جسمانی طہارت اور پاکیزگی

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

امن کی پکار

 

جسمانی

صفائی، طہارت اور پاکیزگی

 

بھائیو اور بہنو

 

السّلام علیکم

 

خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے    بھائیو اور بہنو!

 

“پاکیزگی نصف ایمان ہے”

 

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ہر مخلوق کو پاک تخلیق کیا ہے یا پاک پیدا کیا ہے بجز سوئر کے۔ کتا جب گیلا ہو جاتا ہے تو اس کا جسم ناپاک ہو جاتا ہے۔ اگر گیلا کتا کسی شئے کو چھو جائے تو وہ شئے ناپاک ہو جاتی ہے اور اسے پاک و صاف کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً: اگر گیلا کتا کسی انسان کے کپڑوں یا جسم کے کسی عضو کو لگا تو وہ کپڑا اور عضو ناپاک ہو جاتا ہے اور اسے پاک و صاف کرنا پڑتا ہے۔ اگر کپڑے یا عضو کو پاک و صاف نہیں کیا جائے گا اور نماز زادا کی جائے گی تو نماز قبول نہیں ہوگی اور نماز کا فرض ساقط نہیں ہوگا۔

 


بھائیو اور بہنو! آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ کتا ہر وقت زبان باہر نکالے رکھتا اور ہکلاتا رہتا ہے۔کتے کے زبان کو باہر نکالنے اورہکلانے کی وجہ یہ ہے کہ زبان کے ذریعے سے اسے آکسیجن حاصل ہوتی ہے۔ کتے کی زبان ناپاک ہوتی ہے۔ اگر اسکا جسم خشک ہونے کے باوجود اس کی زبان یازبان سے جو رال ٹپکتی ہے وہ کسی شئے کو لگ جاگے تو وہ شئے تاپاک ہو جاتی ہے۔ بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کو اسی وجہ سے خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صلل اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے

 

جس گھر میں کتا ہو وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔

 

بھائیو اور بہنو!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ فرشتے پاک و صاف ہوتے ہیں اس لئے وہ اس جگہ جہاں ناپاکی ہو داخل نہیں ہوتے۔ پاک جگہ پاک بندوں کے لئے ہی ہوتی ہے۔ مثلاً: مسجد میں ناپاک مرد یا عورت داخل نہیں ہو سکتے۔ حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالٰی عنہا نے جب شیطان کے ورغلانے پر ممنوعہ دوخت کا پھل کھالیا تھا تو ان پر سے تقوٰی کا لباس اتر گیا تھا اور وہ برہنہ ہو گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں پاک و صاف جگہ جنت سے نکلنا پڑا تھا۔ کتا جب گھر میں ہوتا ہے تو اسے ہکلاتے رہنے اس کے منہ سے رال ٹپکتی رہتی ہے جو فرش پر گرتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ گھر کے مکین کتے کو گلے بھی لگاتے ہیں، گود میں بھی اٹھاتے ہیں اور چومتے چاٹتے بھی ہیں اور کتا بھی اپنی زبان سے ان کے منہ کو چومتا چاٹتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو!سوئر کے ناپاک ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب سوئرنی کو جنسی خواہش کہ پورا کرنا ہوتا تو وہ آواز لگاتی ہے اور بہت سے سوئر آکر باری باری اس سے اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے ہیں۔ سوئر کا گوشت کھانے والوں میں بھی سوئر اور سوئرنی کی خصلت جنم لیتی ہے۔ اسی وجہ سے مغرب میں جو مرد و عورت سوئر کا گوشت کھاتے ہیں عورتیں کئی مردوں سے جنسی خواہش کو پورا کرتی ہیں اور مرد کئی عورتوں سے جنسی خواہش کو پورا کرتے ہیں۔

 

