مضمون- اللہ کی نعمتیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

امن کی پکار

 

محترمہ بھابی صاحبہ

 

السّلام علیکم!

 

اللہ تعالٰی سے پر خلوص عاجزانہ دعا ہے کہ اپنے خصوصی فضل و کرم سے:

 

آپ کے رزق میں برکت فرماتے رہیں،

آپ کی ازواجی زندگی کامیاب ہو،

آپ کی اولاد ماں باپ کی فرمانبردار رہے،

دنیا اور آخرت کی زندگی میں کامیابی عطا فرمائے۔

 

آئندہ سال آپ اورآپ کے شوہر کو خلوص دل سے بیت اللہ اور مسجد نبوی کی زیارت سے نوازے اور عمرہ و حج کرتے ہوئے آپ اور آپ کے شوہر کو حدیث نبوی صل اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مفہوم کے مطابق گناہوں سے اس طرح پاک و صاف فرما دے کہ آپ اور آپ کا شوہرایک نو مولود بچے کی طرح ہو جائیں۔ قرآن پاک کی مندرجہ ذیل آیت حدیث پاک کے مفہوم کی تصدیق میں ہے

 

سورۃ الفرقان آیت نمبر 70

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

الا من تاب و اٰمن و عمل عملاً صالحاً فاولٰئک یبدل اللہ سیاٰ تھم حسٰنٰت ط

و کان اللہ غفورًا رحیما۔

 

مگر جس نے توبہ کی اور یقین لایا اور کیا کچھ کام نیک سو ان کو

بدل دے گا اللہ برائیوں کی جگہ بھلایاں اور ہے ا للہ بخشنے والا مہربان۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ ! الحمد للہ !آپ کے شوہرنے آپ کا تعارف گھر کے پکے ہوئے کھانے نے کروادیا تھا اور آپ کے ہاتھوں میں اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے کھانے میں جو لذت کی صفت رکھی ہے اس نے مجھے اپنی والدہ کی یاد دلا دی۔بکرے کے پایوؤں کو پکانے کا نسخہ میری ہمشیرہ نے میری والدہ کا نسخہ ہی بھیجا ہے۔ وہ پائے اسی نسخہ پر عمل کر کے پکاتی ہے۔ تاہم !آپ چونکہ پہلی مرتبہ اس نسخہ کو استعمال کریں گی اس لئے ہو سکتا ہے بہترین نتائج حاصل نہ ہو سکیں۔

 

میرا تعارف

 

محترمہ بھابی صاحبہ !مختصر تعارف یہ ہے کہ سال 1968 بی کام آنرز کرنے کے بعد لندن چارٹرڈ اکاؤٹینسی کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا تھا، سال 1979میں شادی ہو گئی، سال 1981میں مانچسٹر شفٹ ہو گئے جہاں اہلیہ کی ہمشیرہ رہتی تھی، ایک اکاؤٹینسی فرم سے تعارف بطور سب کنٹریکٹر جو بعد میں پارٹنر شپ میں بدل گیا، دوسرے پارٹنر کا فار میسی کا کارو بار بھی تھا۔ میرے اکاؤٹینسی پریکٹس سنبھالنے سے اس کا زیادہ وقت فارمیسی کا کاروبار بڑھانے میں لگنے لگا، میں نے، اللہ کے فضل و کرم سے، اس سے اکاؤٹینسی پریکٹس خرید لی، سال 1988میں اہل و عیال کے ساتھ، اللہ تعالٰی کے فضل وکرم سے، عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہوئے لاہور منتقل کر گئے، 6 ماہ تلک ایک چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ دوست کے ساتھ منسلک ہو گیا لیکن اکاؤٹینسی پروفیشن میں بھی رزق حلال کا عنصر نا ممکن نظر آنے لگا اور زرق حلال کے حصول کی خاطر اہلیہ سے مشورہ کیا اور پاکستان میں فروزن فوڈ انڈسٹری کی بنیاد ڈالنے کے لئے چھوٹے پیمانے پر کباب سموسوں کا کام شروع کیا۔ الحمد اللہ !کاروبار میں ترقی ہوئی۔ ڈیفنس کے قریب الفلاح ٹاؤن میں دو کنال زمین خرید رکھی تھی۔ ایک کنا ل پر دو منزلہ گھر بنایا، نیچے کے حصہ میں رھائش اختیار کی اور اوپر کا حصہ کاروبار کے لئے وقف کر دیا۔ جون 1992میں والد صاحب کے گھر سے اپنے گھر میں شفٹ ہوئے تھے۔ اگست 1992 اہلیہ کی ہمشیرہ مانچسٹر میں دنیا سے رخصت ہو گئی۔ ان کے شوہر اور بچے ان کی نعش کو لاہور تدفین کے لئے لے کر آئے۔ سب سے چھوٹا بیٹا 5 سال کا تھا اور دو بیٹے اور ایک بیٹی غالباً چودہ سال کی عمر زیادہ تھے۔ مختصر یہ کہ، اللہ کے فضل وکرم سے سے، ان کو والدہ کے صدمہ سے باآور کرنے کے لئے ان کے ساتھ مانچسٹرآنے کی توفیق ہوئی۔ قریباً آٹھ ماہ بعد جب وہ سیٹل ہو گئے تو اپنے ایک دوست حاجی شاکر حسین کے پاس منتقل ہو گیا تاکہ جن مؤکلوں کی طرف فیس واجب لادا تھی اس کی وصولی کی جائے۔ غالباً اپریل یا مئی 1993 میں حاجی شاکر صاحب کے یہاں منتقل ہوا تھا۔ حج کی تاریخ قریب تھی۔ حاجی شاکر صاحب نے بتایا کہ وہ اور ان کی زوجہ اور بہنوئی حج کی سعادت حاصل کر نے جا رہے ہیں، حج سے واپسی تلک میں مسجد میں سو جایا کروں کیونکہ رات کے وقت چوری چکاری کا خطرہ ہے۔ اب تلک ان کے بہنوئی مسجد میں سویا کرتے تھے۔ 8 جون 1993 کو حج سے واپس آئے۔ مورخہ 10 جون کو عشأ کی نماز کے بعد مسجد میں سو گیا تو آنکھ ہسپتال میں کھلی۔ بائیں ٹانگ کے نچلے حصہ اور دائیں ہاتھ کی کہنی تلک پلستر تھا۔ بتلایا گیا کہ چار دن کے بعد مجھے ہوش آئی ہے۔ تجزیہ کرنے سے پتہ چلا کہ حملہ آور نے پہلے سر پر لوہے کی راڈ سے ضرب لگائی جس سے میں بے ہو ش ہو گیا اور پھر جسم کی تمام ہڈیو ں پر ہڈیاں توڑنے کی غرض سے ضربیں لگائیں۔ مطلب کہ حملہ آور کو جان سے مارنا مقصود نہ تھا بلکہ عمر بھر کے لئے معذور کر دینا تھا۔ سر پر جو ضرب لگائی تھی اسکی وجہ سونگھنے کی حس کھو گئی۔ پاکستان آ گیااور ایک سال کے بعددوبارہ علاج کی غرض سے انگلینڈ واپس آیا اور لندن میں قیام کیا۔ حکومت کی طرف سے 83,000 اسٹرلنگ پاؤنڈزخموں کا ہرجانہ ملا جو کہ اس ہر جانے سے بہت کم تھا جو وکٹم سپورٹ کے مطابق ہاف ملین اسٹرلنگ پاؤنڈ ہونا چاہیے تھا۔ اللہ تعا لٰی کی توفیق سے کتاب:

