ہے اور ساتھ ہی اسے حقیر بھی سمجھتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب غیر مسلم ملکوں کو اللہ کے فضل و کرم سے فتح کیا جاتا تھا تو دین اسلام کی خوبیوں کو دیکھ کر غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوتے رہتے تھے اسی طرح اگر گھر میں بھی اسلامی نظام قائم کیا جائے تو گھر کے مکینوں کی زندگی اسلامی اقدار کے مطابق گزرے گی اور جو رشتہ دار اور دوست احباب ملاقات کے لئے آتے ہیں گھر میں اسلامی نظام کو اسلام نظام کے تخت روزمرہ کی زندگی گزارنے کی دعوت دے گا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! گھر کا نظام گھر کے سربراہ اور گھر کی عورت کے مشورہ سے قائم ہوتا ہے۔ جب گھر کے ماحول کے مطابق اسلام نظام کا لائحہ عمل طے ہو جاتا ہے تو پھر اس نظام کی عملداری کی ذمہ داری گھر کی عورت پر ہوتی ہے کیونکہ گھر کے سربراہ کو اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لئے گھر سے باہر جانا ہوتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! حالات حاضرہ میں روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ چالاک مرد نے بھولی اور معصوم عورت کو کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے اور عورت کو اس کا احساس بھی نہیں ہے۔ حقیقت میں وہ کٹھ پتلی کی طرح مرد کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔مثلاً: مرد عورت کو جسم کے خط و خال کو برہنہ دیکھ کر محظوظ ہوتا ہے۔ مرد نے بھولی عورت کو ایسا بیوقوف بنایا ہے کہ وہ خاص طور پر گھر سے باہر جاتے ہوئے، کسی محفل میں جاتے ہوئے ایسے لباس زیب تن کرتی ہے کہ اس کے جسم کے خط و خال برہنہ بھی ہوں اور لباس ایسا ہو کہ اس کے جسم کے خط و حال نمایاں ہوں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! اللہ تعالٰی علیم ہیں اور بصیر بھی ہیں۔ رحمان اور رحیم بھی ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!دین اسلام خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہو چکا ہے۔ اب یہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کی ذمہ داری ہے کہ قیامت تلک اللہ تعالٰی کا پیغام بنی نوع انسان تلک پہنچاتے رہیں جس کا ذکر اللہ کے کلام میں ہے:

 

ترجمہ سورۃآل عمرانٰ آیت نمبر110

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تا مرون بالمعروف و تنہون عن المنکر و تو منون با للہ ط ولو اٰمن اھل الکتٰب لکان خیراً لہم ط منہم المومنون و اکثر ھم الفاسقون

 

تم ہو بہتر سب امتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر ط اور اگر ایمان لاتے اہل کتاب تو ان کے لئے بہتر تھا ط کچھ تو ان میں سے ہیں ایمان پر اور اکثر ان میں نافرمان ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!مختصر یہ کہ احقر آپ صل اللہ علیہ وسلم کا ادنٰی ترین امتی ہے۔ گزشتہ، کم و بیش، چالیس سال سے اللہ کی توفیق اور فضل و کرم سے اللہ کا پیغام بین الاقوامی سطح پر پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے انبیأ کو منتخب فرمایا کرتے تھے:

 

ترجمہ سورۃ ابراہیم آیت نمبر 11

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

ان کو کہا ان کے رسولوں نے ہم تو یہی آدمی ہیں جیسے تم لیکن اللہ احسان کرتا ہے اپنے بندوں میں جس پر چاہے ط اور ہمارا کام نہیں کہ لے آئیں تمہارے پاس سند مگر اللہ کے حکم سے ط اور اللہ پر بھروسہ چاہیے ایمان والوں کو۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!علمائے کرام آیت کے جزو:

 

لیکن اللہ احسان کرتا ہے اپنے بندوں میں جس پر چاہے

 

محترمہ بھابی صاحبہ! کی تفسیر فرماتے ہیں کہ اپنے بندوں میں سے جس بندے چاہے نبی کا منصب عطا فرما دیتے ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام مندرجہ ذیل آیت کی تفسر فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے فرشتوں میں اللہ کا پیغام انبیأ تلک پہنچانے فرشتے منتخب کر لیتے ہیں مثلاً :جبرئیل علیہ السّلام۔ اسی طرح اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں اپنا پیغام بنی نوع انسان تلک پہنچانے کے لئے آپ صل اللہ علیہ وسلم کے امتیوں میں سے کسی کو منتخب کر لیتے ہیں۔ اللہ کے آدمیوں میں سے منتخب کرنے سے مراد چودہ سو سال سے آپ صل اللہ علیہ وسلم کے امتی مراد ہیں:

