بسم اللہ الرحمن الرحیم
امن کی پکار
مسلمان بننے اور مسلمان بنانے کی دعوت
برادرم
السّلام علیکم
برادرم! مختصر یہ کہ اللہ تعالٰی کی ذات یکتا تھی، یکتا ہے، اور یکتا رہے گی۔ اللہ تعالٰی نے اپنی پہچان کے لئے انسان کو اشرف المخلو قات کا درجہ دیا اور باقی تمام مخلوق کو انسان کی خدمت کرنے کے لئے پیدا کیا۔ انسان کی یہ ذمہ داری ٹہرائی گئی کہ وہ اللہ کا فضل تلاش کرے اور اللہ کے قریب ہوتا رہے تاکہ اسے اللہ تعالٰی کی رضا کا حصول ہو جائے اور جنت میں آباد ہونے کا پروانہ مل جائے اور ہمیشہ کے لئے اللہ تعالٰی کی نعمتوں سے مستفید ہوتا رہے۔
برادرم! اللہ تعالٰی کی مخلوق جنات میں سے ابلیس جنات کا سردار تھا اور اللہ تعالٰی کا بہت عبادت گزار تھا کہ اسے طاؤس ملاثکہ کا خطاب دیا گیا تھا۔ لیکن جب اللہ تعالٰی نے اپنی تمام مخلوق کو انسان کی خدمت کرنے کے لئے حکم دیا تو تمام مخلوق بجز ابلیس کے انسان کی خدمت کرنے کا اقرار کیا۔ مختصر یہ کہ ابلیس کی عبادت بظاہر اللہ کی عبادت تھی لیکن وہ خود اشرف المخلوقات بننا چاہتا تھا۔ بلا شبہ اللہ تعالٰی علیم ہونے کے ناطے سے جانتے تھے کہ ابلیس کی عبادت ریاکاری کی عبادت ہے لیکن جب اس کی کی ریاکاری کو پول تمام مخلوقات کے سامنے کھل گیا تو اس نے یہ چیلنج کر دیا کہ وہ انسان کو اللہ کے سیدھے راستے سے پر چلتے رہنے سے بہکائے گا اور اپنے ساتھ دوزخ میں لے جائے گا۔
برادرم! قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ ابلیس بھی اللہ تعالٰی کی مخلوق تھی اور اس نے ریاکاری کی عبادت کی تھی لیکن اللہ تعالٰی نے رحمان اور رحیم ہونے کے ناطے سے ابلیس کو موقعہ دیا کہ کہ وہ انسان کی خدمت کرنے کا اقرار کر لے۔
وہ کس طرح؟
برادرم! اللہ تعالٰی کے طے کردہ دستور کے مطابق اگر بیٹا ماں باپ کا نافرمانبردار ہوجائے تو باپ اس کو اس کا فرمانبردار بنانے کیلئے دھمکی دیتا ہے کہ میں تمہیں سزا دوں گا، میں تمہیں گھر سے نکال دوں گا وغیرہ۔
برادرم! جب ابلیس نے انسان کی خدمت کرنے سے انکار کر دیا تھا تو اللہ تعالٰی اسے مردو قرار دیا۔ ابلیس نہ مانا تو اللہ تعالٰی نے فرمایا، میں تمہیں جنت سے نکال دوں گا، ابلیس پھر بھی نہ مانا تو اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ میں تمہیں دوزخ میں ڈال دوں گا۔ ابلیس پھر بھی نہ مانا تو اللہ تعالٰی نے ابلیس کو انسان کا دشمن قرار دیا۔ الحمد للہ! اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے اپنے کلام، قرآن پاک میں متعدد بار انسان کو یاد دہانی کروائی ہے کہ شیطان (ابلیس) اس کا کھلا دشمن ہے۔ مختصر یہ کہ جب انسان اللہ کا فضل تلاش کرتا ہے تو نفس اور شیطان اللہ کا فضل تلاش کرنے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔
برادرم! انسان کو اللہ تعالٰی نے اس دنیا میں بطور امتحان بھیجا ہے۔
برادرم! قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ انسان کو دنیا میں بھیجا جائے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے حضرت آدم علیہ السّلام کی کی تخلیق کی اور حضرت حوا رضی اللہ تعالٰی عنہا کو حضرت آدم کی پسلی سے پیدا کیا۔ ان کا آپس میں نکاح کر دیا اور ان کو جنت میں ہمیشہ کے لئے رہنے کے لئے بھیج دیا تاکہ وہ اور ان کی ذریت ہمیشہ کے لئے اللہ تعالٰی کی نعمتوں سے مستفید ہوتے رہیں۔ تاہم! حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے امتحان کے لئے جنت میں ایک درخت اگا دیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ اس درخت کے قریب بھی نہ جائیں وگرنہ وہ امتحان میں ناکام ہو جائیں گے اور انہیں جنت سے نکال دیا جائے گا۔