 

The Public Authorities Servants or Masters

تصنیف کی گئی اور تمام سیاسی پارٹیوں کو بھیجی لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔

 

اللہ تعالٰی کے سیدھے راستے کی تلاش

 

محترمہ بھابی صاحبہ !مختصر یہ کہ لندن میں 13سال رہتے ہوئے نماز روزے سے دوری تھی۔ تاہم! اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے یہ خیال ستاتا رہتا تھا کہ آخرت کی زندگی میں کیا ہوگا اور اللہ تعالٰی کا قہر کس طرح سے برداشت ہوتا رہے گا۔ سال 1981میں مانچسٹر شفٹ ہو گئے تھے۔ اکاؤٹینسی پریکٹس بولٹن میں تھی اور گھر بری میں خریدا تھا۔ سال 1982 میں پاکستان سب سے چھوٹی ہمشیرہ کی شادی پر گئے تھے۔ اس وقت مکان نہ ہونے کی وجہ اہلیہ اور بچوں کو پاکستان چھوڑ آیا تھا کہ مکان خریدنے پر بلا لیا جائے گا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ ! انگلینڈ واپس آ کر مانچسٹر میں ایک کمرہ کرایہ پر لے لیا۔ الحمد للہ !رمضان المبارک قریب آ رہا تھا۔ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل وکرم سے دل میں ڈالا کہ اس رمضان المبارک میں پانچ وقت کی نماز ادا کی جائے، تراویح کی نماز ادا کی جائے اور روزے رکھے جائیں۔ الحمد للہ اللہ تعالٰی نے اس ارادے میں برکت ڈالی۔ گرمیوں کا موسم تھا دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوتی تھیں۔ دفتر سے چھٹی کے بعد مسجد ذکریا چلا جاتا تھا اور، اللہ کے فضل و کرم سے، نمازیں ادا کرنے کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت، بیانات سننے اور قرآن و حدیث اور دینی کتب کا مطالعہ کرنے کی توفیق ملتی تھی۔ اس دوران تبلیغی جماعت سے تعارف ہو گیا اور اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے، دل و دماغ میں،دین اسلام کی اشاعت کا جذبہ بین الاقوامی سطح پر جنم لیتا رہا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !مختصر یہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے دین اسلام کا تعارف، احیأ اور فروغ یعنی اللہ کا پیغام بین الاقوامی سطح پر پہنچانے کا اور امت مسلمہ خواب غفلت سے جگانے کا جذبہ دل و دماغ میں پیدا کر دیا جس کے نتیجہ میں، اللہ تعالٰی کی توفیق سے،مندرجہ ذیل ویب سائٹ قائم کئے گئے ہیں:

 

www.cfpislam.co.uk

www.cfpibadaahs.co.uk

www.cfppolitics.co.uk

www.callforpeace.org.uk

www.amankipukar.co.uk

امت مسلمہ کو خواب غفلت سے جگانا

 

محترمہ بھابی صاحبہ! امت مسلمہ کو خواب غفلت سے جگانے کے ضمن میں یہ سوال جنم لیا امت مسلمہ کی اکثریت حقوق اللہ اور حقوق ا لعباد کو کیوں بجا نہیں لاتی۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں سمجھ میں آیا کہ علمائے کرام بیانات میں ایسے لائحہ عمل کا ذکر نہیں فرماتے کہ کس طرح سے حقوق اللہ اور حقوق العباد اد روز مرہ کی زندگی میں اداکئے جا سکتے ہیں۔ اور نہ ہی ایسی کتب تصنیف کی جاتی ہیں کہ اللہ تعالٰی کے ہر حکم میں کتنی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں تاکہ دل و دماغ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کا شوق اور جذبہ پنپ سکے۔ مختصر یہ کہ اللہ کی توفیق سے مندرجہ ذیل کتب کی تصنیف کی گئیں:

 

        قضأ نماز کی ادائیگی

        وضو نماز کا حصہ کیوں ہے؟

        نماز انسان کی زندگی کا حصہ کیوں ہے؟

        As Salat: Why As Salat is Part of Mankind’s Life?

        تزکیہ نفس کیوں لازم ہے؟

        سونامی طوفان ہمیں کیا بتلا گیا؟

        ناموس رسالت کی حفاظت کیوں کی جائے؟

        کیا اسلامی ریاستوں کے سربراہ دین اسلام کا فروغ چاہتے ہیں؟

        کیا دینی رہنما دین اسلام کا فروغ چاہتے ہیں؟

        کیا امت مسلمہ دین اسلام کا فروغ چاہتی ہے؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ !الحمد للہ !کتب کو ہر شعبہئ زندگی میں پیش کیا گیا لیکن کوء شنوائی نہیں ہوئی کیونکہ امت مسلمہ غفلت کی گہری نیند سوئی ہوئی تھی اور ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !منصوبہ امن کی پکار کا مقصد انفرادی طور پر بھی مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کرتے رہنا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ آپ کے شوہر سے ہاف ایکڑ کیئر ہوم میں ملاقات ہوئی۔ ان سے تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ چند ہفتوں کے بعد انہوں نے وقتاً فوقتاً گھر کا پکا ہوا کھانا لانا شروع کر دیا جس کے ذریعے آپ سے غائبانہ تعارف ہو گیا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !جب کتب کے ذریعہ امت مسلمہ کو خواب غفلت سے نہیں جگایا جا سکا تو سوال جنم لیا کہ ایسی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ امت مسلمہ غفلت کی گہری نیند سو رہی ہے اور جاگنے کی کوشش نہیں کرتی؟ اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے بہت سوچ و بچار کے بعد سمجھ میں آیا کہ نفس اور شیطان نے انسان کو اللہ تعالٰی کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں سے غافل کر رکھا ہے جو ہر لحظہ اس پراللہ کے فضل و کرم سے برستی رہتی ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !آئیے جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح سے ہر لحظہ اللہ کی نعمتیں، رحمتیں اور برکتیں ہر انسان پر برستی رہتی ہیں جس کا انسان کو احساس نہیں۔

 

انسان کا اشرف المخلوقات ہونا

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے انسان کی تخلیق کا ارادہ فرمایا۔ زمین کی مٹی سے حضرت آدم علیہ السّلام کی ڈھانچے کی تعمیرکی گئی، اللہ تعالٰی نے اپنی روح کو حضرت آدم علیہ السّلام کے ڈھانچے میں پھونک دیا، آدم علیہ السّلام زندہ ہو گئے، آدم علیہ السّلام اللہ تعالٰی کی ذات یکتا پر ایمان لائے اور مسلمان ہو گئے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی نے شیطان کے بہکانے پر ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا اور ان کو اللہ تعالٰی گو ان کے توبہ و استغفار کرنے سے ان کو معاف فرما دیا تھا لیکن امتحان لینے کی غرض سے ان کو دنیا میں بھیج دیا کہ آیا وہ دنیا میں اللہ تعالٰی کی ہدایت کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں یا نہیں۔ جنت میں چونکہ وہ امتحان میں ناکام ہو گئے تھے اس لئے ان کو جنت سے نکالا گیا اورزمین پر بھیج دیا کہ ان کو ذریت دنیا میں ہی قیامت تک جنم لیتی رہے گی۔

 

کائنات کی تخلیق

 