بھائیو اور بہنو!علمائے کرام فرماتے ہیں کہ بنی نوع انسان اشرف المخلوقات ہے اور باقی تمام مخلوق بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے تخلیق یا پیدا کی گئی ہے۔اس لئے انسان کے لئے ضروری اور لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرتا رہے، اپنے جسم اور روح کو پاک و صاف رکھے اور اپنے خدمتگاروں کی صفائی، طہارت اور پاکیزگی کے لئے اسباب کا حصول کرے اور صفائی، طہارت اور پاکیزگی اے اصول و ضوابط کو بروئے کار لائے۔ اسباب میں جو اشیأ بظاہر بے جان نظر آتی ہیں وہ بھی خدمت گار ہونے کے ضمن میں آتی ہیں۔ ان کو بھی پاک و صاف رکھنا لازم ہے کیونکہ اگر بظاہر بے جان شئے میں ناپاک شئے تھی تو وہ شئے بھی ناپاک ہو گئی اور اگر اس شئے کا وہ حصہ جو ناپاک ہے بندے کے کپڑوں یا جسم کے کسی عضو کے ساتھ لگ گیا تو کپڑے اور جسم کا وہ حصہ بھی ناپاک ہو جائے گا اور اسے پاک و صاف کرنا ہوگا۔ بظاہر بے جان اشیأ جو کہ خدمت گار ہیں ان کے بھی ان کے مالک پر حقوق ہوتے ہیں جن کو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً: برتنوں کو استعمال کرکے ان کو دھونا اور خشک کرنا اور الماری مبں رکھنا ان کا حق ہے۔ بظاہر بے جان اشیأ حقیقت میں جاندار ہوتی ہیں جو کہ ایک علحیدہ مضمون ہے۔ لیکن مثال کے طور پر ہتھوڑی بے جان نظر آتی ہے لیکن لکڑی میں کیل آپ ہاتھ سے نہیں ٹھونک سکتے۔ لیکن جب آپ ہاتھ میں ہتھوڑی لے کر کیل کو لکڑی میں ٹھونکتے ہیں تو کیل لکڑی میں ٹھنک جاتی ہے۔ اب آپ بتلائیں کہ کیل آپ کے ہاتھ نے لکڑی میں ٹھونکی یا ہتھوڑی نے۔اس کا مطلب ہے کہ ہتھوڑی بھی جاندار ہے۔

 

بھائیو اور بہنو!حکومت کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ ملک کی مضافات مثلاً: سڑکیں، گلیاں، ہائی ویز، پارک، انڈسٹریل سٹیٹس، وغیرہ وغیرہ کی صفائی کا احسن طریقے سے انتظام کرے۔ اگر ہر گھر گھر کی صفائی کا اہتمام کرتا ہے اور حکومت مضافات کی صفائی کا اہتمام کرتی رہے تو ملک جنت کی مثل نظر آ سکتا ہے۔

 

انسان کی حقیقت

 

بھائیو اور بہنو!اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو انسان ناپاک عناصر کا مجموعہ ہے۔

 

وہ کس طرح؟

 

بھائیو اور بہنو

 

                ٭انسان کو گوشت کھانا حرام،

 

        ٭انسان کا خون حرام۔ اگر اس کے جسم سے خون بہہ نکلے تو وضو ببھی ٹوٹ جاتا ہے، کپڑوں کو لگ جائے تو کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں۔کسی بھی جاندار کا خون پینا حرام ہے۔

 

    ٭انسان کے پیٹ میں نجاست بھری ہوئی ہے۔ کھانا جب چھوٹی آنت میں تیزاب توڑ دیتا ہے تو بڑی آنت میں جا کر نجاست میں تبدیل ہو جاتا ہے جو دوسرے روز رفع حاجت کے ذریعہ سے نکانا پڑتا ہے۔ نجاست ناپاک ہوتی ہے۔مقعد کو اچھی طرں دھونا پڑتا ہے کہ مقعد میں نجاست کا نشان تک نہ رہے۔

 

٭مثانہ میں پانی ناپاک ہوتا ہے۔ہو سکتا ہے دن میں کئی مرتبہ مثانہ خالی کرنا پڑے۔ پیشاب کا قطرہ نکلنے سے عضو ناپاک ہو جاتا ہے اور اگر پیشاب کا قطرہ کسی کپڑے یا جسم کے دوسرے حصہ پر پڑ جاتا ہے تو وہ حصہ ناپاک ہو جاتا ہے اور کپڑے اور جسم کے حصہ کو پاک و صاف کرنا پڑتا ہے۔

 

        ٭کھانا کھایا۔ اگر منہ کے ذریعے قہ آجاتی ہے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

 