 

ترجمہ سورۃ الحج آیت نمبر 75

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اللہ چھانٹ لیتا ہے فرشتوں میں پیغام پہنچانے والے اور آدمیوں میں ط اللہ سنتا دیکھتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل وکرم سے اس احقر کو توفیق دی کہ دین اسلام کا تعارف، احیأ اور فروغ امن کی تلاش کے پیغامات کے ذریعہ سے بین الاقوامی سطح پر کیا جائے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ الحمد للہ! آپ مسلمان ہیں۔ حقوق اللہ کی ادائیگی کی پابند ہیں۔ آپ کے شوہر کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ماحول اور فضا کا دبیز پردہ آپ کے دل کی اسلامی اقدار پر پڑا ہوا ہے۔ الحمد للہ اللہ تعالٰی آپ سے محبت کرتے ہیں۔ مغربی اقدار کے دبیز پردے کو ہٹانے کے لئے اس احقر کو گزارشات پیش کرنے کی توفیق دی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پیغام اللہ کا ہے اور قلم اس احقر کا ہے۔

 

دنیا کی حقیقت

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں:

 

٭دنیا امتحان گاہ ہے

 

٭دنیا آخرت کی زندگی میں کامیاب ہونے کی جگہ ہے

 

    What the Qur’an condemns is too much attention to the earthly life at the cost of forgetting the eternal life.

 

In Islam, dunya is a test; success and failure lead to paradise and hell, respectively.

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مندرجہ بالا حقائق مندرجہ ذیل اللہ کے کلام کی تفسیر نظر آتے ہیں:

 

ترجمہ سورۃیوسف آیت نمبر 101

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

۔۔۔۔۔۔۔اے پیدا کرنے والے آسمان اور زمین کے قف تو ہی میرا کار ساز ہے دنیا میں اور آخرت میں ج موت دے مجھ کو اسلام پر۔

 

ترجمہ سورۃالاعراف آیت نمبر 156

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اور لکھ دے ہمارے لئے اس دنیا میں بھلائی اور آخرت میں ہم نے رجوع کیا تیری طرف ط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ برے کام عارضی لذت کے حصول کے لئے کئے جاتے ہیں اور اچھے کام کرنے دل میں سکینت اور دماغ میں سکون جنم لیتا رہتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! دنیا کی زندگی مختصر ہے اور آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لئے ہے۔ جو بندے برے کام کرتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ وہ دنیاوی لذت کے حصول کے لئے جہنم کے عذاب پر صبر کرنے والے ہیں

ترجمہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 176 – 175

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 


یہی ہیں جنہوں نے خریدا گمراہی کو بدلے ہدایت کے اور عذاب بدلے بخشش کے ج سو کس قدر صبر کرنے والے ہیں دوزخ پر۔ یہ اس واسطے کہ اللہ نے نازل فرمائی کتاب سچی ط اور جنہوں نے اختلاف ڈالا کتاب میں وہ بیشک ضد میں دور جا پڑے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! حدیث قدسی میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں:

 

حدیث قدسی

 

اے بنی آدم!

 

ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے۔ اگر تو میری چاہت پر چلے گا تو میں تجھے وہ بھی دوں گا جو تیری چاہت ہے۔

 

لیکن اگر تو نے میری چاہت سے منہ موڑا تو میں تجھے تھکا دوں گا اور ہو گا وہی جو میری چاہت ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جو اللہ کے بندے، اللہ کی توفیق سے، ایمانداری اور دیانتداری سے زندگی گزارتے ہیں اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے ان پر اللہ کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ اور جو بندے جھوٹ اور فریب کو زندگی کا شعار بنا لیتے ہیں ان پر اللہ کی لعنتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے یعنی اللہ کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کا نزول رک جاتا ہے۔ اللہ کی نعمتیں ان کو ملتی ہیں جو ان کے مقدر میں ہیں لیکن ان میں برکت نہیں ہوتی۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! آئیے دنیا کی حقیقت کو چند مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو انسان کی جسم کے لئے نعمت بھی ہیں لیکن جب وہ جسم سے خارج ہو جاتی ہیں تو ان کی طرف دیکھ کر بھی کراہت ہوتی ہے۔