محترمہ بھابی صاحبہ !علمائے کرام فرماتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق اس لئے کی گئی کہ جنت میں تو اللہ تعالٰی کے حکم سے طرح طرح کے کھانے اور مشروب تیار ہو جاتے تھے تاکہ ان کی جسمانی اور روحانی صحت و تندرستی برقرار رہ سکے۔ لیکن زمین پر جسم اور روح کے رشتے کو قائم رکھنے کے لئے انسان کو خود محنت کرنا پڑے گی جس کے لئے اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے حضرت آدم علیہ السّلام کو علم سے نوازا تھا کہ وہ کائنات کی تحقیق کرتے رہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !اللہ تعالٰی نے یہ دستور طے کر دیا کہ پیداوار زمین سے ہو گی اور بیج کو پنپنے کے پانی کی ضرورت ہوگی۔ اس لئے اللہ تعالٰی نے پانی آسمان سے اتارا جس کا ذکر قرآن میں ہے۔

 

ترجمہ سورۃطہٰ آیت نمبر54 – 53

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

وہ ہے جس نے بنا دیا تمہارے واسطے زمین کو بچھونا اور چلائیں تمہارے لئے اس میں راہیں اور اتارا آسمان سے پانی ط پھر نکالی ہم نے اس سے طرح طرح کی سبزی۔ کھاؤ اور چراؤ اپنے چوپایوں کو ط البتہ اس میں نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کو۔

 

ترجمہ سورۃالروم آیت نمبر24

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اور اس کی نشانیوں سے ہے یہ کہ دکھلاتا ہے تم کو بجلی ڈر اور امید کے لئے اور اتارتا ہے آسمان سے پانی پھر زندہ کرتا ہے اس سے زمین کو مر گئے پیچھے ط اس میں بہت پتے ہیں ان کے لئے جو سوچتے ہیں۔

 

ترجمہ سورۃالانبیأٰ آیت نمبر 30

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اور کیا نہیں دیکھا ان منکروں نے کہ آسمان اور زمین کے منہ بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا ط اور بنائی ہم نے پانی سے ہر ایک چیز جس میں جان ہے ط پھر کیا یقین نہیں کرنے؟

 

حاشیہ از مولانا شبیر احمد عثمانی

 

رتق کے اصل معنی ملنے اور ایک دوسرے میں گھسنے کے ہیں۔ابتداً زمین و آسمان دونوں ظلمت عدم میں ایک دوسرے سے غیر متمیز پڑے تھے۔ پھر وجود کے ابتدائی مراحل میں بھی دونوں خلط ملط رہے۔ بعد قدرت کے ہاتھ نے دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا۔ اس تمیز کے بعد ہر ایک کے طبقات الگ الگ بنے۔ اس پر منہ بند تھے۔ نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی، نہ زمین سے روئیدگی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے دونوں کے منہ کھلوا دئیے۔ اوپر سے پانی کا دہانہ کھلا، نیچے سے زمین کے مسام کھل گئے۔ اسی زمین میں سے حق تعالیٰ نے نہریں اور کانیں اور طرح طرح کے سبزے نکالے، آسمان کو کتنے بے شمار ستاروں سے مزین کر دیا جن میں سے ہر ایک کا گھر جدا اور حال جدی رکھی۔

 

یعنی عموماً جاندار چیزیں جو تک کو نظر آتی ہیں بالواسطہ و بلاواسطہ پانی سے بنائی گئی ہیں۔ پانی ہی ان کم مادہ ہے الا کوئی ایسی مخلوق جس کی نسبت ثابت ہو جائے کہ اس کی پیدائش میں پانی کہ دخل نہیں مستثنیٰ ہو گی۔ تاہم !الکثر حکم الکل کے اعتبار سے یہ کلیہ صادق رہے گا۔

 

سورۃالملک آیت نمبر30

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

قل اریتم ان اصبح ما ؤکر غورا فمن یا تیکم بماء معین۔

تو کہہ! بھلا دیکھو تو اگر ہو جائے صبح کو پانی تمہارا خشک،

پھر کون ہے جو لائے تمہارے پاس نتھرا پانی۔

 

حاشیہ مولانا شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ

 

یعنی زندگی اور ہلاکت کے سب اسباب اسی اللہ کے قبضہ میں ہیں۔ ایک پانی ہی کو لے لو، جس سے ہر چیز کی زندگی ہے۔ اگر فرض کرو چشموں اور کنوؤں کا پانی خشک ہو کر زمین کے اندر اتر جائے جیسا کہ اکثر موسم گرما میں پیش آ جاتا ہے تو کس کی قدرت ہے کہ موتی کی طرح شفاف پانی اس کثیر مقدار میں مہیا کر دے جو تمہاری زندگی کی بقأ کے لئے کافی ہو۔ لہٰذا! ایک مؤمن متوکل کو اسی خالق اکل مالک علی الا طلاق پر بھرسہ کرنا چاہیے۔ یہیں سے یہ بھی سمجھ لو کہ جب ہدایت کے سب چشمے خشک ہو چکے، اس وقت ہدایت و معرفت کا خشک نہ ہونے والا چشمہ محمد صل اللہ علیہ وسلم کی صورت میں جاری کر دینا بھی اسی رحمان مطلق کا کام ہو سکتا ہے جس نے اپنے فضل و انعام سے تمام جانداروں کی ظاہری و باطنی زندگی کے سامان پیدا کئے ہیں۔ اگر بفرض محال چشمہ خشک ہو جائے، جیسا کہ اشقیأ کی تمنا ہے توجو مخلوق کے لئے ایسا پاک و صاف ستھرا پانی مہیا کر سکے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !علمائے کرام فرماتے ہیں کہ پانی اور زمین کی پیداوار سے جسمانی صحت و تندرستی اور جسم اور روح کا رشتہ قائم رہ سکتا ہے اور اللہ تعالٰی کی عظمت و بڑائی کا دل و دماغ میں سمو سکتی ہے جس سے اللہ کا قرب نصیب ہو سکتا ہے اور پھر اللہ تعالٰی کی توفیق سے زندگی کا ہر لحظہ اللہ تعالٰی کے ذکر میں گزرتا رہے گا جو کہ انسان کی زندگی کا مقصد ہے اور اس کا ذکر اللہ تعالٰی نے اپنے کلام میں کیا ہے:

 

ترجمہ سورۃاحزاب آیت نمبر 42 – 41

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

یا ایھا الذین اٰمنوااذکروااللہ ذکراً کثیرا۔

لا وہ سبحوہ بکرۃواصیلا۔

 

اے ایمان والو! یاد کرو اللہ کی بہت سی یاد۔ لا

اور پاکی بولتے رہو اس کی صبح اور شام۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !مندرجہ بالا آیات کا بار بار غور و خوض سے مطالعہ کرنے اللہ تعالٰی کی عظمت و بڑائی دل و دماغ میں جنم لیتی رہے گی اور زندگی کا ہر لحظہ اللہ تعالٰی کی ہدایات کے مطابق گزارنے کا خلوص دل سے شوق جنم لیتا رہے گا۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !سوال جنم لیتا ہے کہ اللہ تعالٰی کا ذکر کرتے رہنے انسان کو کیا ملتا ہے؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ ! علماۓکرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی ذکر کرتے ہو ئے انسان کے دل میں سکینت اترتی ہے اور دماغ پر سکون رہتا ہے جس کا ذکر اللہ کے کلام میں ہے:

 

ترجمہ سورۃالرعد آیت نمبر 29 – 28

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

الذین اٰمنو و تطمئن قلوب بذکر اللہ ط

الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔ ط

 

لوگ جو ایمان لائے اور چین پاتے ہیں ان کے دل اللہ کی یاد سے ط

سنتا ہے اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں دل۔ ط

 

محترمہ بھابی صاحبہ !علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے ذکر سے بندے کے دل میں سکینت اترتی ہے تو اس کا دل نیک کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !علمائے کرام مزیدفرماتے ہیں کہ برے کاموں سے بچنا بھی نیک کام کرنے کے مترادف ہے جس کے صلہ میں اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو دنیا اور آخرت میں کامیابی عطا فرماتے ہیں۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ خوشحالی سے مراد دنیا کی کامیابی اور ٹھکانہ سے مراد آخرت میں کامیابی:

 

ترجمہ سورۃالرعد آیت نمبر 29

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

الذین اٰمنو وعملو االصٰلحٰت طوبی لہم و حسن ماٰب۔

جو لوگ ایمان لائے اور کام کئے اچھے خوشحالی ہے ان کے واسطے اور اچھا ٹھکانا۔

 

اللہ کا ذکر

 

محترمہ بھابی صاحبہ !سوال جنم لیتا ہے کہ اللہ کا ذکر کیا ہے؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ! کیا اللہ کا ذکر:

 

        اللہ کے کلام کی تلاوت کرتے رہنا ہی ہے؟

        اللہ کے ذاتی اور صفاتی ناموں کی تسبیح کرتے رہنا ہی ہے؟

        فرض اور نفل نمازیں پڑھتے رہنا ہی ہے؟

        اللہ کی راہ میں فرض اور نفل زکواۃ ہی ادا کرتے رہنا ہے؟ یعنی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے رہناہی ہے؟

        رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ نفلی روزے ہی رکھتے رہنا ہے؟

        ہر سال حج کرتے رہنا ہی ہے اور عمرے کرتے رہنا ہی ہے؟

        وغیرہ۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ ! بلا شبہ مندرجہ بالا تمام اعمال ذکر کرتے رہنا ہے۔لیکن مندرجہ بالا ہر عبادت کا ادا کرنے کا وقت معین ہے۔ مثلاً:

 

        گو کہ کلام پاک کی تلاوت کسی وقت بھی کی جا سکتی ہے لیکن کلام پاک کی تلاوت کا صحیح وقت نماز فجر کے بعد کا ہے کیونکہ مردوں کو اللہ کا فضل تلاش     کرنے کے لئے گھر سے باہر جانا ہوتا ہے اور عورتوں کو گھر گرہستی اور اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ادا کرنی ہوتی ہے،

    