٭سفید رطوبت پور ے جسم میں پھیلی ہوئی ہے جو کہ ناپاک ہے۔ جب اس رطوبت کا کسی ذریعہ سے بھی اخراج ہوتا ہے تو پورا جسم ناپاک ہو جاتاہے۔ اس لئے پورے جسم کے انگ انگ کو اچھی طرح دھونا ہوتا ہے۔ اگر کسی عضو کو تھوڑا سا حصہ بھی خشک رہ جائے گا تو غسل مکمل نہیں ہوگا۔ حتٰی کے اگر دانتوں میں کو کھانے کا ذرہ بھی رہ گیا تو غسل مکمل نہیں ہوگا۔اور اگر ناخنوں کے اندر کوئی نجاست رہ گئی ہو تب بھی غسل یا وضو مکمل نہیں ہو گا۔ دور حاضر میں عورتوں کو ناخنوں کو بڑھانے کی ایک انڈسٹری بن چکی ہے۔ مصنوعی ناخن بھی بنائے جا رہے ہیں۔ مسلمان عورتوں کی     اکثریت بھی ناخن بڑھاتی ہے۔ اگر رفع حاجت کے بعد مقعد کو دھوتے ہوئے ناخنوں میں کوئی نجاست رہ جائے گی تو ان کو وضو نہیں ہوگا۔ اسکے علاوہ وہ ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کو نیل پالش بھی لگاتی ہیں۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر نیل پالش وضو کرنے کے بعد لگایا جائے گا تو وضواس وقت تلک قائم رہ سکتا ہے جب تلک وضو ٹوٹ نہ جائے۔ لیکن جیسے ہی وضو ٹوٹا تو دوسرا وضو کرنے کے لئے نیل پالش کو مکمل طور پر اتارنا ہوگا۔اگر ایک ذرہ برابر بھی نیل پالش کسی بھی ناخن پر رہ گیا تو وضو نہیں ہوگا۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر ناخنوں کے نیل پالش پر سات سمندروں کاپانی بھی دھونے کے لئے بہا دیا جائے تو دوسرا وضو مکمل نہیں ہو سکتا۔ اور یہ کہ عورتوں کے لئے ناخنوں کو خوبصورتی کے لئے بڑھانا گناہ ہے۔عورتوں کو ناخن بڑھانے کا نا قابل تلافی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

    

ایک ماں نے ہاتھ کے ناخنوں کی خوبصورتی پیدا کرنے کے لئے ناخن بڑھائے ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ بیٹا ماں کو دیکھ کر دوڑ کر ملنے آرہا تھا۔ ماں نے بھی بیٹے کو لئے لگانے کے لئے بازو پھیلا رکھے تھے۔ لیکن بیٹے کو گلے لگانے کا زاویہ کچھ اس طرح کہ تھا کہ ماں کے انگو ٹھوں کے ناخن بیٹے کی دونوں آنکھرں میں گھس گئے اور بیٹا بینائی سے محروم ہو گیا۔

 

        ٭وغیرہ۔

 

بھائیو اور بہنو! الحمد للہ! اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے انسان کے ناپاک عناصر کو جلد کا خول چڑھا رکھا ہے اور جلد کو پاک و صاف رکھنا لازم قرار دیا ہے۔انسان کے جسم کی جلد کو پاک و صاف کرنے کی اس قدر اہمیت ہے کہ کہ جب عورت یا مرد فوت ہو جاتا ہے تو اس کے جسم کو اچھی طرح سے غسل دینا ہوتا ہے کہ اس کے انگ انگ سے گندگی دھل جائے کیونکہ اسے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ غسل دینے کے بعد اس کے جسم کو سفید کپڑوں جنہیں کفن کا نام دیا گیا ہے، لپیٹا جاتا ہے اور صاف ستھری بغلی قبر میں لٹایا جاتا ہے اور مٹی ڈال کر قبر بھر دی جاتی ہے۔اگر قبر بغلی قبر نہیں تو پھر جسم کو سیدھی قبر میں لٹانے کے بعد قبر کے کناروں پر تختے رکھ دئیے جاتے ہیں اور تختوں کو اوپر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔اگر جسم تابوت میں بند ہوتا ہے تو پھر تابوت پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مٹی فوت شدہ انسان کے جسم پر نہ پڑے جو کہ فوت شدہ انسان کی بے حرمتی کے مصداق ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! زمین کی مٹی بھی پاک ہوتی ہے، اس لئے قبرستان کی مٹی بھی پاک ہے اور ناپاکی کو پسند نہیں کرتی اور اگر کوئی ناپاک نعش ہو تو اس کو باہر نعال پھینکتی ہے۔ اس ضمن میں ایک حکایت ہے۔

 