برادرم! مختصر یہ کہ شیطان چونکہ انسان کا دشمن بن چکا تھا اس لئے اسے حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالٰی کا جنت میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہوئے نہ بھایا۔ مختصر یہ کہ شیطان نے ان کو ورغلایا اور انہیں ممنوعہ درخت کا پھل کھانے کے لئے اکسایا۔ جیسے ہی انہوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا ان کا تقوٰی کا لباس اتر گیا اور وہ برہنہ ہو گئے۔ اب چونکہ وہ اللہ کے نافرمان ہو چکے تھے تو قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے ان کو ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ اب چونکہ تم میرے حکم کی نافرمانی کرنے وجہ سے گنہگار ہو چکے ہو اور تمہارا نفس پراگندہ ہو چکا ہے اس لئے نفس کو پاکیزہ کرنے کے لئے تمہیں ایک عرصہ تلک دوزخ کی آگ میں جلتے رہنا ہوگا۔ جب تمہارا نفس پاکیزہ ہو جائے گا تو تمہیں جنت میں واپس بھیج دیا جائے گا۔
برادرم! حضرت آدم علیہ السّلام کو دوسری آپشن یہ دی گئی کہ ان کو دنیا میں بھیج دیا جائے۔ اگر انہوں نے اپنی زندگی اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے اللہ کی ہدایت کے مطابق گزاری تو ان کو اللہ تعالٰی کی رضا کا حصول ہوگا اور ان کو اور ان کی ذریت کو موت کا جہاز لے کر جنت میں میں واپس لے آئے گا۔ تاہم! اگر وہ اور ان کی ذریت کے نفوس میں پراگندگی پائی گئی تو ان کو دوزخ میں بھیج دیا جائے گا تاکہ ان کا نفس پاکیزہ ہو جائے اور اللہ کے فضل و کر م سے انہیں جنت میں بھیج دیا جائے۔ برادرم! اللہ تعالٰی نے مزید فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ اگر کوئی انسان اللہ تعالٰی کی ذات کا منکر ہو گیا تو اس کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہو گا۔
برادرم! نفس وہ عنصر ہے جس سے انسان کا امتحان مقصود ہے۔ نفس ہمیشہ انسان کو اللہ کا نافرمان ہونے پر اکسائے گا۔ اگر انسان نفس پر قابو پا لیتا ہے تو وہ امتحان میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ تاہم! اگر نفس امارہ غالب آ جاتا ہے اور نفس لوامہ انسان کو اللہ کی نافرمانی کا احساس دلاتا ہے تو اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے توبہ و استغفار کا دروازہ کھرل رکھا کہ اگر بندہ خلوص دل سے شرمندہ اور پشیمان ہو کر اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالٰی رحمان اور رحیم ہونے کے ناطے سے نہ صرف گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں بلکہ گناہوں کہ نیکیوں میں بدل دیتے ہیں۔
برادرم! قرآن اور حدیث کی روشنی سے علمائے کرام اخذ فرماتے ہیں کہ حقیقت میں انسان کا اس دنیا میں امتحان یہ ہے کہ وہ خود بھی مسلمان بننے کی کوشش کرے اور دوسروں کو مسلمان بننے میں مدد کرے۔ مختصر یہ کہ یہ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کی مسلمان بننے میں مدد کریں۔
مسلمان بننے کی اہمیت
برادرم! اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے مسلمان بننے کی اہمیت کو اپنے انبیائے کرام کے جد و امجد نبی حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی زبانی آشکارا فرمایا ہے:-