    اللہ کے ذاتی اور صفاتی ناموں کی تسبیح کرنا نفلی عبات ہے،

        نماز کے اوقات دن اور رات میں سورج کی منزلوں کے مطابق معین ہیں،

        زکواۃ سال میں ایک مرتبہ صاحب نصاب پر فرض ہے،

        رمضان المبارک کے روزے سال میں ایک مرتبہ فرض ہیں،

         حج زندگی میں ایک مرتبہ صاحب نصاب پر فرض ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !اب سوال جنم لیتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے کلام میں کیوں بار بار زور دیا ہے کہ اللہ کا ذکر کثرت سے صبح شام گڑ گڑاتے ہوئے کرتے رہو؟

 

ترجمہ سورۃاحزاب آیت نمبر 42 – 41

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

یا ایھا الذین اٰمنوااذکروااللہ ذکراً کثیرا۔

لا وہ سبحوہ بکرۃواصیلا۔

 

اے ایمان والو! یاد کرو اللہ کی بہت سی یاد۔ لا

اور پاکی بولتے رہو اس کی صبح اور شام۔

 

ترجمہ سورۃالرعد آیت نمبر 29 – 28

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

الذین اٰمنو و تطمئن قلوب بذکر اللہ ط الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔ ط الذین اٰمنو وعملو االصٰلحٰت طوبی لہم و حسن ماٰب۔

 

وہ لوگ جو ایمان لائے اور چین پاتے ہیں ان کے دل اللہ کی یاد سے ط سنتا ہے اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں دل۔ ط جو لوگ ایمان لائے اور کام کئے اچھے خوشحالی ہے ان کے واسطے اور اچھا ٹھکانا۔

 

ترجمہ سورۃالاعراف آیت نمبر 205

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اور یاد کرتا رہ اپنے رب کو دل میں گڑگڑاتا ہوا اور ڈرتا ہوا اور ایسی آواز سے جو پکار کر بولنے سے کم ہو صبح کے وقت اور شام کے وقت اور مت رہ بے خبر۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حقیقت میں صرف دو ذاتیں ہیں:

 

        خالق

 

        مخلوق

 

محترمہ بھابی صاحبہ !مختصر یہ کہ انسان کو اللہ کی عبادت کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور مخلوق کو انسان کی خدمت کے لئے تخلیق کیا گیا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! خالق اللہ تعالٰی کی ذات یکتا ہے۔ مخلوق اللہ تعالٰی کی تخلیق ہے اور اللہ کی عبادت کے لئے تخلیق کی گئی ہے۔ تمام تخلیقات میں انسان اشرف المخلوقات ہے اور باقی تمام مخلوق، فرشتے، جنات،سورج، چاند، ستارے، سیارے، کہکشائیں،پرندے، درندے، جانور، پھل، سبزیاں، پہاڑ، سمندر، پانی، وغیرہ انسان کی خدمت کے لئے تخلیق کی گئی ہیں۔ ابلیس جو جنات کا سردار تھا اور اللہ تعالٰی کا بظاہر اتنا عبادت گزار تھا کہ اسے طاؤس الملائکہ کا خطاب دیا گیا۔ اللہ تعالٰی نے تمام مخلوقات کو حضرت آدم علیہ السّلام کو اشرف المخلوقات تسلیم کرنے اور ان کی خدمت کرنے کے لئے سجد ہ تعظیمی کرنے کا حکم دیا۔ الحمد للہ! تمام مخلوقات نے حضرت آدم علیہ السّلام کو تعظیمی سجدہ کیا بجز ابلیس کے، یعنی اس نے حضرت آدم علیہ السّلام کی خدمت کرنے سے انکار کردیا۔ مختصر یہ کہ انسان اور ابلیس میں دشمنی نے جنم لیا اور اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے انسان کو بار بار خبردار کیا کہ ابلیس اس کا دشمن ہے۔

 

ترجمہ سورۃ الاعراف آیت نمبر 26 -25

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

فرمایا تم اترو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے ج اور تمہارے واسطے زمین میں ٹھکانا اور نفع اٹھانا ہے ایک وقت تک۔ فرمایا اسی میں تم زندہ رہو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی سے تم نکاگے جاؤ گے۔

 

ترجمہ سورۃ البقرۃ ٓیت نمبر 209

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اے ایمان والو! داخل ہو جاؤ اسلام میں پورے ص اور مت چلو قدموں پر شیطان کے ط بیشک وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !اب سوال جنم لیتا ہے کہ تمام عبادات کا وقت معین ہے تو جو وقت صبح قرآن کی تلاوت کے بعد اور ہر نماز کے بعد بچتا ہے اس میں اللہ تعالٰی کا ذکر کیسے کیا جا سکتا ہے؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ !اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے انسان کو اپنی بندگی کے لئے تخلیق کیا ہے۔

 

ترجمہ سورۃالدھر آیت نمبر3 – 1

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

کبھی گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں کہ نہ تھا وہ کوئی چیز جو زبان پر آتی۔

ہم نے بنایا آدمی کو ایک دو رنگی بوند سے ق ہم پلٹتے رہے اس کو پھر کر دیا اس کو ہم نے سننے والا دیکھنے والا۔