ایک مرتبہ ایک عورت کی نعش کو قبر کے سپرد کیا گیا اور قبر کو مٹی سے بھر دیا گیا تو قبر نے عورت کی نعش کو باہر پھینک دیا۔ مختصر یہ کہ جس قبر میں بھی اسے دفنایا گیا، قبر نعش کو باہر نکال پھینکتی۔ تحقیق کرنے سے پتہ چلا کہ وہ ایک بہت بدکار عورت تھی۔ حتٰی کے اس نے اپنے جوان بیٹے سے بھی اندھیرے میں کئی مرتبہ زنا کا ارتکاب کیا اور اس سے عورت کو حمل ٹہرا اور بیٹا پیدا ہوا۔ لیکن اس کے بعد بھی اس نے اپنے بیٹے سے زنا کا ارتکاب کرنا نہ چھوڑا تھا اور اسے گنہگار ہونے کا احساس بھی نہیں رہا تھا اور وہ بغیر توبہ و استغفار کئے مر گئی تھی۔

 

بھائیو اور بہنو! آپ نے دیکھا کہ زمین بھی ناپاکی کو پسند نہیں کرتی تو ایک گنہگار بغیر توبہ کئے یا بغیر دوزخ میں سزا بھگتے کیسے جنت میں جا سکتا ہے؟

 

بھائیو اور بہنو! نفس کتنا ظالم ہے اس ضمن میں بھی ایک واقعہ ہے۔

 

چودہ سو سال پیشتر ایک اللہ کا بندہ دائرہ اسلام میں واپس آگیا تھا۔ لیکن وہ اپنے گنہگار ہونے کو دہراتا رہتا تھا جس کا مفہوم ہے کہ میرا وہ گناہ کیسے اللہ معاف کر سکتا ہے جو مجھ سے دور جاہلیت میں ہو گیا تھا۔

 

خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو بلوایا اور اس سے پوچھا جس کا مفہوم ہے کہ تمہارا کونسا وہ گناہ ہے جو اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے معاف نہیں کرے گا جبکہ اللہ تعالٰی رحمان اور رحیم ہیں۔

 

صحابی نے اپنے گناہ کا ذکر آپ صل اللہ علیہ وسلم کو بتلانے سے گریز کیا۔ تاہم! آپ صل اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر اس صحابی نے روتے ہوئے بتلایا کہ زمانہ جاہلیت میں میں کفن چور تھا۔ ایک مرتبہ ایک قبر سے جو کفن چرایا تو نعش ایک بہت خوبصورت دوشیزہ کی تھی۔ نفس مجھ پر غالب آ گیا اور میں اس کے مردہ جسم کے ساتھ جنسی خواش کو پورا کیا۔ جب میں قبر سے باہر نکلا تو اس دوشیزہ نے کہاجس کا مفہوم ہے کہ میں تو پاک تھی تو نے مجھے ناپاک کر دیا۔

 

یہ بات سن کر آپ صل اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور صحابی کو وہاں سے چلے جانے کا کہا اور وہ چلا گیا۔

 

جب صحابی چلا گیا تو آپ صل اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہوا جس کا مفہوم کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے اس کے گناہ کو معاف فرما دیا ہے۔

 

(بھائیو اور بہنو! آیت تلاش نہیں ہو سکی)

 

آپ صل اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو بلوایا اور اسے خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالٰی نے تمہاری آہ و بکا سے اور خلوص دلی سے توبہ کئے، تمہارا وہ گناہ بھی معاف فرما دیا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! اس واقعہ میں کئی سبق چھپے ہوئے ہیں۔ ایک سبق تو پاکیزگی سے متعلق ہے کہ فوت ہونے کے بعد بھی نعش کو پاکیزہ حالت میں ہی رہنا ہوتا ہے کیونکہ اسے اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہوتا ہے اور پھر قیامت کے روز پاکی کی حالت میں اٹھنا ہو گا۔

 

بھائیو اور بہنو! اس واقعہ میں دوسرا سبق یہ ہے کہ نفس کتنا ظالم ہے کہ خوبصورت عورت کو دیکھ کر جنسی خواہش کو قابو میں نہیں کر سکتا۔

 

بھائیو اور بہنو! جسمانی صفائی اور پاکیزگی کے لئے اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے اپنے کلام قرآن پاک میں متعدد آیات میں ہدایات دی ہیں۔ مثلاً

 

ترجمہ سورۃالتوبہ آیت نمبر 108

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

فیہ رجال یحبون ان یتطھرو ط

واللہ یحب المطھرین۔

 

اس میں ایسے لوگ ہیں جو دوست رکھتے ہیں پاک رہنے کو

اور اللہ دوست رکھتا ہے پاک رہنے والوں کو۔

 