برادرم! جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور ان کے فرزند اجمند حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے بیت اللہ کی تعمیر مکمل کی تو اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے دریافت فرمایا جس کا مفہوم ہے:-
میرے گھر بیت اللہ کی تعمیر کی
کیا اجرت چاہتے ہو؟
برادرم! حضر ت ابراہیم علیہ السّلام نے عرض کی جس کا مفہوم ہے:-
یا اللہ
ہمیں مسلمان بننے میں مدد فرما۔
برادرم! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعا میں اللہ تعالٰی کی تمام مخلوق شامل ہے۔لفظ ہمیں ایک سے زیادہ کے لئے استعمال ہوتا ہے، یعنی تعداد میں دو۔ لیکن لفظ ہمیں میں پوری مخلوق بھی شامل ہو تی ہے۔ برادرم! تو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعا میں پوری مخلوق شامل ہے جس کے معنی ہیں کہ:-
انسان خود بھی مسلمان بننے کی کوشش کرے اور
دوسروں کو بھی مسلمان بننے میں مدد کرے۔
منصوبہ امن کی پکار2023
برادرم! بلاشبہ اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا تھا لیکن مغربی اقدار کے اثرات سے میرا شمار بھی جاہلوں میں ہونے لگ گیا جس کا مجھے اللہ کی توفیق سے احساس ہوتا تھا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے اپنا فضل و کرم کیا اور مجھے اپنے سیدھے راستے کی تلاش میں گامزن کر دیا۔
برادرم! علمائے کرام فرماتے ہیں کہ تمام بنی نوع انسان، اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان پیدا ہوتے ہیں لیکن بلوغت حاصل کرنے کے بعد حقیقت میں ان کو شمار جاہلوں میں ہونے لگتا ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے:-
سورۃ التین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والتین والزیتون۔ لا وطور سینین۔ لا وھذالبلد الامین۔ لا لقد خلقاالانسان فی احسن تقویم۔ ز ثم رددنہ اسفل سافلین۔ لا الالذین امنو و عملو الصٰلحٰت فلھم اجر غیر ممنرن۔ ط فما یکذ بک بعد بالدین۔ ط الیس اللہ با حکم الحٰکمین۔
قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی۔ لا اور طور سینین کی۔ لا اور اس شہر امن والے کی۔ہم نے بنایا آدمی کو خوب اندازے پر۔زپھر پھینک دیا اس کو نیچوں سے نیچے۔ لا مگر جو یقین لائے اور عمل کئے اچھے سو ان کے لئے ثواب ہے بے انتہا۔ ط پھر تو اس کے پیچھے کیوں جھٹلائے بدلہ ملنے کو۔ ط کیا نہیں اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم؟
برادرم! علمائے کرام اس سورت کی تفسیر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل وکرم سے انسان کو بہترین صورت میں بنایا لیکن اسے دوزخ کی جانب پھینک دیا اور دوزخ میں گرنے سے بچنے کے لئے اس کے لئے لازم ٹہرایا کہ وہ نیک کام کرے۔ دوسرے الفاظ میں وہ دنیا میں قدم رکھنے کے بعد جاہلوں میں شمار ہونے لگا اور جاہلیت سے نکلنے کے لئے اسے نیک اعمال کرنے ہوں گے، یعنی اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان پیدا ہوا اور اب دنیا میں خلوص دل سے نیک اعمال کرتا رہے گا تو وہ مسلمان بنے گا۔ علمائے کرام مزید فرماتے ہیں کہ مسلمان ہونا تو آسان ہے لیکن مسلمان بننا آسان نہیں ہے۔ اس حقیقت کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے، اللہ تعالٰی کی توفیق سے، ایک شعر میں سمو دیا ہے:-
یہ شہادت گۂ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