 

منہ میں لعاب

 

محترمہ بھابی صاحبہ! لعاب اللہ تعالٰی کی نعمت ہے جو انسان کے منہ میں اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق جنم لیتا رہتا ہے۔ اللہ کے حکم سے لعاب مندرجہ ذیل کام کرتا رہتا ہے۔

 

٭منہ کو تر رکھتا ہے تاکہ بندہ بات چیت کرتا رہے۔ بات چیت کرتے ہوئے لعاب حلق میں اترتا ہے اور حلق کو تر رکھتا ہے۔ لعاب کی اہمیت اس وقت محسوس ہوتی ہے جب زیادہ بات چیت کرنے حلق خشک ہو جائے گا۔ حلق خشک ہو جائے گا تو آواز نہیں نکل سکتی۔ حلق کو تر کرنے کے لئے پانی پینا پڑتا ہے۔ اسی لئے محفلوں، کانفرنسز، میٹنگز وغیرہ میں پانی کی بوتلیں رکھی جاتی ہیں۔

 

٭جب بندہ کھانا کھاتا ہے اور چباتا ہے تو لعاب لقمے میں شامل ہوتا رہتا ہے اور زود ہضم کا کام کرتا ہے۔ اسی لئے اطبأ کا کہنا ہے کہ لقمے کہ خوب ا کر کھایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لعاب اس میں شامل ہو سکے۔ اسی طرح پانی پیتے ہوئے بھی لعاب پانی میں شامل ہوتا رہتا ہے۔

 

٭جب بندہ کسی کراہت کو دیکھتا ہے یا بدبو سونگھتا ہے تو دل متلاتا ہے۔ جب بندہ لعاب کو تھوک دیتا ہے تو تھوکنے کی وجہ سے دل متللانا بند ہو جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں لعاب نے دل میں سے کراہت کو نکال دیا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!آپ نے دیکھا کہ جب تلک لعاب منہ میں ہوتا، حلق میں اترتا رہتا ہے، نظام ہضم کا حصہ بنتا رہتا ہے اس وقت تک کوئی کراہت نہیں ہوتی۔ لیکن جیسے ہی منہ سے نکل کر لعاب تھوک بن جاتا ہے تو اس کو دیکھنا بھی گوارا نہیں ہوتا اور اگر جسم کے کسی عضو پر لگ جائے تو دل میں کراہت جنم لیتی ہے اور عضو کو پانی سے دھونا پڑتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ ہے دنیا کی حقیقت کہ جب اس کی شکل بدل جائے تو اس کی طرف دیکھنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔ تاہم! لعاب پاک ہوتا ہے۔ جسم پر یا کپڑے پر لگ جانے سے جسم یا کپڑا ناپاک نہیں ہوتا۔ لعاب چونکہ پاک ہوتا ہے اس لئے ناپاک جگہ پر نہیں تھوکنا چاہیے۔ مثلاً :بیت الخلأ میں جو کموڈ ہوتا ہے یا کسی نجاست پر۔

 

کھانا اور پینا

 