ہم نے اس کوسجھائی راہ یا حق مانتا ہے اور یا ناشکری کرتا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ دل و دماغ میں اللہ تعالٰی کی ذات یکتا پر ایمان لانا اور اللہ کا شکر گزار ہوتے رہنا ہی اللہ کی بندگی ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! اب سوال جنم لیتا ہے کہ اللہ کا شکر گزار کیسے ہوا جا سکتا ہے؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ !مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو جسم کی نعمت سے نوازا ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ انسان کاجسم مندرجہ ذیل اعضا کا مرکب ہے

 

        کھوپڑی دماغ کی حفاطت کرتی ہے،

        ماتھا دل کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے

        کان علم حاصل کرنے کے لئے سنتے ہیں،

        آنکھیں دل کے پیغام کو نشر کرتی ہیں،

        ناک سے انسان سانس لیتا ہے اور خوشبو اور بدبو میں تمیز کرتا ہے،

        ہونٹوں کے بند ہو نے آواز رک جاتی ہے اور کھلنے سے آواز نکلتی ہے جس سے الفاظ بنتے ہیں

        بازو ہاتھوں کے معین ہوتے ہیں،

        ہاتھ ہر وقت کام کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں،

        انگلیاں ہتھیلیوں سے مل کر پکڑنے کا کام کرتا ہیں،

        انگوٹھا انگلیوں کے ساتھ مل کر کسیی بھی شئے کو پکڑنے میں قوت پیدا کرتا ہے،

        ہاتھوں کے ناخن انگلیوں کے پوروں کی حفاظت کرتے ہیں اور جسم کے کسی بھی حصے میں کھجلی کر سکتے ہیں،

        سینہ اندرونی اعضا کی حفاظت کرتا ہے،

        کمر بدن کو جھکانے کا کام کرتی ہے،

        رانیں جسم کو پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دیتی ہیں،

        پنڈلیاں بھی جسم کو پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد کرتی ہیں،

        گھٹنے جسم کو جھکنے میں مدد کرتے ہیں،

        پاؤں جسم کو چلنے اور بھاگنے میں معین ہیں،

        ٹخنے پنڈلی اور پاؤں میں جوڑ پیدا کرتے ہیں،

        پاؤں کی انگلیوں میں لچک ہوتی ہے جو چلنے میں مدد کرتی ہے

        پاؤں کا انگوٹھا اور انگلیاں مل کر کسی شئے کو ٹھوکر مار سکتے ہیں

         پاؤں کے ناخن انگلیوں کے پوروں کی حفاظت کرتے ہیں،

        پاؤں کی تلوا چلتے ہوئے گرم اور سردکی تمیز کر سکی ہے،

        جسم کے ہر عضو کی ہڈیاں انسان کے جسم کا ڈھانچہ بناتی ہیں،

        جسم کے ہر حصہ میں جوڑ انسان کو چلنے پھرنے، بھاگنے میں مدد کرتا ہے،

        جسم کے ہر عضو پر گوشت انسان کی شکل بناتا ہے۔

        سر پربال کھوپڑی کی حفاظت کرتے ہیں،

        جسم کے، کم و بیش، ہرحصہ پر بال جسم کے اندر کے فاسد مادوں کو باہر نکالتے ہیں،

        وغیرہ۔    

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مندرجہ بالا انسان کے جسم کے چندظاہر ی اعضا ہیں

جو انسان کے لئے ایک ہتھیار کا کام دیتے ہیں۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !اب آئیے جسم کے کا اندرونی اعضأ کا جائزہ لیتے ہیں۔ انسان کے جسم کے اندر مندرجہ ذیل اعضأ ہیں:

 

        کھوپڑی میں دماغ کانوں کے ذریعے سننے، سوچنے سمجھنے کا کام کرتا ہے،

        دل جسم کا وہ حصہ ہے جس سے پورے جسم میں خون کی گردش ہوتی رہتی ہے،

        رگیں تمام جسم میں پھیلی ہوئی ہیں جن کے اندر سے خون دوڑتا رہتا ہے،

        پھیپھڑے ناک کے ذریعے آکسیجن لیتے ہیں اور منہ کے ذریعے سے کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرتے ہیں،

        پیٹ کھانے اور پانی کو سٹور کرتا ہے اور پھر کھانا چھوٹی آنت میں چلا جاتا ہے،

        چھوٹی آنت میں خوراک کو تیزاب توڑتا ہے،

        جگر تیزاب پیدا کرتا ہے اور جیسے ہی خوراک چھوٹی آنت میں پہنچتی ہے تو پتہ کے ذریعے تیزاب چھوٹی آنت میں پہنچ جاتا ہے،

        جب خوراک ٹوٹ جاتی ہے تو وہ بڑی آنت میں چلی جاتی ہے جہاں خوراک کو ہضم کرنے کا اور خون کے بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے،