برادرم! علمائے کرام قرآن اور حدیث کی روشنی میں اخذ فرماتے ہیں کہ حقیقت میں انسان کا شمار روز محشر تلک جاہالوں میں ہی ہوتا ہے۔ بلا شبہ لوگ نیک کام کرتے ہیں، اللہ تعالٰی کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ روز محشر میں پتہ چلے گا کہ آیا نیک اعمال اور توبہ و استغفار خلوص دل سے کی تھی یا ان میں ریاکاری کا عنصر تھا۔ جنات کے سردار ابلیس نے بھی بظاہر اللہ کی بہت عبادت کی تھی اور اسے طاؤس ملائکہ کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ لیکن جب انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا اور تمام مخلوق کو انسان کی خدمت کی خدمت کرنے کے لئے اللہ تعالٰی نے حکم دیا تھا تو تمام مخلوق نے انسان کی خدمت کرنے کا اقرار کر لیا تھا بجز ابلیس کے۔ جب ابلیس نے اللہ تعالٰی کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا تو اس کی ریا کار عبادت کا پول کھل گیا۔ برادرم! اسی طرح ہر انسان کا جاہل رہنا یا مسلمان بننا روز محشر میں پتہ چلے گا۔
برادرم! تاہم! اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے ایک انسان اپنے سوا کسی دوسرے انسان کو جاہل نہ سمجھے خواہ وہ غیر مسلم ہو یا منکر خدا ہو۔ بنیادی طور پر سب انسان مسلمان ہیں۔ نفس اور شیطان ان کو گمراہ کر دیتا ہے۔ لیکن اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے توبہ و استغفار کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے۔ ایسے واقعات بھی تاریخ میں موجود ہیں کہ منکر خدا اور کبیرہ گناہوں کے مرتکبوں کو توبہ و استغفار کی کی توفیق ملی اور اللہ کے فضل و کرم سے ان کا شمار اولیأ اللہ میں ہونے لگا۔ ایک حکایت ہے:-
ایک مسلمان عالم دین اور ایک منکر خدا کا مناظرہ ہوں۔ دونوں نے اپنے موقف کے مطابق دلائل دئیے۔ جب مناظرہ ختم ہوا تو منکر خدا اللہ تعالٰی کی ذات یکتا پر ایمان لے آیا اور مسلمان عالم دین منکر خدا بن گیا۔
برادرم! الحمد للہ! انبیائے کرام اللہ کے فضل و کرم سے معصوم ہوتے ہیں۔ لیکن کیا وہ خود کو معصوم سمجھتے ہوں گے؟ اس حقیقت کو ایک حکایت سے سمجھا جا سکتا ہے:
ایک مرتبہ حضرت موسٰی علیہ السّلام اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہوئے۔ اللہ تعالٰی نے ان سے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے: اے موسٰی! کوئی ایسی مخلوق کو ڈھونڈ کر لاؤ جو تم سے کمتر ہو۔
حضرت موسٰی علیہ السّلام اپنے سے کمتر مخلوق کی تلاش میں چلے گئے۔ حضرت موسٰی علیہ السّلام کو ایسے لوگ بھی ملے ہوں گے جو کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہو رہے ہوں گے، لوگوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوں گے، وغیرہ وغیرہ۔
ایک عرصہ کے بعد حضرت موسٰی علیہ السّلام اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہوئے۔ اللہ تعالٰی نے ان سے دریافت فرمایا جس کا مفہوم ہے: اے موسٰی! اپنے سے کمتر کونسی مخلوق ڈھونڈ کر لائے ہو؟
حضرت موسٰی علیہ نے عرض کی جس کا مفہوم ہے۔ یا اللہ! آپ کی توفیق سے میں نے آپ کی ہر مخلوق سے اپنا موازنہ کیا لیکن مجھے اپنے سے کمتر کوئی مخلوق نظر نہیں آئی۔
اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السّلام سے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے: اے موسٰی! اگر تم
ایک تنکہ بھی لے کر آتے تو تم نبوت کا حق ادا نہ کر پاتے۔
برادرم! مندرجہ بالا حکایت سے روز روشن کی طرح ظاہر ہوتا ہے کہ عاجزی اور انکساری کی حد یہ ہے کہ اللہ کے انبیأ بھی خود کو کسی مخلوق حتٰی کے تنکے سے بھی برتر سمھجتے ہیں تو عام انسان کی کیا حقیت ہے۔ ایک تنکے یا ذرے یا ایک کیڑے کی قوت کو اس طرح سمجھیں کہ اگر ایک تنکہ یا ذرہ یا کیڑہ آپ کی آنکھ میں داخل ہو جائے تو آنکھ کے لئے اس کی حیثیت ایک پہاڑ کی ہوگی۔ مثلاً: ایک لنگڑا مچھر نمرود جس نے خدائی کا دعوٰی کر رکھا تھا اس کے ناک میں، اللہ کے حکم سے، گھس گیا تھا تو اس کا کیا حال ہوا تھا کہ جو اس سے ملنے آتا اس کو ہدایت تھی کہ اس کے سر پر جوتے مارے۔ِ