بھائیو اور بہنو! مندرجہ بالا آیت کے نزول کا بس منظر یہ ہے کہ جب خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تو قبا میں قیام پذیر ہوئے جہاں پر اس آیت کا نزول ہوا۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم سے قبا والوں سے دریافت فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ تم صفائی اور پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے کا کونسا طریقہ استعمال کرتے ہو۔ انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہم اللہ کی توفیق سے رفع حاجت کے بعد پہلے مٹی کے ڈھیلوں سے نجاست کو صاف کرتے ہیں ہیں اور پھر پانی سے دھوتے ہیں۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کہ مفہوم ہے کہ یہ آیت تمہاری شان میں اللہ تعالٰی نے نازل فرمائی ہے۔

 

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ہر بندے کو رفع حاجت کے بعد، آج کے دور میں، پہلے نجاست کو ٹشو پیپر سے صاف کرے اور پھر پانی سے دھوئے۔    

 

ترجمہ:سورۃ المدثر آیت نمبر 5 – 1

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اے لحاف میں لپٹنے والے!

کھڑا ہو پھر ڈر سنا دے۔

اور اپنے ربّ کی بڑائی بول۔

اور اپنے کپڑے پاک رکھ۔

اور گندگی سے دوررہ۔

 

بھائیو اور بہنو! مندرجہ بالا آیت میں خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہیں کہ اب وقت آن پہجنچا ہے کہ آپ علی الاعلان اللہ کا پیغام لوگوں تلک پہنچائیں۔ اس کے شاتھ ہی اللہ تعالٰی نے ہدایت فرمائی کہ اللہ کا پیغام پہچاتے وقت آپ کے کپڑے پاک و صاف ہونے چاہیں اہو ناپاکی کا کوئی عنصر آپ کے جسم کے ساتھ نہ ہو۔

 

بھائیو اور بہنو! لمائے کرام فرماتے ہیں کہ ہر داعی کے لئے ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کا علم حاصل کرتے ہوئے اور اللہ کا پیغام لوگوں تلک پہنچاتے ہوئے وہ باوضو ہوں اور ان کے کپڑے پاک و صاف ہوں۔

 

بھائیو اور بہنو!ذیل کی آیات میں اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے صفائی اور پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے ہدایت دی ہے

 

ترجمہ سورۃ المائدہ آیت نمبر۶

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اے ایمان والو

جب تم اٹھو نماز کو

تم دھو لو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک اور

مل لو اپنے سر کو اور پاؤں ٹخنوں تک ط

اور اگر تم کوجنابت ہو تو خوب پاک ہو ط

اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں یا کوئی تم میں آیا ہے جائے ضروریہ سے یا پاس گئے ہو عورتوں کے

پھر نہ پاؤ تم پانی توقصد کرو پاک مٹی کا

اور مل لو اپنے منہ اور ہاتھ اس سے ط

اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر تنگی کرے ولیکن چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور

پورا کرے احسان اپنا تم پر تا کہ تم احسان مانو۔

 

بھائیو اور بہنو!ذیل کی آیت میں صفائی اور پاکیزگی کی اہمیت کو اس قدر اجاگر کیا ہے کہ اگر پانی نہ ملے، یا پانی کا استعمال نقصان دہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا جائے

 

ترجمہ سورۃ النسأ آیت نمبر43

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اے ایمان والو! نزدیک نہ جاؤ نماز کے جس وقت کہ تم نشہ میں ہو یہاں تک کہ سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ اس وقت کہ غسل کی حاجت ہو مگر راہ چلتے ہوئے یہاں تک غسل کر لو ط اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو یا آیا ہے کوئی شخص تم میں جائے ضروریہ سے یا پاس گئے ہو عورتوں کے پھر نہ ملا تم کو پانی تو ارادہ کرو زمین پاک کا پھر ملو اپنے منہ کو اور ہاتھوں کو ط بیشک اللہ ہے معاف کرنے والا بخشنے والا ہے

 

بھائیو اور بہنو!جسمانی صفائی اور پاکیزگی کی اہمیت کی بنأ پر خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ا مت کو ہدایات فرمائیں اور علمائے کرام نے آپ صل اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی شرع فرمائی۔ بھائیو اور بہنو!ذیل میں کتاب غنیتہ الطالبین کا اقتباس نقل کیا جا رہا ہے۔

 

اقتباس کتاب غنیتہ الطالبین از شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ علیہ

 