محترمہ بھابی صاحبہ!جسم اور روح کے رشتے کو قائم رکھنے کے لئے انسان کو غذا کھانا اور پانی پینا لازمی ہے۔ اگر وہ غذا نہیں کھاتا یا پانی نہیں پیتا تو وہ کمزروی کا شکار ہو جائے گا۔ دور حاضر میں انسان نے زبان کی لذت کے لئے طرح طرح کے پکوان اور مشروب ایجاد کر لئے ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! غذا اور پانی جب انسان کے معدہ میں ہضم ہو جاتی ہے اور اس کی جزویات خون کا حصہ بن جاتی ہیں اور پھوک معدہ میں رہ جاتا ہے تو اس کو رفع حاجت کرتے ہوئے مقعد کے ذریعہ سے خارج کرنا ہوتا ہے۔ وہ لذیذ کھانے اور مشروب جو مزے لے لے کر کھائے اور پیئے تھے، جب مقعد سے خارج ہو کر فضلہ کی شکل اختیار کرتے ہیں اور بدبو جنم لیتی رہتی ہے تو اس کی طرف دیکھنے کو بھی دل نہیں چاہتا اور اسے فوراً فلش کر دیا جاتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں یہ ہے دنیا کی حقیقت کہ غذا اور پانی کی شکل بدل گئی تو اس کی طرف دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ فضلہ ناپاک ہوتا ہے۔ اس لئے مقعد کو پانی سے اچھی طرح دھونا ہوتا ہے کہ نجاست کا ذرہ بھی جسم کے ساتھ نہ لگا رہے وگرنہ وضو یا غسل بھی نہیں ہوگا۔ تاہم اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق فضلہ میں چونکہ زمین کی پیداوار اور جانوروں کے گوشت کا پھوک ہوتا ہے اس لئے یہ کھاد بن جاتا ہے۔ اگر اس کو فصل کا بیج بوتے ہوئے فضلہ کی کھاد زرخیز زمین میں شامل کر دی جائے تو فصل کی مقدار بھی زیادہ ہوگی اور کوالٹی بھی بہترین ہوگی۔

 

خون

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق غذا اور پانی کے ہضم ہو جانے خون بنتا ہے۔ بندے کے صحت و تندرست رہنے میں خون کا جسم میں مرکزی نقطہ تک ہونا لازمی ہے۔ اگر خون کی مقدار میں کمی ہو جائے گی تو کمزوری ہو جاتی ہے اور بیماریاں جنم لیتی رہتی ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق خون ناپاک ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے خون جسم سے نکل جاتا ہے تو اگر بندہ با وضو ہے تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ جب خون نکلنا بند ہو جائے یا اس عضو پر پٹی باندھ لی جائے تو تازہ وضو کرنا پڑے گا۔ خون چونکہ ناپاک ہے اس لئے خون پینا حرام ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ ہے دنیا کی حقیقت کہ خون پر ہی اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق بندے کی زندگی کا انحصار ہے لیکن جب خون جسم سے نکل جاتا ہے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اس خون کو پیا نہیں جا سکتا۔ تاہم! کسی دوسرے بندے کا خون میڈیکل اصولوں کے تحت ٹرانسفیوز کیا جا سکتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! اسی طرح بندہ کاروبار کرتا ہے، منافع کماتا ہے، جائدادیں خریدتا ہے اور فروخت کرتا ہے یا کرائے پر دیتا ہے اور گھر کو سجانے کے لئے طرح طرح کی مہنگی اشیأ خریدتا ہے اور ان پر فخر کرتا ہے۔ لیکن اللہ کے حکم سے جب کوئی زلزلہ آتا ہے، کوئی طوفان آتا ہے، کوئی سیلاب آتا ہے تو سب کچھ نیست و نابود ہو جاتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں یہ ہے دنیا کی حقیقت کہ جن دنیاوی چیزوں پر فخر کرتا تھا اب ان کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ دورہ حاضرہ میں امریکہ، جاپان اور پاکستان میں سیلاب اور طوفان آئے ہیں اور عمارتیں پانی میں ڈوب گئی ہیں اور لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔

 

دنیا کی حقیقت کا لب لباب

 

محترمہ بھابی صاحبہ! دنیا کی حقیقت کی اور بھی بے انتہا مثالیں ہیں۔ لیکن دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے مندرجہ بالا امثال ہی کافی ہیں۔ لیکن نفس اور شیطان انسان کے ضمیر پر غلبہ پا لیتے ہیں اور اپنی زندگی کے رخ کو تبدیل نہیں کرنا چاہتا جب کہ وہ اپنی زبان سے کہتا ہے:

 

سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں

 

لب لباب

 

محترمہ بھابی صاحبہ!مندرجہ بالا گزارشات کا لب لباب یہ ہے کہ ان گزارشات کا آپ اور آپ کے شوہر ویب سائٹ

 

www.cfpibadaahs.co.uk

 

محترمہ بھابی صاحبہ! کو لاگ ان فرمائیں۔ آپس میں تبادلہئ خیالات کریں اور اللہ تعالٰی کی رضا کے حصول کے لئے سر گرداں ہو جائیں۔ انشأ اللہ اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے آپ کی مدد فرماتے رہیں گے۔

 

والسّلام

 

نصیر عزیز

 

پرنسپل امن کی پکار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll Up