برادرم! بات دوسری طرف نکل گئی تھی۔ آئیے اب منصوبہ: امن کی پکار کے اجرأ کی طرف آتے ہیں۔
برادرم! الحمد للہ! چارٹرڈ اکاؤٹینسی کی تعلیم حاصل کی۔مختصر یہ چارٹرڈ اکاؤٹینسی کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران اور پریکٹس کرنے کے دوران پتہ چلا کہ کاروباری دنیا میں ایمانداری اور دیانتداری کا فقدان ہے جو کہ پوری دنیا میں گمراہی کی وجہ ہے۔ غیر مسلم کے قطع نظر مسلمان کاروباری جو نماز کے پابند ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، حج بھی کرتے ہیں اور زکواۃ بھی دیتے ہوں گے لیکن جب لوگوں کے مالی حقوق ادا کرنے کا وقت آتا ہے تو اس وقت ان کے لئے مال و دولت مقدم ہو جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں:-
وہ لوگوں کے مالی حقوق ادا نہ کر کے امیر ہونا چاہتے ہیں اور مال ودولت کی محبت میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسروں کے مالی حقوق نہ ادا کر وہ امیرنہیں ہو سکتے اور جن کے مالی حقوق ادا نہ ہوں وہ غریب نہیں ہو سکتے۔
برادرم! ایسے بھی مسلمان متمول کاروباری ہوں گے کہ جن کا کروڑوں، اربوں روپوں کی ملکیت میں ہوں گے لیکن زکوۃہ ادا نہیں کرتے ہوں گے اور وراثت کے شرعی قوانین کی پابندی نہیں کرتے ہوں گے۔ تاہم! دنیا میں نام و نمود کی خاطر وہ لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں مثلاً: شادی بیاہ، پیدائش کی سالگرہ، شادی کی سالگرہ وغیرہ۔ ایک متمول رشتہ دار سے متعلق خبر ملی کہ آج (سال 2023) سے، کم و بیش، پندرہ سال پیشتر اپنی بیٹی کی شادی پر £70,000.00 خرچ کئے تھے۔ لیکن بد قسمتی سے ایک ماہ کے بعد اس لڑکی کو طلاق ہو گئی تھی۔ لیکن آج (سال 2023) بائیس سال پیشتر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا (وہ اس وقت اتنے صاحب ثروت نہیں تھے) اور £500.00 قرض حسنہ کی درخواست اس وجہ سے کی تھی کہ اس وقت منصوبہ امن کی پکار 11 ستمبر 2001 کے حادثہ پر کتاب تصنیف کر رہا تھا:-
The incident on 11 September 2001:
Terror or a Catastrophe?
برادرم! موصوف اس پوزیشن میں تھے کہ وہ 500.00£. بطور قرض حسنہ دے سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا۔
برادرم! الحمد للہ! دنیا کی سیاست کا جائزہ لیا گیا تو نظر آیا کہ حقیقت میں سیاستدانوں کو اقتدار کی تمنا ہوتی ہے جبکہ وہ عوام کہ بھلائی کرنے کا پرچار کرتے ہیں۔اقتدار میں آکر وہ عوام کے دولت جو ان کو ٹیکس کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اس کو اپنی دولت سمجھتے ہیں اور خفیہ طریقوں سے غصب کرتے ہیں۔ اسی طرح ذرائع بلاغ کا جائزہ لیا گیا تو نظر آیا کہ ان کو عوام کی بھلائی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ان کا مقصد بھی گمراہی کو دور کرنا نہیں ہوتا بلکہ مال و دولت کا حصول ہوتا ہے۔
برادرم! دینی اداروں کا جائزہ لیا گیا، علمائے کرام کی بیانات سنے، تجربہ اور مشاہدہ ہوا کہ بیانات میں صرف اسلامی تاریخ اور انبیائے کرام اور اولیا کرام کی سوانح حیات پر بیان ہوتا ہے یا پھر قرآن پاک کی تفسیر اورحدیث کی شرح بیان کی جاتی ہے۔ لیکن دین اسلام کی روح کس طرح سے انسانوں کے دل و دماغ میں اجاگر ہو جائے اس پر کوئی لائحہ عمل پیش نہیں کیا جاتا۔دین اسلام کی روح اللہ کی نعمتوں کا احساس کرتے رہنا ہے جو ہر لمحہ ہر انسان پر نازل ہوتی رہتی ہیں ان کا ذکر علمائے کرام کے بیانات میں بہت کم ہوتا ہے۔