غسل کا طریقہ اور احکام

 

     کامل اور                 

 

    بقدر ضرورت            

 

کامل غسل

 

کامل یہ ہے کہ جنابت یا حدث اکبر دور کرنے کی نیت کے ساتھ کیا جائے۔ دل سے نیت کرنے کے بعد زبان سے بھی کہہ لے تو افضل ہے۔

 

پانی لینے کے وقت بسم اللہ کہے، تین بار دونوں ہاتھ دھوئے۔ بدن پر جو نجاست لگی ہو اس کو دھو ڈالے۔ پھر فوراً وضو کرے۔ پاؤں اس جگہ سے ہٹ کر دھوئے۔ تین لپ پانی سر پر ڈالے کہ بالوں کی جڑیں تر ہو جائیں۔ تین مرتبہ سارے بدن پر پانی بہائے۔ دونوں ہاتھوں سے بدن بھی ملتا جائے۔ رانوں کے گوشے اور بدن کی کھال کی شکنیں بھی دھوئے۔ یقینی طور پر ان مقامات پر پانی پہنچنا چاہیے۔

 

حضور اقدس صل اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے بالوں کو تر کرو، جلد کو خوب صاف کرو کیونکہ ہر بال کی جڑ میں نجاست ہوتی ہے۔

 

دائیں جانب سے غسل شروع کرے۔ غسل کی جگہ سے ہٹ کر پاؤں دھوئے۔ دوران وضو میں اگر کوئی فعل وضو شکن نہ ہوا ہو تو اس غسل سے نماز پڑھنی جائز ہے۔ مزید وضو کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم اس غسل کو حدث اصغر اور حدث اکبر دونوں کو دور کرنے کے لئے کافی قرار دیں گے۔

 

اگر دوران غسل میں کوئی وضو شکن فعل ہو گیا ہو تو غسل کے بعد پھر وضو کرے۔ اس تفصیل کا اصل ثبوت اس روایت سے ملتا ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے بیان کی ہے کہ جب رسول صل اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کرنا چاہتے تو تین پار دونوں ہاتھ دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے لے کر الٹے ہاتھ پر پانی بہاتے، پھر کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے۔ تین بار منہ اور تین بار دونوں ہاتھ دھوتے۔پھر تین بار سر پر پانی ڈالتے اور دھوتے۔ جب غسل کر کے نکلتے تو دونوں پاؤں دھوتے۔

 

بقدر ضرورت غسل

 

بقدر ضرورت غسل کی کیفیت یہ ہے کہ پیشاب گاہ کو دھوئے، نیت کرے، بسم اللہ پڑھے۔ تمام بدن کو دھوئے۔ کلی بھی کرے اور ناک میں بھی پانی ڈال۔ کیونکہ دونوں واجب ہیں۔ وضو اور غسل میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے متعلق متضاد روایات آئی ہیں۔ایک روایت سے دونوں کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور ایک سے صرف غسل میں وجوب ثابت ہوتا ہے۔ صحیح ترین وہ روایت ہے جس سے دونوں کا وجوب وضو ثابت ہوتا ہے۔ (احناف کے نزدیک صرف غسل کامل میں واجب ہے)

 

اس غسل میں اگر وضو کی نیت نہ کرے تو اس سے (جنابت دور ہو جائے گی مگر دوبارہ) وضو کئے بغیر نماز نہیں ہوگی۔ اگر نیت کر لی ہے تو باقی ارکان وضو غسل میں آ جائیں گے۔ نیت وضو نہیں کی تو وضو نہیں ہوگا اور نماز درست نہیں ہوگی۔

 

رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کا وضو نہیں اس کی نماز نہیں۔ غسل کامل کی حالت اس کے مخالف ہے۔ اس میں وضو کامل ہو چکتا ہے۔

 

ضروت سے زائد پانی کا استعمال مستحب نہیں۔ درمیانی طور پر کرنا اچھا بھی ہے اور مستحب بھی۔ اگر غسل اور وضو کی ضروریات پوری ہو جائیں تو اسراف کے مقابلہ میں کم پانی استعمال کرنا بہتر ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع سے غسل کیا۔ مد کی مقدار ڈیڑھ ارطل ہوتی ہے اور صاع چار مد کا ہوتا ہے۔

 

بھائیو اور بہنو!اللہ کی توفیق سے کتاب: وضو نماز کا حصہ کیوں ہے؟ کی تصنیف کیے اس میں سے غسل جنابت کا باب نقل کیا جا رہا ہے:

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

جنابت

 

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی ذریّت کے جنم لینے کا نظام عورت و مرد کے ملنے میں رکھا ہے۔ اس کے علاوہ کنوار پن کی حالت میں جب جسم میں مادہ کی بہتات ہو جاتی ہے تو وہ سوتے وقت احتلام کے ذریعہ سے خارج ہو جاتی ہے، اور انسان جنبی ہونے کی صف میں داخل ہو جاتا ہے۔

 

قرآن پاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے، جس کا مفہوم ہے کہ اگر مومن جنبی ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ خود کو اچھی طرح سے پاک کرے۔

 

اطّباء کا کہنا ہے کہ انزال کے وقت جو سفید رطوبت عضو تناسل سے نکلتی ہے، وہ انسان کے سارے جسم میں محیط ہوتی ہے۔ جس طرح ہینڈ پمپ کے ذریعہ سے زمین سے پانی نکالا جاتاہے، اسی طرح سفید رطوبت عضو تناسل سے نکلتی ہے تو اس کے اثرات جسم کے ہر حصّہکے مساموں سے باہر نکل آتے ہیں جس سے جسم کا ہر حصّہ حتیٰ کے بال، دانت، زبان، مسوڑھے، حلق تمام ناپاک ہو جاتے ہیں۔

 

اسی لئے علمائے اکرام کا کہنا ہے کہ جب جنابت کا غسل کیا جائے تو دانتوں، مسوڑھوں وغیرہ کو اچھی طرح صاف کیا جائے۔ اگر دانتوں کے اندر کھانے کی کسی شئے کا ذرّات پھنس گئے ہوں تو ان کا نکال کر منہ کے اندرونی حصّہ کو اچھی طرح کلّی کرتے ہوئے دھونا چاہیے۔

 

علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ حلق میں پانی ڈال کر اسے باہر نکالا جائے، کیونکہ وہ حصّہ بھی ناپاک ہو چکا ہوتا ہے، تا کہ اگر کوئی شئے کھائی جائے تو وہ حلق سے گذرتے ہوئے ناپاک نہ ہو جائے اور پیٹ میں پہنچ جائے۔

 

بھائیو اور بہنو!نیز عورتیں جب حیض اور نفاس کے دنوں سے فارغ ہو جاتی ہیں تو ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اچھی طرح سے غسل کریں اور ہر طرح سے پاک و صاف ہو جائیں۔

 

لب لباب

 

بھائیو اور بہنو! علمائے کرام قرآن و حدیث کی روشنی میں قرآن پاک کی تفسیر اور حدیث کی شرح فرماتے ہیں کہ نہ صرف جن و انس کے لئے صفائی اورر پاکیزگی لازم ہے بلکہ اللہ تعالٰی کی ہر مخلوق: جمادات، نباتات، حیوانات کی صفائی اور پاکیزگی لازم ہے ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے ہر مخلوق انسان کی خدمت کے لئے تخلیق اور پیدا کی ہے۔ اگر انسان ناپاک مخلوق کا استعمال کرے گا تو وہ بھی جسمانی طور پر ناپاک ہو جائے گا۔

 

بھائیو اور بہنو!اللہ تعالٰی نے ہر مخلوق کی فطرت میں صاف اور پاک ہونے کا شعور پیدا کیا ہے۔ مثلاً

 

٭ہر جاندار: پرندے، گائے، بھینسیں، گھوڑے، ہرن، شیر، چیتے، مگر مچھ، وغیرہ کہ ان کے مالک نہلاتے ہیں یا پھر جب بارش ہوتی ہے تو اللۃ تعالٰی کی قدرت ان کو نہلاتی،

 

٭فصل اگانے کے لئے بیج کو پانی سے سیراب یعنی نہلانا ہوتا ہے۔ اگر بیج کو پانی سے سیراب نہیں کیا جائے گا تو بیج جل کر رہ جائے گا۔ جب بیج میں سے کونپلیں پھوٹتی ہیں تب بھی ان کو پانی کی مناسب مقدار سے سیراب کرتے رہنا ہوتا ہے۔ حتٰی کہ جب سبزیاں، پھل وغیرہ دکانوں پر بندوں کے لئے فروخت کے لئے آتی ہیں تب بھی ان کو پانی سے تر کرتے رہنا ہوتا ہے وگرنہ وہ مرجھانا شروع ہو جائیں گی اور ان کی جزیات انسان کی صحت کہ لئے فائدہ مند نہیں رہیں۔ جب بندہ سبزیوں اور فروٹ وغیرہ کو گھر لے آتا ہے تب بھی سبزی اور گوشت پکانے اور پھل کھانے سے پیشتر ان کو اچھی طرح دھویا جاتا ہے یعنی نہلایا جاتا ہے تاکہ وہ صاف اور پاکیزہ ہو جائیں۔