        جب خوراک ہضم ہو جاتی ہے تو مقعد کے ذریعے فضلہ خارج ہو جاتا ہے،

        گردے پانی کو فلٹر کرتے ہیں،

         اگلی شرم گاہ سے گندہ پانی خارج ہو جاتا ہے،

        ہڈیوں کے اندر گودا بنتا رہتا ہے جو ہڈیوں میں قوت کا باعث ہوتا ہے،

        جسم کے مختلف حصوں میں جوڑ جسم کو حرکت کرنے، مثلاً۔ اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، بھاگنے، انگڑائی لینے، کام کرنے میں مدد کرتے ہیں،

        جسم کے جوڑوں میں لیکوئڈ پیدا ہوتا ہے جو ہڈیوں کو گھسنے سے بچاتا ہے،

        دانت جو خوراک کو چبانے کا کام کرتے ہیں،

        لعاب جو منہ کے اندرونی حصہ کو خشک نہیں ہونے دیتا،

        زبان جو ذائقہ چکھتی ہے، الٹ پلٹ کر حلق سے نکلی ہوئی آواز کو الفاظ میں تبدیل کرتی ہے،

        حلق کے قریب وائس بوکس ہوتا ہے جہاں سے آواز نکلتی ہے،

        وغیرہ۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !مندرجہ بالا جسم کے مختصر اندرونی اعضا ہیں۔ اگر کوئی بھی عضو کسی کمی کا شکار ہو جائے توطبیب کی طرف رجوح کرنا پڑتا ہے اور اس کمی کو دور کرنے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں خواہ قرض لینا پڑے، جائداد فروخت کرنی پڑے، انسان دیوالیہ ہو جائے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ! مختصر یہ کہ انسان کے اندرونی اور بیرونی اعضأ اللہ تعالٰی کی نعمتیں ہیں جن کا انسان کو احساس نہیں ہوتا ہے۔ احساس کے نہ ہونے سے اللہ تعالٰی کی عظمت و بڑائی آشکارا نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ یعنی اللہ تعالٰی کی جو نعمتیں ہیں ان کو

 

Taken for Granted

 

لیا جاتا ہے جیسے یہ انسان کا اللہ تعالٰی پر حق ہے اور

اس کے لئے اسے اللہ کا شکر گزار ہونے کی حاجت نہیں ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !آئیے اب اللہ تعالٰی کی ان نعمتوں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں جو ہر لحظہ انسان پر برستی رہتی ہیں لیکن انسان کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔

 

توازن

 

محترمہ بھابی صاحبہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے انسان کو ایک ہی قسم کے دو یا دو سے زیادہ عضو دئیے ہیں، مثلاً:

 

        دو بازو

        دو ہاتھ

        دو ٹانگیں،

        دو پاؤں

        دو پھپھڑے

        دو گردے

        دو آنکھیں

        ہرہاتھ اور ہرپاؤں میں چار انگلیاں اور ایک انگوٹھا،

        وغیرہ۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !چونکہ انسان کے جسم کے اندرونی اور بیرونی اعضا میں دو کی تعداد ہے اس لثے اسن کے جسم کی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

 

        دائیں طرف

        بائیں طرف

 

محترمہ بھابی صاحبہ گہری نظر سے دیکھا جائے تو نظر آئے کا کہ دونوں ٹانگوں، دونوں بازوؤں کی لمبائی کا ایک ہی سائز ہے۔ اگر ایک ملی میٹر کا بھی فرق ہو گا تو توازن برقرار نہیں رہ سکتا۔ مثلاً:

 

        آپ ایک پاؤں میں جوتا پہنیں اور ایک پاؤں میں جوتا نہ پہنیں اور چلنا شروع کریں تو آپ کا توازن نہ ہونے کی وجہ سے چلنے میں تکلیف ہوگی، پوری رفتار سے بھاگ نہیں سکیں گی،

 

        اگر آپ کے دائیں پاؤں کا سائز آٹھ ہو اور بائیں پاؤں کا سائز سات ہو تو کیا توازن برقرار رہ سکتا ہے؟

 

محترمہ بھابی صاحبہ !اللہ تعالٰی کی جسم کے چند قسم کے اعضأ کی تعداد دو رکھنے میں یہ حکمت نظر آتی ہے کہ اگر جسم کا ایک عضو ضائع ہو جائے تو صرف ایک عضو سے بھی انسان اللہ کا فضل تلاش کر سکتا ہے۔ جسم کے اندرونی اعضأ میں ایک عضو ہے کہ اگر وہ ضائع ہو جائے اور جسم کے باقی تمام اعضأ صحت مند ہوں تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔

 

وہ عضو ہے دل

 

محترمہ بھابی صاحبہ !دل انسان کے جسم کا مرکزی عضو ہے جس کے ذریعے پورے جسم میں خون کی گردش ہوتی ہے۔ جب خون اعضأ کو نہیں پہنچتا تو آکسیجن بھی نہیں پہنچتی تو اعضأ کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

 

محترمہ بھابی صاحبہ !مختصر یہ کہ اگر انسان اپنے جسم کے ہر عضو کا جائزہ لیتا رہے تو نظر آئے گا کہ جسم کا ہر عضو اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے جس کا انسان کو احساس نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll Up