برادرم! ایک مرتبہ انگلینڈ میں ایک دارالعلوم نے گزارش کی تھی کہ ان کو اکاؤٹینٹ دنیا سے رخصت ہو چکا ہے اس لئے ایک عالم کو مالی وصولی اور مالی ادائیگی سے متعلق ریکارڈ رکھنا سکھلا دیں۔ مالی وصولی کے ذرائع چندہ اور طلبأ کی فیس تھے۔
برادرم! مختصر یہ کہ جس عالم دین کو تربیت کی جا رہی تھی تو ان سے چندوں کی وصولی کے ضمن میں پتہ چلا کہ وہ مختلف قصبوں میں چندوں کے لئے غلّے رکھتے ہیں۔ جو بندہ ان سے وصولی کے لئے جاتا ہے اس کو ہدایت ہوتی ہے کہ اگر £1,000.00 کی وصولی ہو تو صرف700.00 £کی رسید دیں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ ایسا کیوں؟ اس طریقے سے تو وصولی کرنے والا، نفس اور شیطان کے زیر اثر کچھ وصولی اپنی جیب میں بھی رکھ سکتا ہے۔ اور وہ بندہ جو وصولی بنا رسید کے ہوتی ہے اس کو کہاں خرچ کیا جاتا ہے؟
برادرم! بتلایا گیا کہ باورچی خانے میں جو سٹاف ہے وہ ملازمت کو ظاہر نہیں کرتا اور وظیفہ وصول کرتا ہے۔ ان کو کیش دینا ہوتا ہے۔
برادرم! عالم دین سے عرض کی گئی کہ طلبأ کے لئے جو کھانا پکتا ہے اس میں تو حرام کا عنصر شامل ہو جاتا ہے تو طلبأ کی دل و دماغ میں دین اسلام کی روح کیسے پنپ سکے گی؟ عالم دین نے صرف اتنا کہا کہ کوشش کریں گے کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔
برادرم! مزید پتہ چلا کہ اساتذہ کی تنخواہ اس درجہ پر کتابوں میں دکھائی جاتی ہے کہ وہ حکومت سے فیملی کریڈٹ وصول کر سکیں۔ اس کے علاوہ ان کو کیش بھی دی جاتی ہے۔
برادرم! جب دینی اداروں میں اس طرح کی کاروائی ہوتی رہے گی تو دین اسلام کی روح کیسے انسانوں کے دل و دماغ میں پنپ سکتی ہے؟
برادرم! یہ صرف ایک دارالعلوم کا حال نہیں ہے بلکہ تمام دارالعلوم کا ایسا ہی حال ہے۔
برادرم! الحمد للہ! غیر مسلم مرد اور عورت دائرہ اسلام میں واپس آتے ہیں۔ عورتیں ویڈیو بنواتی ہیں اور ویب سائٹ یو ٹیوب پر شائع کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کا چہرہ بھی دکھایا جاتا ہے جبکہ اسلام میں عورت کے لئے غیر محرموں سے چہرہ چھپانے کی ہدایت ہے۔
برادرم!الحمد للہ! اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے دین اسلام کی اشاعت کے لئے گزشتہ، کم و بیش، پچاس سال میں تمام غیر مسلم ممالک میں مدارس، دارالعلوم اور مساجد وغیرہ کا اجرأ فرما دیا ہے اور مسلمان ہر غیر مسلم ملک میں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ لیکن کیا غیر مسلم مسلمانوں کی شخصیت و کردار سے متاثر ہوئے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوئے؟
ایسا کیوں نہیں ہوا؟
برادرم! جبکہ چودہ سو سال پیشتر خلافت راشدہ کے ساڑھے بار ہ سال کے مختصر عرصہ میں 25 لاکھ مربع میل پر غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے۔
برادرم! وہ اس لئے
برادرم! وہ نام کے مسلمان نہیں تھے بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعا کی قبولیت میں شامل ہو گئے تھے جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بیت اللہ کی تعمیر کی اجرت میں یہ دعا کی تھی جس کا مفہوم ہے:-
اے اللہ! ہمیں مسلمان بننے میں مدد فرما۔