 

٭درختوں کے تنوں، شاخوں، پتوں، پھولوں، پھلوں کا غسل بارش سے ہوجاتا ہے اور ان کو وضو شبنم سے ہو جاتا ہے۔ ان پر جو گردو غبار جم جاتا ہے بارش اور شبنم اس کو دھو ڈالتی ہے اور وہ سورج کی روشنی میں چمکنے لگ جاتے ہیں اور فضا بھی پاک و صاف ہو تی رہتی ہے۔ فضا میں اللہ تعالٰی کے دستور کے مطابق آکسیجن پیدا ہوتی رہتی ہے جو انسان کے جسم اور روح کو قائم رکھتی ہے۔ اگر فضا میں پولیوشن ہو تو آکسیجن بھی پولیوٹ ہو جائے گی جس سے جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان کی صحت متاثر ہوگی۔ دور حاضر میں کارخانوں، کاروں، ہوائی جہازوں، بحری جہازوں وغیرہ سے جو دھواں نکلتا ہے وہ فضا کا حصہ بنتا رہتا ہے جس کی وجہ سے فضا پولیوٹ ہو چکی ہے اور ہر مخلوق کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔

 

٭وغیرہ۔

 

بھائیو اور بہنو!انسان کو صاف اور پاکیزہ ہونے کی ابتدأ رات کو سونے کے بعد جب صبح جاگتا ہے اور بستر سے اٹھتا ہے، اس وقت شروع ہوتی ہے۔ یہ ایک علحیدہ مضمون ہے۔ انشأ اللہ! اس مضمون کی بھی تصنیف کی جا رہی ہے۔ آپ اسے مضمون کو اسی آپشن کا لنک بنا دیا جائے گا: بنام: صفائی اور پاکیزگی کی ابتدأ۔

 

بھائیو اور بہنو!جسمانی صفائی اور پاکیزگی کے ساتھ ساتھ روح کی صفائی اور پاکیزگی یھی لازم ہے۔ اگر جسمانی صفائی اور پاکیزگی تو کی جائے گی لیکن روح کی صفائی اور پاکیزگی نہیں کی جائے گی تو اگر ایمان پر خاتمہ ہوگا تو روح کی صفائی اور پاکیزگی دوزخ میں کی جائے گی اور جب تلک روح کی مکمل صفائی اور پاکیزگی نہیں ہوگی اسے درزخ سے نہیں نکالا جائے گا۔ لیکن اگر ایمان پر خاتمہ نہیں ہوا تو پھر روح صاف اور پاکیزہ کبنی نہیں ہو سکے گی اور وہ بندہ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں جلتا رہے گا۔ بھائیو اور بہنو! یہ بھی ایک علحیدہ مضون ہے اور اسی آپشن کا لنک بنام: روح کی پاکیزگی ہے۔

 

بھائیو اور بہنو!آپ سے گزارش ہے کہ جسم اور روح کی صفائی اور پاکیزگی کا اہتمام کرتے رہیں تاکہ بحیثیت مسلمان آپ کا خاتمہ ایمان پر ہو اور اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے اللہ تعالٰی رضا کا حصول ہو اور آپ اللہ تعالٰی کے حکم کا مصداق بنیں اور ہمیشہ کے لئے جنت میں اللہ تعالٰی کی نعمتوں سے مستفید ہوتے رہیں جو کسی آنکھ نے نہ دیکھی نے کسی کان نے سنی اور نہ کسی کے وہم و گمان میں آ سکتی ہیں:

 

سورۃ الفجر آیت نمبر 30 – 27

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

یٰا یتھا النفس المطمءۃ۔ ق ارجعی الٰی ربک راضیتہ مر ضیتہ۔ ج

فاد خلی فی عبادی۔ لا واد خلی جنتی۔

 

اے وہ جس نے چین پکڑا۔ ق پھر چل اپنے رب کی طرف تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ ج

پھر شامل ہو میرے بندوں میں۔ لا اور داخل ہو میری بہشت میں۔

 

دعاؤں میں یاد رکھیں

 

والسّلام

 

نصیر عزیز

 

پرنسپل امن کی پکار


 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll Up