برادرم! موّدبانہ گزارش کے ساتھ عرض ہے کہ آج کے دور میں کیا علمائے دین مسلمانوں کو مسلمان بننے میں مدد فرما رہے ہیں؟ یہ ایک علحیدہ موضوع ہے جس پر انشأاللہ! مضموں ترتیب دیا جائے گا۔
برادرم! مختصر یہ کہ نفس اور شیطان نے ایسا جال پھیلا رکھا ہے کہ امت مسلمہ کی اکثریت بظاہر مسلمان نظر آتی ہے لیکن باطن مسلمان نہیں نظر آتا۔ مثلاً: شیشے کے گلاس کو اندر اور باہر سے واشنگ لیکوڈ سے صاف کیا جائے اور بعد میں پانی سے جب تلک گلاس کے اندر اور باہر کو دھویا نہیں جائے گا اس وقت تلک گلاس میں چمک پیدا نہیں ہو سکتی۔ برادرم! اسی طرح جب تلک امت مسلمہ کا ظاہر اور باطن یعنی تزکیہ نفس نہیں ہوگا ان کے شخصیت و کردار میں چمک یعنی وہ نور جنم نہیں لے سکے گا جس کو دیکھ کر غیر مسلم متاثر ہوں گے اور دائرہ اسلام میں شوق سے داخل ہوں گے۔
برادرم! الحمد للہ! منصوبہ امن کی پکار نے علمائے کرام کے بیانات اور قرآن و حدیث اور اسلامی اور دنیا کی تاریخ سے یہ اخذ کیا کہ قیامت تلک آنے والے بندوں کو اللہ تعالٰی کے دین اسلام کا مقصد ان کو اللہ کے قریب کرنا ہے یعنی مسلمان بنانا ہے۔حقیقی طور پر مسلمان بننے کے لئے اللہ تعالٰی کی عظمت و بڑائی کو دل و دماغ میں سمونا ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی کی عظمت و بڑائی کو دل و دماغ میں سمونے کے لئے اللہ کی نعمتوں کا احساس کرنا ہوتا ہے اور شکر ادا کرتے رہنا ہوتا ہے۔
برادرم! مختصر یہ کہ منصوبہ امن کی پکار نے دین اسلام کے بنیادی شعائر کے ضمن میں مندرجہ ذیل کتب تصنیف کیں جن میں دین اسلام کے احکام کی حکمتوں کو کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی اور اللہ تعالٰی کی توفیق سے ایسا لائحہ عمل ترتیب دین کی کوشش کی گئی کہ مسلمان کی روزمرہ کی زندگی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتے ہوئے گزرے اور مسلمان بننے میں مدد کرے:-
قضا نماز کی ادائیگی
وضو نمازکا حصہ کیوں ہے؟
نماز انسان کی زندگی کا حصہ کیوں ہے؟
تزکیہ نفس کیوں لازم ہے؟
سونامی طوفان ہمیں کیا بتلا گیا؟
ناموس رسالت کی حفاظت کیوں کی جائے؟
کیا اسلامی ریاستوں کے سربراہان دین اسلام کا فروغ چاہتے ہیں؟
کیا دینی رہنما دین اسلام کا فروغ چاہتے ہیں؟
کیا امت مسلمہ دین اسلام کا فروغ چاہتی ہے؟
برادرم! مختصر یہ کہ کتب کو علمائے دین، دارالعلوم، اسلامی ریاستوں کے سربراہان، کتب فروشوں کو پیش کیا گیا لیکن کوئی پذیرائی نہیں ہوئی کیونکہ ان کتب میں جو اللہ تعالٰی کی توفیق سے مواد ترتیب دیا گیا تھا اس کا مقصد امت مسلمہ کو مسلمان بنانے کی کوشش تھی۔
برادرم! الحمد للہ! دنیا کی سیاست، خصوصاً، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سیاست کا سال 2008 سے جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس ضمن میں جو جائزہ، اللہ تعالٰی، کی توفیق سے لیا گیا ہے اس کو تحریری شکل بھی دی گئی ہے اور اس تحریر کو منظر عام پر لانے کے لئے اسے ویب سائٹ:-
www.cfppolitics.co.uk
پر شائع کر دیا گیا ہے۔
برادرم! الحمد للہ! ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر، کانگرس، سینٹ، سپریم کورٹ کو اس ویب سائٹ سے خبردارکیا گیا لیکن کوئی پذیرائی نہیں ہوئی۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا جائزہ لینے کا مقصد پوری دنیا کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی دعوت ہے۔
برادرم! الحمد للہ! یونائٹڈ کنگڈم کی سیاست کا جائزہ لینے کی کوشش بھی کی گئی جسکے نتیجہ میں کتاب:-
The Public Authorities: Servants Or Masters?
تصنیف کی گئی۔
برادرم! الحمد للہ! اس کتاب کی نقول سیاسی جماعتوں، لارڈ چانسلر، ذرائع ابلاغ، دوست احباب وغیرہ کو بھیجی گئیں لیکن کوئی پذیرائی نہیں ہوئی۔
برادرم! الحمد للہ! گزشتہ، کم و بیش، 40 سال سے اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے منصوبہ امن کی پکار کی سرپرستی فرما رہے ہیں۔ جب منصوبہ امن کی پکار کی پذیرائی نہیں ہوتی تو شیطان وسوسہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالٰی کی توفیق سے دل میں خیال جنم لیتا ہے کہ انبیائے کرام کو بھی ہدایت دینے کا اختیار نہیں دیا گیا تھا۔ ان کی نبوت کا مقصد بنی نوع انسان کو اللہ کا پیغام پہنچانا تھا جس کا ذکر اللہ تعالٰی نے اپنے کلام میں کیا ہے:
ترجمہ سورۃالبقرۃآیت نمبر 272
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تیرا ذمہ نہیں ان کو راہ پر لانا اور لیکن اللہ راہ پر لاوے جس کو چاہے ط
مضمون: مسلمان بننے اور بنانے کا پس منظر
برادرم! مختصر یہ کہ نومبر سال 2021 میں دل میں جو ٹیومر جنم لے چکا تھا، اس کو نکالنے کے لئے اوپن ہارٹ سرجری کی گئی اور صحیت یابی کے لئے ہالف ایکڑ کئیر ہوم ریڈ کلف میں عارضی طور پر قیام کرنا پڑا تھا۔ اس کئیر ہوم میں، الحمد للہ!آپ سے ملاقات ہوئی۔ مختصر یہ کہ منصوبہ امن کی پکار نے آپ کی ظاہری شخصیت و کردار کا مشاہدہ کیا کہ الحمد للہ! آپ مسلمان ہیں لیکن کو مسلمان بننے کی دعوت کی ضرورت نظر آتی ہے۔کس طرح سے، اللہ کی توفیق اور فضل وکرم سے منصوبہ امن کی پکار نے آپ کو مسلمان بننے کی دعوت دی، اس ضمن میں علحیدہ مضمون ترتیب دیا گیا ہے جو کہ اسی پوسٹ میں بنام: مسلمان بننے کی دعوت سے منسلک ہے۔
بنی نوع انسان کو پیغام
بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! ہم سب حضرت آدم علیہ السّلام کی ذریت ہیں اور اللہ تعالٰی کی لا تعداد مخلوقات میں سے ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ، اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے عطا کیا ہے اور دوسری تمام مخلوق کو انسان کی خدمت کے لئے مقرر کیا ہے۔
بھائیو اور بہنو!الحمد للہ! ہر انسان اللہ کا بندہ ہے اور بنیادی طور پر مسلمان ہے۔ مختصر یہ نفس اور شیطان کے زیر اثر بنی نوع انسان کی دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے:-
مسلم
اور
غیر مسلم
بھائیو اور بہنو!مختصر یہ کہ امت مسلمہ کی اکثریت بھی اللہ کے سیدھے راستے سے گمراہ ہو چکی ہے اور غیر مسلم تو گمراہی کے راستے پر ہیں ہی گو کہ بنیادی طور پر مسلمان ہیں۔
بھائیو اور بہنو!حضرت آدم علیہ السّلام کی ذریت: مسلم اور غیر مسلم کو مسلمان بننے کی دعوت دینے کی اشد ضرورت ہے۔
بھائیو اور بہنو!غیر مسلم خاتم الانبیأ محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا نبی اور رسول تسلیم نہیں کرتے لیکن آپ صل اللہ علیہ وسلم پر اللہ کا کلام وحی کے ذریعہ سے نازل ہوا تھا، عقلی طور پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ان کی رائے میں قرآن محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ وسلم کی تصنیف ہے۔ اس وجہ سے آپ صل اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک قانون دانوں کی فہرست میں سر فہرست ہے:-
سب سے بڑا قانون دان
The Greatest Law Giver
بھائیو اور بہنو!قانون دانوں کی فہرست لندن میں لنکنز ان، قانونی درسگاہ کے گرجا گھر میں آویزاں ہے اور ریاست ہائے متحدہ کی سپریم کورٹ کے باہر ایک کتبہ آویزا ں ہے:-
بھائیو اور بہنو! عقابی نظر سے دیکھا جائے تو دنیا کی سیاست اور ہر انسان کی روزمرہ کی زندگی اللہ کے کلام پر منحصر نظر آتی ہے۔ انشأ اللہ! اس ضمن میں ای ضمن میں علحیدہ مضمون ترتیب دیا جائے گا جو، اللہ تعالٰی کی توفیق سے، ویب سائٹ پر شائع کر دیا جائے گا۔
بھائیو اور بہنو! آپ سے گزارش ہے کہ مندرجہ ذیل ویب سائٹس کا جائزہ لیتے رہیں ے انشأ اللہ! مضامین کا مواد آپ کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے اور مسلمان بننے میں مدد کرے گا:-
www.cfpislam.co.uk
www.cfpibadaahs.co.uk
www.cfppolitics.co.uk
www.callforpeace.org.uk
www.mankipukar.co.uk
دعاؤں میں یاد رکھیں
والسّلام
نصیر عزیز
پرنسپل امن کی پکار